آگ ہماری زندگی کا اہم عنصر ہے۔ زمانہ قدیم سے آج تک اس کی اہمیت ہمیشہ کی طرح برقرار ہے تاہم ہمارے تجربات‘ ثقافتوں اور ماحول کو تشکیل دینے میں معاون یہی آگ اگر بے قابو ہو جائے تو سب کچھ خاک بنا دیتی ہے۔ رواں موسم گرما میں یونان‘ سپین‘ سوئٹزرلینڈ کے جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ پر تو قابو پا لیا گیا لیکن کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ تین کروڑ ایکڑ رقبے تک پھیل چکی ہے۔ اس آگ کی زد میں نہ صرف روس کے جنگلات آگئے ہیں بلکہ دھوئیں سے کینیڈا اور پڑوسی ملک امریکہ میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جس کی شدت کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل 2014ء میں کینیڈا کی جنگلات کی آگ سے کاربن کا اخراج 130میگا ٹن تھا لیکن حالیہ آگ سے کاربن کا مجموعی اخراج 290میگا ٹن تک پہنچ گیا ہے۔ کینیڈا کا شمار پہلے ہی دنیا میں تیزی سے گرم ہونے والے خطوں میں ہوتا ہے۔
انسانی صحت کو درپیش مسائل میں اگر کسی ایک مسئلے کو نشان زد کرنا ہو تو وہ مسئلہ یقینی طور پر موسمیاتی تبدیلی ہوگا۔ فضائی آلودگی‘ شدید موسمی واقعات‘ موسمی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات میں نقل مکانی‘ ذہنی صحت پر دباؤ‘ غذائی قلت‘ پینے کے صاف پانی کی کمی یہ سب وہ عوامل ہیں جوگلوبل وارمنگ اور اس کے سبب ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے پیدا کردہ ہیں۔ 2023ء لگاتار 10واں سال ہے جب کرۂ ارض کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح سے کم از کم ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا ہے۔ مسلسل تین سالوں سے رونما ہونے والے لانینا (La-Nina) کے واقعات نے حالیہ برسوں میں گلوبل وارمنگ کے حقیقی خطرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو موسم گرما میں شدید گرمی کی لہروں کا سامنا رہا۔ امریکہ اور چین میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے لے کر مشرقی ایشیا میں ہونے والی شدید بارشوں تک موسمیاتی تبدیلی انسان کو اس کے کمزور ہونے کا احساس دلا رہی ہے۔ براعظم یورپ اور شمالی امریکہ میں شدید گرم اور خشک موسم کی وجہ سے کئی ممالک میں درجہ حرارت 46ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
امریکہ کی ریاست ہوائی‘ جو سیاحوں کی جنت کہلاتی ہے‘ وہاں گزشتہ ہفتے لگنے والی آگ نے اس خوبصورت سیاحتی مقام کو ڈراؤنے خواب کے منظر میں تبدیل کر دیا۔ ریاست ہوائی کے جزیرے ماؤئی (Maui) میں آٹھ اگست کی درمیانی شب جنگل میں بھڑک اٹھنے والی آگ پلک جھپکتے ہی اس طرح پھیلی کہ اس نے ایمرجنسی سائرن سسٹم کو ناکارہ کردیا۔ ہوائی میں نصب ایمرجنسی سائرن سسٹم کا شمار دنیا کے بڑے ایمرجنسی سسٹمز میں ہوتا ہے۔ لاہائنا (Lahaina) ماؤئی کے شمال مغرب میں واقع تاریخی قصبہ ہے جہاں قدیم بادشاہوں کے گھر اور دیگر تاریخی مقامات کو دیکھنے دنیا بھر سے ہر سال 20لاکھ سیاح آتے ہیں۔ اس تاریخی قصبے کو آگ نے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اب تک 106سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘ حکام ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لوگ جان بچانے کے لیے بحرالکاہل میں کود گئے اور کئی افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر کھڑی تمام کشتیاں جل کر راکھ ہوگئیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے‘ تین ہزار عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ لاتعداد جلی ہوئی گاڑیوں اور عمارتوں کے بیچ ویران سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہر درد مند انسان کا دل دکھی ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا کیونکہ جو خطہ دنیا کے کئی سیاحوں کے لیے خوشیوں کا سبب تھا‘ اس خطے کی اپنی ہنستی بستی دنیا بڑی تیزی سے دیکھتے دیکھتے آگ نے جلا کر ویران کر دی۔ نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 5.5 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
ہوائی جزائر دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہیں جہاں موسم سرما میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جبکہ عام طور پر Tropical خطے میں زیادہ تر بارش موسم گرما میں ہوتی ہے۔ ہوائی کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں پچھلی چند دہائیوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ہر سال جلنے والے رقبے میں بھی غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق بارش کی کمی‘ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جزائر کے گرد موجود سمندر گرم ہو رہا ہے جو سمندری حیات اور ماحولیات کے لیے خطرہ ہے۔ ریاست ہوائی کا تقریباً 80فیصد حصہ غیرمعمولی طور پر خشک سالی کا سامنا کررہا ہے۔ شدید خشک سالی والے علاقوں میں ماؤئی (Maui) اور لاہائنا (Lahaina)شامل ہیں جہاں آگ نے قیامت برپا کر دی ہے۔ ہوائی کے جزیرے ماؤئی میں تین روز تک بھڑکنے والی حالیہ آتش زدگی اب تک کی بدترین قدرتی آفت میں سے ایک ہے۔
گزشتہ 40 سالوں میں وسطی بحرالکاہل سے گزرنے والے طوفانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا پوری دنیا میں طوفانوں کی فریکوئنسی اور شدت دونوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ ہوائی جزائر کے اردگرد سمندر کا ٹھنڈا پانی آنے والے طوفان کو فطری طور پر منتشر کردیتا تھا اور یہ ان تباہ کن طوفانوں کے خلاف ہوائی کے جزائر کو قدرتی شیلڈ فراہم کرتا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے ال نینو (El-Nino) کی وجہ سے یہ قدرتی رکاوٹ ختم ہورہی ہے۔ سمندر کے گرم پانیوں نے شاید 4300 میل کے اس سفر کو تیز تر کرنے میں مدد کی جو سمندری طوفان ڈورا کو میکسیکو کے پانیوں سے وسطی بحرالکاہل تک لے گیا۔ بحرالکاہل کے طوفان کے لیے یہ ایک غیرمعمولی طویل سفر ہے۔ کیٹیگری 4کے سمندری طوفان سے بننے والی ہوائیں ماؤئی کے جنوب میں 300میل دور تھیں اور شمال میں موجود ہوا کا ہائی پریشر سسٹم موجود تھا۔ سمندری طوفان ڈورا نے ان ہواؤں کی شدت میں اضافہ کیا اور خشک سالی نے مل کر جان لیوا آگ پر ایندھن کا کام کیا۔
روایتی طرزِ زندگی سے دوری نے بھی کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ روایتی طور پر ہوائی میں گنے‘ انناس اور دیگر فصلیں کاشت کی جاتی تھیں‘ اب سیاحت کی منافع بخش صنعت نے مقامی لوگوں کو کاشت کاری سے دور کر دیا ہے جس کی وجہ سے کاشت کے رقبے پر خود رو گھاس‘ جھاڑیاں اور دیگر آتش گیر خود رو پودے اُگ آئے ہیں (یہ خود رو گھاس اور جھاڑیاں نمی والے موسم میں روزانہ 10انچ تک بڑھ سکتی ہیں اور ان کی اونچائی 3میٹر تک ہوتی ہے‘ اگر انہیں خشک ہونے تک چھوڑ دیا جائے تو یہ آتش گیر مادہ بن جاتی ہیں)۔ حالیہ آگ کو پھیلانے میں مدد دینے والے چار عوامل میں سے ایک یہ خودرو گھاس بھی تھی جبکہ دیگر عوامل میں ابتدا ہی میں آگ پر کنٹرول نہ کرنا‘ طوفانی ہوائیں اورخشک سالی شامل ہیں۔
جنگلات میں لگنے والی آگ تو ہمیشہ سے ہی موجود رہی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اس کے بار بار ہونے کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کے باعث موسمی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں خشک سالی‘ سمندری طوفان اور سیلاب جیسے واقعات کو زیادہ شدید اور غیر متوقع بنا رہی ہیں۔ انتہائی موسمی واقعات جو ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں شاید ایک بار آئے ہوں گے‘ ہمارے ہاں عام ہوتے جارہے ہیں۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی رپورٹ کے مطابق موسمی نظام میں حالیہ بڑے انتہائی موسمی نمونے اور آفات‘ موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اور مزید کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کررہی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر کرنے کے لیے اگر اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو جزائر ہوائی میں نظر آنے والے خوفناک مناظر پورے کرۂ ارض پر پھیل سکتے ہیں۔