دنیا کی قدیم تہذیبوں کے افکار کی سمجھ بوجھ ہو یا اکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت گلوبل ویلیج کے روپ میں میسر مکمل کرۂ ارض یا پھر اس پر موجود سماج و ماحولیات کے تابناک مستقبل کے لیے شعوری انسانی تگ و دو‘ یہ سب اساتذہ کے مرہونِ منت ہے۔ اساتذہ معاشرے کا سنگِ بنیاد ہیں جو افراد اور اقوام کی فکری اور ذاتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ علم کی ترسیل‘ ذہنوں کی تشکیل‘ ذاتی‘ قومی‘ سماجی‘ سائنسی اور تمام دیگر علوم و فنون کے مختلف ادوار میں استاد کا مسلسل بنیادی کردار رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انسانی سماج میں ہر فرد بیک وقت طالب علم اور معلم ہوتا ہے۔ تعلیم اخلاقی اور جمالیاتی عمل ہے جو استاد اخلاقی مقصد سے غافل رہتے ہیں وہ بامقصد تعلیم دینے کے بجائے بے مقصد طریقے سے تدریس کا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں۔ تعلیمی عمل میں استاد کا فرض ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کو خود اپنائے اور اپنے عمل سے ان اقدار کو طلبہ میں منتقل کرے کیونکہ استاد کی شخصیت براہِ راست طالب علم پر اثرانداز ہوتی ہے۔ باقاعدہ استاد کے طور فرائض نبھاتے ہوئے ہر استاد پر یہ بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نسلوں کی ذہن سازی اس انداز میں کرے کہ وہ کسی کا آلہ کار بننے کے بجائے معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی و سماجی اقدار کی ترویج کر سکیں اور فلاحِ انسانیت ان کی اولین ترجیح ہو۔انسان کی زندگی سے جڑے ہر پہلو کا تعلق تعلیم سے ہے۔ معاشرتی اکائیوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما‘ تخلیقی قوتوں کی تربیت‘ سماجی عوامل و محرکات کے اثرات‘ نظم و نسق‘ نقطۂ نظر کی اہمیت‘ تہذیب و تمدن‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور زمانی تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنا ہی مقصدِ تعلیم ہے۔ طالب علموں کی فکری پرورش کے ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔
یونیسکو اور انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اساتذہ کے حقوق‘ ذمہ داریوں‘ ملازمت‘ پیشہ ورانہ ترقی‘ مزید تعلیم و ٹریننگ کے لیے 1966ء میں اقوامِ متحدہ میں سفارشات پیش کی تھیں۔ ان سفارشات کی روشنی میں 1994ء سے ہر سال پانچ اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک استاد کو دوسروں کی زندگیوں پر دیرپا اثر ڈالنے کے منفرد مواقع میسر ہوتے ہیں لیکن ان مواقع کا بھرپور استعمال نہ ہو سکنے کی کئی ساری وجوہات ہیں: اول تو دنیا کو اس وقت 6کروڑ 90 لاکھ اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ اساتذہ کی کمی کے اسباب میں کام کے حالات اور کمزور معاشرتی حیثیت بھی شامل ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عالمی ادارے نے ''اساتذہ کی تعداد میں مزید کمی کو روکنا اور ان کی تعداد کو بڑھانا‘‘ اس سال اپنے عالمی ایجنڈے میں سر فہرست رکھاہے۔ دوم وہ اساتذہ جو درسگاہوں میں کام کر رہے ہیں‘ خاص طور پر جنوبی ایشیا اور افریقہ میں‘ ان میں بنیادی قابلیت اور پیشہ ورانہ ٹریننگ کا فقدان ہے۔ سوم بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ چہارم نئے ٹیلنٹ کو اس پیشے کی طرف راغب کرنا نہ صرف مشکل ہوگیا ہے بلکہ جو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں وہ بھی اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا زیادہ منافع بخش پیشہ اپنانے کے خواہش مند ہیں۔ اس سلسلے میں یونیسکو نے دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ مل کر کام کر نا شروع کیا ہے تاکہ تدریسی ضروریات کا اندازہ‘ اساتذہ کی بھرتی‘ تعیناتی‘ انتظام اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے مضبوط شواہد پر مبنی پالیسیاں اپنائی جا سکیں۔ اساتذہ کی معاشرے میں حیثیت اور اہمیت سے متعلق یونیسکو نے عالمی لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ٹیچر پالیسی ڈویلپمنٹ گائیڈ تیارکی ہے۔ معاونت کا ایک اہم شعبہ کلاس روم سے پالیسی کی سطح تک تعلیمی فیصلہ سازی میں اساتذہ کی شرکت کے حوالے سے ہے۔ قومی حکومتوں کے ساتھ سماجی مکالمے میں مؤثر طریقے سے حصہ لینے کے لیے اساتذہ کی تنظیموں کی صلاحیت بڑھانے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ یونیسکو اساتذہ کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی تدریسی ٹریننگ اور دور دراز علاقوں میں ہا ئبرڈ تدریس میں مہارت حاصل کرنے میں معاونت کر رہا ہے۔
خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں فی استاد طالب علموں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 47.6 ہے جبکہ بھارت میں یہ تناسب 35‘ بنگلہ دیش میں 33 اور ایران میں 26.7ہے۔ کلاس روم میں فی استاد طالب علموں کی زیادہ تعداد استاد کے انفرادی سطح پر طلبہ کو توجہ دینے کی راہ میں حائل ہے۔ دورانِ تدریس اساتذہ کو جن دیگر مسائل کا سامنا ہے ان میں کم تنخواہ‘ فرسودہ اور غیرمتعلقہ نصابی مواد‘ ناکافی تدریسی مواد‘ سکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان‘ تدریسی پیشے کے لیے احترام کی کمی بھی اساتذہ کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پبلک سیکٹر سکولوں میں تعلیم کے معیار میں تنزلی کی وجوہات میں ملٹی گریڈ ٹیچنگ‘ کام کا زیادہ بوجھ‘ غیر تدریسی ڈیوٹیاں‘ تربیتی مواقع کی کمی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان شامل ہیں۔ دور دراز علاقوں میں تعینات اساتذہ کو رہائش اور نقل و حمل کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ سکولوں میں عملے کی کمی اور سیاسی مداخلت بھی اہم جزو ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے فیصلوں میں شامل کیا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور و نظر انداز کیے جانے والا پیشہ تدریس کو بنادیا گیا ہے۔ پولیو ڈیوٹی ہو یا مردم شماری‘ الیکشن ڈیوٹی‘ ووٹر لسٹوں کی تیاری‘ سیلاب ایمرجنسی ہو یا آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال و دیگر ایسی بے شمار ذمہ داریاں اساتذہ پر ڈال دی جاتی ہیں جن کو نبھانے کے دوران تدریسی عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
استاد ایک اچھے تعلیمی نظام کا بنیادی جزو ہے۔ جب تک معاشرے میں اساتذہ کی عزتِ نفس کا خیال نہیں رکھا جائے گا وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔ اساتذہ کی تعلیم اور تربیت ایک مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے ماڈل پر ازسرنو مرتب کرنا ہوگی تاکہ اساتذہ کو جدید تعلیمی ضروریات کے مطابق تربیت فراہم کی جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے پری سروس ٹیچر تیاری کے اداروں کے لیے یکساں معیار طے اور نافذ کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سب اساتذہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ اساتذہ کی ترقی کو سنیارٹی اور سیاسی رابطوں کے بجائے تدریسی افادیت سے جوڑنے کے لیے میرٹ پر مبنی نظام متعارف کرانا بھی بہت ضروری ہے۔ اس پیشے میں ایسے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں جن میں تدریس کا شوق ہو۔ دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو ترغیبات فراہم کی جائیں (سفری الاؤنس‘ صحت کی سہولتیں اور رہائش الاؤنس)۔ اچھی کارکردگی کو سراہا جائے اور ان کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کار صاف و شفاف ہو جس کی بنیاد پر ترقی دی جائے۔ تعلیم اور اوپن ایجوکیشنل ریسورسز میں انفارمیشن اینڈ کمونیکیشن ٹیکنالوجیز قابلِ رسائی سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اساتذہ کے پیشہ ورانہ معیار کو بڑھانے کے لیے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز بہت اہم ہیں۔ تعلیمی حکمت عملیوں میں آئی سی ٹی کا استعمال اور آن لائن سرٹیفکیٹ ٹریننگ پروگرام تشکیل دے کر کم وقت و کم وسائل سے زیادہ اساتذہ کو جدید پیشہ ورانہ ٹریننگ دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے 63فیصد نوجوانوں کو حقیقی سرمائے میں تبدیل کرنے کے لیے بنیادی‘ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان نوجوانوں کو قابل اساتذہ کی معرفت بہتر تعلیم دے کر ہی سماجی و اقتصادی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔