جنیوا سے اسلام آباد تک

اسی ہفتے کے آغاز میں بروز سوموار یو این او کی ہیومن رائٹس کونسل کے 53ویں اجلاس میں اسرائیلی خاتون مندوب آدی فرجون پاکستان میں ''انسانی حقوق کی پامالی‘‘ پر خوب گرجیں برسیں۔ اسرائیلی مندوب کی اس گرم گفتاری اور چرب زبانی کا سبب ہماری خارجہ کارکردگی کی کمزوری ہے یا منہ زور اسرائیلی ڈھٹائی ہے۔ وہ اسرائیل جو گزشتہ ستر‘ بہتر برس سے شب و روز کی ہر ساعت کے ساتھ انسانی حقوق کو اپنے پاؤں تلے ہی نہیں بلکہ اپنے ٹینکوں تلے بھی روندتا اور نہتے فلسطینیوں پر اپنے جنگی طیاروں سے بمباری کرتا چلا آ رہا ہے۔
2005ء سے اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین و اسرائیل کی نگرانی کا باقاعدہ انتظام قائم ہے۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل تقریباً ہر سال انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے فلسطینیوں کو پولیس اور فوج کے ذریعے ہلاک کر دیتا ہے۔ اسرائیل نے 2022ء میں صرف مغربی کنارے میں 151فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جن میں 35بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح 2023ء میں اسرائیل نے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر کے ڈیڑھ سو سے کہیں بڑھ کر فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ اسرائیل نے 2023ء میں اب تک مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے سے 7157ہاؤسنگ یونٹس تعمیر کر لیے ہیں اس رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی پولیس اور فوج نے فلسطینی مسلمانوں کو بار بار مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے سے روکا۔ گزشتہ 22برس کے دوران اسرائیل نے ارضِ فلسطین میں صحافیانہ فرائض ادا کرنے والے 20صحافیوں کو ہلاک کیا۔ آزادیٔ صحافت اور سچی رپورٹنگ کرنے والے جانباز صحافی ہمارے سلام ِعقیدت کے مستحق ہیں۔
فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ الجزیرہ کے عربی چینل کی صحافی تھی۔ وہ نڈر تھی۔ خطرات سے ہرگز نہ گھبراتی تھی۔ وہ فلسطینیوں پر اسرائیلی گولہ باری کے دوران بھی بلاخوف و خطر اپنے فرائض ادا کرتی تھی۔ 11مئی 2022ء کو شیریں جنین کے فلسطینی مہاجر کیمپ میں اسرائیلی چیرہ دستیوں کی کو رنگ کر رہی تھی کہ اسے ایک اسرائیلی فوجی نے فائر کر کے ہلاک کر دیا۔
انسانی و صحافیانہ حقوق کی سرعام اتنی بڑی پامالی پر دنیا میں بہت احتجاج ہوا مگر جنیوا میں انسانی حقوق کا چیمپئن بننے والے اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ امریکہ نے اپنی شہری کے قتل کی تفتیش کرنا چاہی مگر اسرائیل نے صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی بیرونی ملک کی تحقیق میں کوئی تعاون نہیں کرے گا۔ الجزیرہ چینل نے عالمی عدالت انصاف کے دروازے پر دستک دی مگر تاحال مقتول صحافی کے مجرموں کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا۔ایک دشمن اور متعصب ملک کی طرف سے ہی سہی مگر ہمیں سننا تو چاہئے کہ وہ کہتا کیا ہے۔ بقول شاعر :
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
اسرائیلی مندوب آدی فرجون نے کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں ہیں‘ ملزموں پر تشدد ہوتا ہے‘ پرامن احتجاج پر کریک ڈاؤن ہوتا ہے‘ مذہبی اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے مطابق فرائض ادا کرنے کی آزادی حاصل نہیں نیز مذہبی مقدسات کی توہین پر کڑی سزائیں دی جاتی ہیں ہم جنس پرستی اور من چاہی جنس کا انتخاب کرنے کی سہولت بھی حاصل نہیں۔ ہم جنس پرستی کی آزادی کا نہ ہونا بھی اسرائیل کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ جنیوا کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر میں سے کوئی بھی وہاں کیوں موجود نہ تھا جو اسرائیلی مندوب کو کھری کھری سنا سکتا۔
اتنے اہم موقع پر اس غیر حاضری کا سبب تو وزیراعظم ہی دونوں وزرائے خارجہ سے طلب کرسکتے ہیں اگرچہ پاکستان میں وزیراعظم نے اسرائیل کی تنقید کا تانا بانا چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت سے ملایا ہے‘ تاہم جنابِ وزیراعظم اور اُن کے دیگر کئی وزرا کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسرائیل پاکستان کا ہر حال میں مخالف ہے اور وہ دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس میں پاکستان کی سبکی ہوتی ہو۔
البتہ موجودہ حکومت کو اسرائیلی تنقید اور دیگر ملکوں کی پاکستان کی انسانی حقوق رپورٹ پر دیے گئے کمنٹس کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا چاہئے۔ یو این او کی انسانی حقوق کونسل میں ہر ملک کو شہریوں کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان نے 2022ء کی رپورٹ جنوری 2023ء میں پیش کی تھی۔ اس سالانہ کارکردگی پر 340 سفارشات آئی تھیں۔ ان میں 253 کمنٹس مثبت اور فرینڈلی تجاویز والے تھے۔ باقی ماندہ 87 سفارشات میں سے پاکستان نے 84 کو زیر غور تجاویز کے طور پر قبول کر لیا اور تین کو مسترد کر دیاہے۔
اب آئیے اسلام آباد کی طرف‘دو ہفتے قبل پاکستان کے سیاسی مستقبل کا ''فیصلہ‘‘ دبئی میں ہو رہا تھا۔ اب خبروں کا مرکز ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت ہے۔ 27جون کو دبئی میں دو بڑی پاکستانی سیاسی جماعتوں کی میٹنگ ایک لحاظ سے فیملی لیول صلاح مشورہ تھا۔ اس ملاقات میں ایک طرف مسلم لیگ( ن) کے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ تھیں تو دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے جناب آصف علی زرداری اور ان کے فرزند ارجمند بلاول بھٹو تھے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اس میٹنگ کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ملاقات میں طے پائے جانے والے امور کے بارے میں انہیں باخبر رکھا گیا۔
مولانا نے ابتدا میں ان سے بالا بالا دو بڑی پارٹیوں کی اس محدود ملاقات پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ پھر بارہ روز کے بعد مولانا نے اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم کا باقاعدہ حصہ ہے اور پیپلز پارٹی اس وسیع تر اتحاد کی اتحادی ہے۔ مولانا نے اپنے غم و غصے کا زیادہ تر رخ( ن) لیگ کی طرف رکھا۔ مولانا کا شکوہ درست ہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پی ڈی ایم کے رکن کی حیثیت سے اتحاد کے صدرکو اعتماد میں لیے بغیر دوسری بڑی پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ سے معاملات طے کرنے کی کوشش کو مشقِ ستم ہی گردانا جائے گا۔ میاں نواز شریف نے پہلے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کام رانا ثنا اللہ کے سپرد کیا‘جنہوں نے کام بنانے کے بجائے بگاڑ دیا۔ رانا صاحب نے کہا کہ یہ کوئی خاص طے شدہ میٹنگ نہ تھی‘ یہ تو بائی دی وے ملاقات تھی۔ اس کا جواب مولانا کے ترجمان نے یہ دیا کہ جس ملاقات کیلئے میاں صاحب لندن سے آئے‘ مریم نواز صاحبہ پاکستان سے دبئی تشریف لے گئیں اور بلاول صاحب کسی اور ملک سے پرواز کر کے وہاں پہنچے۔ اسے سرِراہ ملاقات تو نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بعد میں میاں شہباز شریف نے مولانا کو وزیراعظم ہاؤس مدعو کر کے کچھ عذرِ معذرت پیش کیا‘ تاہم انگریزی محاورے کے مطابق ٹوٹے ہوئے اعتماد کو جوڑنے کیلئے خوش نما باتوں کی گوند استعمال تو کی گئی مگر شیشہ دل پر ابھی تک ''تریڑ‘‘ موجود ہے۔
ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کی سیاسی صورتحال کے بارے میں کرائے گئے سروے کے مطابق اب وہاں اپنے سارے انڈوں کو مولانا کی باسکٹ میں ڈالنے سے دست کش ہو چکی ہے۔اگرچہ وزیراعظم کے واضح اعلان کے باوجود کہ 14اگست تک قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اور اکتوبر‘ نومبر میں اگلی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو جائیں گے؛تاہم ابھی تک انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بعض حلقوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو کمر ہمت باندھ کر انتخابی اکھاڑے میں اترنے کا فیصلہ کر لینا چاہئے۔ گزشتہ برسوں کے دوران وطن ِعزیز میں پہلے ہی آئین سے بہت کھلواڑ ہو چکا ہے۔ ملکی استحکام کا تقاضا ہے کہ اب ہر قسم کی ماورائے آئین مہم جوئی سے اجتناب کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں