حافظ نعیم الرحمن کیا تبدیلی لائیں گے؟

جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے جماعتی انتخابات وقتِ مقررہ پر ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ جماعتی انتخابات ہر قسم کی موروثیت‘ صوبائیت اور تعصبات سے مکمل طور پر پاک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی و دینی جماعت میں قیادت کی تبدیلی وراثت کی بنیاد پر عمل میں آتی ہے اور پارٹی انتخابات محض ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لیے کرائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس امیر جماعت اسلامی نہایت پُرامن طریقے سے ایک آزادانہ انتخاب کے ذریعے پنجاب کے میدانوں سے بھی آ سکتا ہے اور سرحدی صوبے کے کوہستانوں سے بھی آ سکتا ہے اور کراچی کے مکینوں میں سے بھی منتخب کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں ایک اور دلچسپ آبزرویشن یہ ہے کہ ہر امیرِ جماعت کی طبیعت کے ذاتی رنگ منفرد ہو سکتے ہیں مگر اس کی جماعتی صفات یک رنگ ہوتی ہیں۔ یہ جماعتی صفات کیا ہیں؟ جرأت‘ دیانت‘ امانت اور کارکردگی کا اعلیٰ معیار۔
جناب سراج الحق کا تعلق خیبرپختونخوا کے پہاڑی خطے دیر سے ہے۔ آپ نے اپنے دس سالہ دورِ امارت میں اخلاص فی العمل کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ خیبرپختونخوا میں وہ دو مرتبہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ اپنے دورِ امارت کے دوران انہوں نے سینیٹ میں جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی قندیلیں روشن کیں۔ البتہ رخصت ہونے والے امیرِ جماعت نے اپنی جو انتخابی پالیسی اختیار کی اس کی کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہ ہوئی۔ انہوں نے جماعتی کارکنوں اور قوم کو یہ نعرہ دیا تھا اپنا جھنڈا‘ اپنا نشان اور اپنا پروگرام مگر 2024ء کے عام انتخاب میں جماعت اسلامی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ سراج الحق صاحب نے متوقع نتائج کے عدم حصول کی مکمل ذمہ داری قبول کی اور اپنا استعفیٰ جماعت کو پیش کر دیا۔ اس پس منظر میں جب حالیہ دنوں امیرِ جماعت کا پانچ سالہ انتخاب ہوا تو اراکین نے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کو 2024ء سے 2029ء تک کے لیے اپنا امیر منتخب کر لیا۔
انتخابی مہم کے دوران کراچی کے علاوہ جماعت کے لوگ جہاں کہیں جاتے وہاں انہیں ووٹروں کی طرف سے یہ کہا جاتا کہ آپ کی جماعت اپنے پروگرام اور اپنے امیدواروں کے اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو سب سے آگے ہے مگر آپ نے چونکہ جیتنا نہیں اس لیے آپ کو ووٹ دینا ووٹ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کراچی کو کراچی میں ہی نہیں‘ اندرون و بیرونِ ملک ایک وِننگ جماعت سمجھا جاتا تھا اور سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی ووٹر اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کراچی کے لوکل باڈیز اور عام انتخابات میں تیسری چوتھی پوزیشن والی جماعت کو الہ دین کے طلسماتی چراغ سے جتوا دیا گیا اور فارم 45 میں اکثریت ثابت کرنے والی جماعتوں کو فارم 47 کے ذریعے ہروا دیا گیا۔ اہلِ کراچی جماعت اسلامی کی اس شہر میں شاندار کامیابی کا سہرا حافظ نعیم الرحمن کی کرشماتی لیڈر شپ کے سر باندھتے ہیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ اہلِ جماعت نے حافظ صاحب کی دوسری خوبیوں کے علاوہ کراچی میں اُن کی وِننگ پوزیشن دیکھ کر انہیں منتخب کیا ہے۔
کراچی میں حافظ صاحب کی خدمتِ عوام پالیسی اور انتخابی حکمتِ عملی نے یہاں جماعت کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ شہر روایتی طور پر جماعت کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ یہاں سے ہی میئر عبدالستار افغانی دو بار اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ایک بارمیئر منتخب ہوئے تھے۔ جماعت کے ان میئرز نے کراچی میں سڑکوں‘ اوور ہیڈ بریجز اور انڈر پاسز کا جال بچھا دیا۔ کرپشن کیے بغیر اہلِ کراچی کو فراہمیٔ آب اور صحت و صفائی کے بہت سے منصوبے فراہم کیے۔ اس کے علاوہ کئی نئے سکول‘ جدید ڈسپنسریاں اور لائبریریاں قائم کیں۔ بعد ازاں 1980ء کی دہائی میں مخصوص اہداف کے لیے اس شہر پر ایک بلائے ناگہانی تقریباً تین دہائیوں تک مسلط کر دی گئی۔ بہرحال حافظ صاحب نے جماعت کو اُس کا روایتی انتخابی قلعہ مزید نئی کامیابیوں کے ساتھ لوٹا دیا۔ اب عروس البلاد کے شہری پہلے سے کہیں بڑھ کر جماعت کے ساتھ ہیں۔ ہمارے خیال میں حافظ صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ جماعت اسلامی کو ملکی سطح پر بھی کراچی والی کامیابی سے ہمکنار کر پائیں گے یا نہیں؟ وہ اپنی سوچ اپروچ کو دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب میں کیسے رائج کر سکیں گے‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا۔ کراچی میں جماعت اسلامی ایک ایسے دعوتی و سیاسی ماڈل پر عمل پیرا ہے کہ جس کے نتیجے میں معاشرے کی اشرافیہ‘ متوسط و نیم متوسط اور غریب کلاس کے خواتین و حضرات بھی بلاجھجھک جماعت کے ساتھ آ کر شامل ہو جاتے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جماعت میں آنے کے لیے جب تک آپ کی مخصوص وضع قطع نہیں ہو گی‘ اس وقت تک آپ کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ ہم نے بعض ماڈرن خواتین کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہ جماعت ہمارے دلوں کے قریب تر ہے مگر ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اگر ہم اس کے قریب گئے تو ہمیں پردے پر مجبور کر دیا جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں لیڈر شپ کا بھی ایک بحران ہے۔ یہاں لوگوں کی اکثریت عمران خان کی گرویدہ ہو گئی تھی‘ مگر بوجوہ خان صاحب اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے۔ ووٹروں نے اب بھی انہیں ووٹ دیے ہیں۔ پی ٹی آئی میں اُبھرتے ہوئے اختلافات اور لیڈر شپ کے ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ جذبات موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اور ووٹروں کو کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کسی قسم کی ہمدردانہ سپورٹ نہیں ملی۔ کراچی میں تو حافظ صاحب اور پی ٹی آئی کے درمیان کچھ ورکنگ ریلیشن شپ بھی قائم ہو گئی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے امیرِ جماعت اپنی ہر دل عزیز شخصیت کے ذریعے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ سکیں گے یا نہیں؟ نیز ملک کے نہایت دگرگوں معاشی حالات اور غیرمستحکم سیاسی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو وسیع تر مفاہمت کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکیں گے یا نہیں؟
حافظ نعیم الرحمن کا تعلق حیدر آباد سندھ کے ایک خوش حال متوسط گھرانے سے ہے۔ اُن کے والدین 1947ء میں مسلمانوں کے علمی گڑھ‘ علی گڑھ سے ہجرت کرکے حیدر آباد میں آباد ہوئے تھے۔ 1973ء میں حافظ صاحب کی یہاں پیدائش ہوئی۔ حافظ صاحب کا اپنا آبائی گھر یہی ہے۔ انہوں نے حیدر آباد سے ہی حفظِ قرآن کیا اور این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں اعزاز کے ساتھ ڈگری لی۔ 16برس کی عمر سے ہی حافظ صاحب نے شہادت گہِ الفت میں قدم رکھ دیا تھا۔ اسلامی جمعیت کے طلبہ سے ہوتے ہوئے اور پسِ دیوار زنداں آتے جاتے وہ سندھ کی مقبول ترین شخصیت بن گئے اور 2013ء سے امیر جماعت اسلامی کراچی چلے آ رہے ہیں۔ حافظ صاحب خود ایک ماہر انجینئر اور اُن کی بیگم صاحبہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ متوسط کلاس سے تعلق رکھنے والی یہ کراچی کی ایک باوقار فیملی ہے ۔ ایک اور دلچسپ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ دوسری سیاسی و دینی جماعتوں میں اگر کوئی قد آور شخصیت ابھرتی دکھائی دیتی ہے تو اسے آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے‘ تاکہ کل کلاں کہیں وہ لیڈر موروثی قیادت کا راستہ نہ روک لے۔ مگر جماعت اسلامی میں صوبوں اور دور دراز علاقوں میں بھی ابھرتی ہوئی متحرک لیڈر شپ کی زبردست حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمن کیا تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ کیسے تبدیلی لائیں گے اور لاپائیں گے بھی یا نہیں؟ اس اہم بنیادی سوال کا جواب تلاش کرکے ہم اگلی قسط میں آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں