پاک سعودی برادرانہ تعلقات

تعلیم سے فارغ ہوئے تو تدریس میں منہمک ہو گئے۔ اس دوران بڑے نصیب کے فیصلے بھی ہوئے اور ہمیں ارضِ مقدس بلا لیا گیا۔ مرشد اقبال نے فرمایا تھا
عرب کا حسنِ طبیعت عجم کا سوزِ دروں
میں تقریباً ربع صدی تک اس حسنِ طبیعت اور سوئے دلنوازی سے فیض یاب ہوتا رہا۔ میں سعودی وزارتِ تعلیم سے بحیثیت لیکچرار وابستہ ہوگیا اور یوں 20ویں صدی کے اواخر اور 21ویں صدی کے اوائل کے درمیانی عرصے میں میں سعودی عرب میں مقیم رہا۔ سعودی وزارتِ تعلیم میں میری تدریس کا آغاز ریاض سے ہوا مگر زیادہ قیام سعودی عرب کے گرمائی دارالحکومت طائف میں رہا۔ طائف مکتہ المکرمہ سے بطرف جنوب صرف ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ گویا زمانی اعتبار سے خانۂ خدا اور خانۂ فقیر میں بس ایک گھنٹے کی مسافت تھی۔ سعودی عرب میں اپنے طویل قیام کے دوران مجھے امراء‘ وزراء‘ علماء‘ اساتذہ‘ دانشوروں‘ سعودی صحافیوں‘ نوجوانوں اور شہروں اور صحرائوں میں بسنے والے عام عربوں کے ساتھ ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کے مواقع ملتے رہے۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے چچا امیر عبداللہ بن عبدالرحمن آلِ سعود سے ریاض میں ملاقات ہوئی تو وہ بڑی محبت سے پیش آئے اور انہوں نے اہلِ پاکستان کے بارے میں نہایت اعلیٰ و ارفع جذبات کا اظہار کیا۔ اسی طرح 1990ء کی دہائی کے نابینا مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اہلِ پاکستان کے لیے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔
عوام و خواص کے ساتھ ان ملاقاتوں میں مجھے محسوس ہوا کہ سعودی عرب میں ہر سطح پر اس بات کا گہرا ادراک ہے کہ ارضِ مقدس کیلئے سب سے آگے بڑھ کر اگر کوئی اپنی جان فدا کر سکتا ہے تو وہ اہلِ پاکستان ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں پاکستانی ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ ٹیچرز اور ورکرز کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے اخلاص فی العمل کی بالعموم وہاں بہت قدرافزائی کی جاتی ہے۔ میرے سعودی عرب قیام کے دوران وہاں صدر ضیاء الحق‘ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو آئیں۔ سعودی حکمران پاکستانی حکمرانوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیتے تھے جیسا کہ دو روز قبل آپ نے جدہ ایئرپورٹ پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا بنفس نفیس استقبال کرتے دیکھا ہوگا۔ ایک بار جنرل محمد ضیا الحق سرکاری دورے پر ریاض آئے تو شاہ خالد بن عبدالعزیز نے ولی عہد اور کئی دوسرے وزراء کی معیت میں نہایت گرمجوشی کے ساتھ اُن کا استقبال کیا تھا تاہم تب سے لے کر اب تک میں نے ایک بات محسوس کی کہ سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی برادرانہ روابط میں ہمیشہ گہری گرم جوشی دکھائی دیتی ہے لیکن تقریباً ہر دور میں سردمہری کے مختصر وقفے بھی آتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے بعض بیانات کی وجہ سے سرد مہری نقطۂ عروج پر چلی گئی مگر کچھ پاکستانی قوتوں کے پس پردہ متحرک ہونے کی بنا پر ان تعلقات میں پھر پہلے والی برادرانہ فضا واپس آگئی ہے۔ ورلڈ میڈیا کے مطابق اس فزوں تر گرم جوشی کی کچھ علاقائی و عالمی وجوہات بھی ہیں۔ ایک تجزیہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کے جن عالمی طاقتوں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اب اُن میں پہلے والی قربت دکھائی نہیں دے رہی اس لیے سعودی عرب علاقے میں اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کی طرف ایک بار پھر مائل ہو رہا ہے۔ خطے کے کچھ ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی آگئی تھی۔ اب سعودی عرب ایران‘ ترکی اور قطر کے ساتھ اپنے تعلقات ایک بار پھر نارمل کر رہا ہے۔ ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں سعودی عرب اور پاکستان کے سکیورٹی تعلقات قائم دائم رہتے ہیں۔ صدر ضیا الحق کے زمانے میں تو سعودی عرب میں مختلف فنی و تربیتی خدمات انجام دینے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی تنخواہ اور مراعات سعودی فوجیوں کے برابر ہو گئی تھیں۔ کچھ مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ خطے کی تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر امریکہ افغانستان سے واپسی کے حوالے سے بعض مطالبات پاکستان سے بالواسطہ منوانے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ اس پس منظر میں باہمی برادرانہ تعلقات کی تجدید کے بعد جو باہمی تعاون کے معاہدے سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ ملٹری و سکیورٹی تعلقات مزید مستحکم کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں معاشی و تجارتی تعلقات بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے عالمی مسائل پر بھی بات چیت ہوئی ہے اور فلسطینی ریاست کی حمایت اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے پر بھی اتفاق رائے پایا گیا ہے۔ پاک سعودی تعاون کیلئے سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کا قیام بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر دے گا جو صاف پانی کی فراہمی اور پن بجلی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ اس معاہدے کی اہم ترین شق کے مطابق سعودی عرب کو اپنے وژن 2030ء کے لیے ایک کروڑ ورکروں کی ضرورت ہوگی۔ اس وژن کے تحت تیل پر انحصار کم کرکے صحت‘ انفراسٹرکچر‘ ٹورازم کو ترجیح دی جائے گی اور تیل کے علاوہ دیگر برآمدات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ اس وژن میں سعودی عرب کے ایک سافٹ امیج کی تشکیل و ترویج بھی شامل ہے۔ ان منصوبوں کیلئے درکار ایک کروڑ ورکروں میں سے زیادہ تر پاکستان سے لیے جائیں گے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی سول اینڈ ملٹری قیادت کا دورہ یقینا بہت مفید رہا۔
جہاں تک بعض بالواسطہ مطالبات کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں سامنے تو کچھ نہیں اگر کچھ ہے تو پس پردہ ہی ہے۔ رمضان المبارک کے جن دنوں دو اہم ترین اسلامی ممالک کے زعما کے درمیان سعودی عرب میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں انہی بابرکت ساعتوں میں فلسطینی مسلمانوں کے خون سے مسجد اقصیٰ کے درودیوار اور فرش رنگین ہو رہے ہیں۔ یوم القدس کے موقع پر اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ انہی دنوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکال کر وہاں صہیونی دہشت گردوں کو بزورِ شمشیر آباد کیا جا رہا ہے۔ اس ظلم پر یو این او‘ یورپی یونین اور انسانی حقوق کے اداروں کو فوری ایکشن لینا اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ بند کروانا چاہئے۔ افسوس تو یہ ہے کہ او آئی سی بھی منقار زیر پر ہے۔ 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی۔ انہی دنوں صہیونیوں نے مسجد اقصیٰ کو نعوذ باللہ جلا کر راکھ کرنے کی کوشش کی۔ اس پس منظر میں یہ تنظیم قائم کی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کے 57 ممالک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر یہودیوں کے ناپاک ارادوں کے سامنے کھڑے ہوسکیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ آزاد ہوئی نہ ہی یہودی ظلم و ستم کا سلسلہ بند ہوا نہ ہی فلسطینی ریاست قائم ہوئی جبکہ بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ روابط قائم کر لیے ہیں۔
مسلم حکمرانوں کو او آئی سی کے فورم سے فلسطین و کشمیر کی آزادی اور توہین آمیز خاکوں کے خاتمے کے لیے ایک جاندار کردار ادا کرنا چاہئے مگر یہ تنظیم ایسا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے مگر اُن کی حیثیت پرِکاہ جتنی بھی نہیں۔ اس ضعف کا سبب مرشد اقبال بیان کر گئے ہیں ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جہاں تک پاکستان اور سعودیہ کے برادرانہ روابط کا تعلق ہے تو وہ یقینا پاکستانی قائدین کے حالیہ دورے کے نتیجے میں مزید مستحکم ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں