جماعت اسلامی کا یک طرفہ فیصلہ

جماعت اسلامی پاکستان کی وہ خوش قسمت جماعت ہے کہ جسے ووٹروں کی بڑی تعداد ووٹ دے یا نہ دے مگر ہر کوئی اُن کی دیانت‘ امانت اور وطن عزیز کے لیے اُن کے اخلاص کا دل و جان سے معترف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں جو نظریاتی و عملی وابستگی جماعت اسلامی کی ہے وہ کسی اور پارٹی کی نہیں؛ تاہم آزاد کشمیر کے الیکشن میں بھی انتخابی کلچر پاکستان سے مختلف نہیں۔ وہاں بھی مالدار الیکٹ ایبلز‘ پاکستان کی مرکزی حکومت کے حمایت یافتہ امیدوار اور مختلف برادریاں اور دھڑے انتخابی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر انتخابی معرکے سے پہلے میڈیا پر آنے والی مختلف سروے رپورٹوں اور تجزیوں میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف‘ آزاد کشمیر کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کامیابیوں کے بارے میں تو طرح طرح کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں مگر مسئلہ کشمیر کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈر جماعت اسلامی کا کہیں کوئی تذکرہ نہ تھا۔ 26 جولائی بروز پیر تقریباً تمام نشستوں کے نتائج موصول ہو چکے تھے جن میں پی ٹی آئی کو واضح برتری ملی جبکہ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) ہے۔ جماعت اسلامی کے 31 امیدواروں میں سے ایک بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان نتائج سے جماعت اسلامی کی سولو فلائٹ انتخابی پالیسی مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ عام انتخاب کے موقع پر سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے ایک حکیمانہ ایڈجسٹمنٹ پالیسی اختیار کر کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا تھا جس کے نتیجے میں جماعت کے دو امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہو گئے تھے۔ عبدالرشید ترابی صاحب کی قیادت میں جماعت اسلامی کے دو رکنی پارلیمانی گروپ کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نہایت شاندار پر فارمنس رہی جس کی جماعت کے سیاسی مخالفین بھی تعریف کرتے تھے۔
یہ سارا پس منظر اپنی جگہ مگر اچانک 22 جولائی علی الصباح مجھے وٹس ایپ پر امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر خالد صاحب کی طرف سے جاری کردہ ایک وڈیو موصول ہوئی جس میں انہوں نے سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور ضلع وسطی باغ سے جماعت کے امیدوار عبدالرشید ترابی صاحب کی مقامی طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خلاف ایک تندوتیز بیان جاری کیا۔ اس بیان میں امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے عبدالرشید ترابی صاحب کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر‘ اپنے غم و غصے کا اظہار بڑے شدید الفاظ میں کیا اور جماعت سے ترابی صاحب کی بنیادی رکنیت منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
جناب عبدالرشید ترابی سے ہماری یاد اللہ ہے۔ وہ آزاد کشمیر میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ تحریک اسلامی کے ساتھ اُن کی وابستگی چالیس برس پر محیط ہے۔ وہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے 22 برس تک امیر رہے۔ ترابی صاحب تین بار آزاد کشمیر اسمبلی کے معزز رکن منتخب ہوئے۔ مسئلہ کشمیر کو ہر ملکی و غیرملکی فورم پر اجاگر کرنے کے حوالے سے ترابی صاحب کی کارکردگی پاکستان کے ہر سیاسی و مذہبی لیڈر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر ترابی صاحب کی شہرت ایک مطیع و فرمانبردار کارکن کی سی ہے۔ اپنی امارت کے ہر دور میں وہ اسے ایک منصب نہیں‘ ایک بھاری ذمہ داری سمجھتے رہے۔ لہٰذا ترابی صاحب کے خلاف امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی یک طرفہ ویڈیو جماعت کے ہر بہی خواہ اور خیرخواہ کے دل پر بجلی بن کر گری۔ میں نے ترابی صاحب کو فون کیا اور اُن سے ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی وڈیو کے بارے میں پوچھا تو ترابی صاحب نے بتایا کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے مقامی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس اجازت سے استفادہ کرتے ہوئے میرے حلقۂ انتخاب وسطی باغ کی ضلعی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس میں تفصیل سے اپنی انتخابی پوزیشن کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ اگر مقامی سطح پر تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں تو ہم یہ سیٹ ہارنے کے بجائے جیت سکتے ہیں۔ ضلعی شوریٰ کے اس فیصلے سے جماعت کے آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل تنویر انور خان کو آگاہ کر دیا گیا جنہوں نے اس ایڈجسٹمنٹ سے مرکزی قیادت کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ میں نے ترابی صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ کی جماعت سے رکنیت کی منسوخی اور باغ کی ضلعی شوریٰ کی معطلی وغیرہ کے بارے میں آپ کو کوئی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں! ترابی صاحب نے بتایا کہ 21 جولائی عیدالاضحی کے روز مغرب کے قریب مجھے امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے یہ فیصلہ واپس لینے کا مشورہ دیا۔ میں نے ساری زندگی جماعت کے نظم‘ جماعت کے ہر چھوٹے بڑے حکم کی یوں اطاعت کی جیسے کوئی مومن صادق کسی دینی فریضے کی اطاعت کرتا ہے۔ میں نے محترم سراج صاحب سے کہا کہ میں ابھی وسطی باغ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاتا ہوں اور ہم ان شاء اللہ اتفاق رائے سے آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔ ترابی صاحب نے بتایا کہ میں نے شوریٰ کا اجلاس طلب کیا اور اپنے کئی ارکان کی شدید تنقید کو صبرو حوصلے کے ساتھ سنا۔ بعض ارکانِ شوریٰ نے تو یہاں تک کہا کہ اب ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ واپس لینا آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کی انتخابی خودکشی ہوگی۔ بقول ترابی صاحب‘ انہوں نے دینی و تحریکی تعلیمات کی روشنی میں اپنے ارکان کو قائل کر لیا اور فیصلہ ہوا کہ کل 22 جولائی کو پریس کانفرنس کر کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ واپس لے لیا جائے گا؛ تاہم صبح طلوع ہونے سے پہلے راتوں رات آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے غم و غصے سے امڈتی ہوئی وڈیو جاری کر دی جس میں یکطرفہ طور پر ترابی صاحب کے جماعت سے اخراج کا فیصلہ صادر کیا گیا۔ میرؔ نے کہا تھا ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مگر آزاد کشمیر کے ناراض امیر جماعت اسلامی نے اس بات کا نہ کوئی لحاظ کیا نہ ہی خیال رکھا۔ جماعت اسلامی وسطی باغ کے ارکانِ شوریٰ نے متفقہ ویڈیو بیان میں امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے فیصلے کو یکطرفہ‘ غیر منصفانہ‘ عاجلانہ‘ ظالمانہ اور دستورِ جماعت اسلامی کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس فقیر سمیت جماعت اسلامی کے ہمدرد اور خیرخواہ جماعت اسلامی کی آزاد کشمیر اور پاکستانی قیادت سے چند سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ کیا اسلامی شریعت اور دستورِ جماعت کے مطابق کسی ملزم سے اُس کا موقف سنے بغیر اُس کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے؟ دوم، کیا دستورِ جماعت میں لوکل سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے آپشن سے استفادہ کرنے کے بارے میں تاویل کا اختلاف خدانخواستہ حق و باطل کا کوئی جھگڑا تھا کہ جس پر ترابی صاحب جیسی معزز شخصیت کی جماعت سے بنیادی رکنیت ہی منسوخ کر دی جاتی؟ نیز سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی مہم کی حوصلہ افزائی کی جاتی؟ کیا ایک شخص کہ جو چند لمحے پہلے تک صادق و امین تھا‘ مطیع و فرماں بردار تھا اور جماعت کا معزز ترین رہنما تھا وہ محض تدبیر کی تاویل کی بنا پر نہ صادق رہا‘ نہ امین رہا اور بلا تحقیق ہر الزام و تنقید کا سزاوار سمجھا جانے لگا۔ کیا یہ رویہ مبنی بر انصاف ہے؟ کیا تدبیر اور حکمت عملی کی معمولی سی اونچ نیچ پر ایسا انتہائی فیصلہ عادلانہ کہلانے کا مستحق ہے؟ ترابی صاحب کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جناب لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی دو دلگداز تحریریں پڑھنے کو ملیں؛ تاہم دونوں امرائے جماعت کی یہ تحریریں بھی یکطرفہ ہیں۔ انہوں نے امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے غیر دستوری فیصلے پر کوئی گرفت نہیں کی۔ کیا جماعت کے لاکھوں خیرخواہ یہ سمجھ لیں کہ اب جماعت اسلامی میں بھی فیصلے دستوری نہیں‘ یکطرفہ ہوں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں