مسنگ دخترانِ پنجاب کہاں ہیں؟

بعض خبریں اور رپورٹیں اتنی تشویشناک ہوتی ہیں کہ نیند اڑا دیتی ہیں۔ چار پانچ روز قبل ایک انگریزی معاصر میں پنجاب کی ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کے اغوا اور اُن میں سے کچھ کی بازیابی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی۔ پولیس اغوا کے ان واقعات کو عموماً ''کولڈ کیسز‘‘ شمار کرتے ہوئے سرد خانے میں ڈال دیتی ہے؛ تاہم سپریم کورٹ میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ایک اغوا شدہ لڑکی ثوبیہ بتول کا کیس بہت نمایاں ہوا اور عدالت نے پنجاب بھر سے اغوا ہونے اور پھر بازیاب ہونے یا اب تک لاپتہ رہنے والی خواتین کا تفصیلی ریکارڈ طلب کیا تو جواباً بہت دلفگار معلومات سامنے آئی ہیں۔
مسنگ پرسنز کے دردناک واقعات ہی قوم کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھے، اب مسنگ خواتین کی رپورٹ بھی خاصی ہولناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع سے گزشتہ چار برس کے دوران 40585 خواتین اغوا ہوئیں یا پولیس کی اصطلاح میں غائب ہوئیں۔ 2017ء سے جنوری 2022ء تک پولیس کی رپورٹ کے مطابق 37140 میں سے کچھ بازیاب ہوئیں اور کچھ کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں 53000 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ اس کا جواب دینے سے تاحال پولیس کا ریکارڈ قاصر ہے۔
سرگودھا کے حوالے سے اس طرح کی کوئی خبر سامنے آئے تو ہماری تشویش دوچند ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے سرگودھا پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر ثوبیہ بتول کا سراغ لگائے۔ پہلے ہم سرگودھا سے اغوا ہونے والی بچی ثوبیہ کے بارے میں قارئین سے اپنی تحقیق شیئر کریں گے اور بتائیں گے کہ پنجاب بلکہ پورے پاکستان سے اغوا ہونے والی لڑکیوں اور خواتین کا معاشرے کے کس طبقے سے تعلق ہوتا ہے اور اُن کے لاپتہ ہونے کے کیا اسباب ہیں اور اُن کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے۔
یکم مارچ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے جہاں وزیراعظم نے عوام کو پٹرول اور بجلی سستی کرنے کی خوشخبری سنائی وہاں انہوں نے کچھ گلے شکوے بھی کیے تھے۔ انہوں نے ایک معاصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے شوکت خانم کے بارے میں ایک منفی خبر دی مگر ہسپتال کے ذرائع سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اُن کا موقف لیا۔ اس لیے ہم نے سرگودھا کے ڈی پی او سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جواباً خود کال کی اور اس کیس اور اس طرح کے سرگودھا میں رپورٹ ہونے والے دیگر کیسز اور ان پر پولیس کی کارروائی کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی جا رہی ہے۔ اغوا ہونے والی ثوبیہ بتول ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور سے لاپتہ ہوئی اور 28 اگست 2020ء کو اس اغوا کی رپورٹ تھانہ شاہ پور صدر میں درج کروائی گئی۔
ڈی پی او صاحب نے بتایا کہ سرگودھا پولیس نے اس جرم کی پاداش میں 16 ملزموں کو گرفتار کر رکھا ہے جن میں مرکزی ملزم عمیر راجپوت بھی شامل ہے۔ یہ شخص ثوبیہ بتول کا پڑوسی تھا۔ اس نے ہی ثوبیہ بتول کو موبائل فون لے کر دیا تھا۔ ڈی پی او نے بتایا کہ ہم سائنٹیفک، پروفیشنل اور پولیس کے روایتی طریق کار کو ملا کر شب وروز تفتیش کررہے ہیں مگر تاحال مرکزی یا کسی اور ملزم نے اعترافِ جرم نہیں کیا۔
ڈی پی او صاحب نے یہ بھی بتایا کہ سرگودھا میں گزشتہ دو برسوں کے دوران اغوا ہونے والی تقریباً سوا دو سو خواتین میں سے 151 کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جن میں 127 نے اپنی مرضی سے ''اغوا کنندہ‘‘ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔ انہوں نے یہ روح فرسا خبر بھی دی کہ کچھ اغوا شدہ لڑکیوں کو قحبہ خانوں تک بھی پہنچا دیا گیا تھا جنہیں بازیاب کروا کے دارالامان میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ ثوبیہ بتول کی تلاش کے لیے سرگودھا پولیس نے ملک بھر کے تھانوں اور ہسپتالوں سے بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ اس دوران پنجاب بھر سے ملنے والی خواتین کی 20 لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروایا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان میں کہیں بدقسمت ثوبیہ بھی شامل تو نہیں۔
اب آتے ہیں اُن اسباب کی طرف جو اس طرح کے واقعات کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری زمینی اور کتابی تحقیق کے مطابق اغوا کے یہ واقعات بالعموم ہمارے دیہی علاقوں کے نچلے طبقے میں پیش آتے ہیں۔ اغوا ہونے والی اکثر خواتین زیورِ تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتیں۔ ایک ایک کمرے کے گھر میں آٹھ دس افراد کا کنبہ رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ معاشی طور پر ان گھروں میں تنگدستی ہوتی ہے‘ اوپر سے والدین اپنی ادنیٰ اغراض کی خاطر ان بچیوں کی شادی اُن کی مرضی کے خلاف کرنے کا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ تبادلۂ خیال کے دوران سرگودھا کے بعض باخبر اخباری ذرائع نے مجھے بتایا کہ یہاں کے دیہی علاقے سے کئی برس قبل ایک ہی گھر سے چار نوجوان لڑکیاں لاپتہ ہوگئی تھیں۔ اُن کی ماں اِن بچیوں کو صبح شام تشدد کا نشانہ بناتی تھی جس سے نجات کے لیے انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا۔
ان حالات میں موبائل فون تک رسائی نے قیامت ڈھائی ہے۔ پاکستان کے ایک سابق صدر فاروق لغاری کا کوئی دیہی ووٹر اس طرح کے اغوا کی فریاد لے کر اُن کے پاس آتا تو وہ فریادی سے صرف یہ پوچھتے کہ لڑکی کے پاس موبائل فون تھا یا نہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر لغاری صاحب اظہارِ افسوس سے زیادہ کچھ نہ کرتے۔ غیرتعلیم یافتہ بچیوں کے پاس موبائل بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ان خواتین کو دور و نزدیک کے کچھ لوگ سنہرے خواب دکھاتے اور اپنے مر مٹنے کا یقین دلاتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد کچھ ''منزل‘‘ پر پہنچ جاتی ہیں اور کئی قسمت کی ماری بھٹک جاتی ہیں یا انسانیت سے گرے ہوئے مجرم انہیں گناہ کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ اس سے بھی دلدوز خبر یہ ہے کہ کچھ بیرونِ بھی سمگل کر دی جاتی ہیں۔
یہ ایک سماجی و معاشی مسئلہ ہے جس کے حل کی بنیادی ذمہ داری سٹیٹ، سوسائٹی اور والدین پر عائد ہوتی ہے۔ 8 مارچ کو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ والے عورت مارچ کی خواتین کو اب اپنا رخ شہروں کے بجائے دیہات کی طرف کرنا چاہئے۔ وہاں بھی عورت بستی ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے محروم، جو زیورِ تعلیم سے محروم، جو محفوظ اور آسودہ مستقبل سے محروم اور جو زینت خانہ بننے کے بجائے بھٹوں، گھروں اور کھیتوں کھلیانوں میں جاں توڑ محنت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ سارے فرائض اپنی جگہ مگر لوگوں کے جان مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی سب سے بڑی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی لڑکی یا خاتون کسی سبب سے بھی لاپتہ ہو اس کی بازیابی پولیس کا اوّلین فرض ہے۔
باٹم لائن یہ ہے کہ پاکستان کے کسی شہر یا گائوں میں بسنے والی ہر بچی کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا اور معاشی و سماجی تحفظ مہیا کرنا حکومتِ وقت کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہم اس مسئلے کا حل بھی تجویز کردیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے بالخصوص دیہی علاقوں میں تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کی طرح گھریلو صنعتیں قائم کرنے کے لیے بلاسود قرضے صرف ایک شرط کے ساتھ دے کہ وہ اپنے ہر بچے کو میٹرک تک تعلیم دلانے کے پابند ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں