تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا ناکام؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی ایک سیاسی کھیل ہے؛ تاہم انسانی زندگی میں جب کوئی اعتماد یا بھروسا ٹوٹتا ہے اور سہانے سپنوں کی کرچیاں بکھرتی ہیں تو دل کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ رومانس سیاسی ہو یا شخصی‘ آدمی جب کسی کو دل کی گہرائی سے چاہتا ہے تو پھر وہ کوئی 'وارننگ‘ سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ شاعر بھی سمجھاتے رہ جاتے ہیں مگر دلِ بیتاب کسی حکیمانہ نکتے پر اور نہ کسی شاعرانہ دانائی پر کان دھرنے کو آمادہ ہوتا ہے۔ دیکھئے عاصم واسطی نے کیا کہا تھا:
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
جناب عمران خان کے ساتھ سیاسی رومانس استوار کرنے والوں کی اکثریت کا بھی بھروسا ٹوٹ چکا ہے۔ جہاں تک عمران خان کے ساتھ اُن کے اقتدار سے چند برس پیشتر جدہ‘ اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والی بے تکلف ملاقاتوں میں میرا اُن کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ وہ بے ساختہ اور بناوٹ سے ماورا انسان ہیں‘ وہ عرب کا حسنِ طبیعت اور عجم کا سوزِدروں رکھتے ہیں‘ وہ دلیل سے بات کرتے ہیں اور دلیل سے بات سنتے ہیں۔ اگرچہ میں اُن کے مسندِ اقتدار پر متمکن ہونے سے پہلے ہی اُن کی کمپرومائزنگ سیاسی پالیسی کا ناقد بن چکا تھا مگر اُن کی شخصی خوبیوں کا بدستور معترف رہا اور اُن کے بارے میں کوئی منفی تاثر میرے دل میں جا گزیں نہیں ہوسکا۔
اقتدار میں آنے کے کچھ ہی مدت بعد اُن کے انتقامی بیانات سے میں پہلے رنجیدہ خاطر ہوا اور پھر یہ رنجیدگی گہرے افسوس میں بدل گئی۔ چند روز قبل لوئر دیر میں عمران خان نے جو تقریر کی وہ سیاسی و عالمی نقطہ نظر سے انتہائی مایوس کن تھی۔ خان صاحب کی تقریر نے عوام کے سامنے اُن کی جو تصویر پیش کی اُس کے نتیجے میں خان صاحب سے حسنِ ظن رکھنے والے اکثر افراد بہت بڑے دھچکے اور صدمے سے دوچار ہوئے۔ کیا کسی جمہوری ملک کا کوئی وزیراعظم یا کوئی اور ذمہ دار عہدے دار اس طرح کی زبان‘ لب ولہجہ اور سیاسی مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ اور انہیں ذاتی طور پر ماورائے قانون وعدالت مزہ چکھانے کی بات کر سکتا ہے؟ یہ رویہ تو صریحاً آئینی تقاضوں سے انحراف کی ذیل میں آتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ آزمائش کے وقت گھبراہٹ اس سے بڑی آفت ہے۔ خان صاحب ان دنوں اس آفت کی زد میں ہیں۔ انہوں نے دیر میں ملک کے واجب الاحترام اداروں کے بارے میں بھی جو اشارے کیے ہیں وہ قابلِ گرفت اور قابلِ مذمت ہیں۔ ہر رتبے اور ہر مرتبے کا چاہے وہ منصب سیاسی ہو‘ عدالتی ہو یا عسکری‘ اس کا ایک اپنا وقار اور ڈیکورم ہوتا ہے جس کا ہر صورت احترام کیا جانا چاہئے۔
یوں لگتا ہے کہ خان صاحب کرسی کی محبت میں اپنے فرضِ منصبی اور 22 کروڑ عوام کی باوقار نمائندگی کو بھلا کر صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنی جماعت کا سوچ رہے ہیں۔ جہاں تک پل پل بدلتے سیاسی منظرنامے کا تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی حتمی پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی تاہم 14 مارچ بروز پیر تک کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنا تجزیہ آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور بھونچال کی خبریں آرہی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے 33 ارکانِ قومی اسمبلی منحرف ہوچکے ہیں۔ آج پیر کے روز کی پیشرفت سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید شام تک یا منگل کی صبح تک تینوں بڑی اتحادی پارٹیاں مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی مشترکہ طور پر اپوزیشن کے ساتھ شامل ہوجائیں گی۔ شیخ رشید احمد اگرچہ دیوانہ بکار خویش ہشیار ہیں مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کی محبت میں اُن کی دیوانگی حد سے بڑھ چکی ہے کیونکہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے خلاف بھی بیان دیا ہے کہ پانچ پانچ سیٹوں والے بھی وزارتِ اعلیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کے جواب میں چوہدری مونس الٰہی نے بھی ایک تندوتیز بیان دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم دورئہ کراچی میں ایم کیوایم اور جی ڈی اے کو ہمسفر رہنے پر آمادہ نہیں کرسکے۔ حال ہی میں ایم کیوایم کے وفد نے اسلام آباد میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور تحریک عدم اعتماد کی حمایت پر اپنی کڑی شرائط پیش کی ہیں۔ ان میں سندھ کی گورنری اور کراچی کے بلدیہ ایڈمنسٹریٹر کا منصب ایم کیو ایم کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ ملازمتوں میں کراچی کے 40 فیصد کوٹے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی شرط بھی شامل ہے۔
آصف علی زرداری نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ جنابِ زرداری نے( ق) لیگ کو بھی یہ ضمانت دی ہے کہ اُن کے اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پس پردہ طے پانے والی شرائط پر عملدرآمد ہوگا۔ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے طے ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) سے یقین دہانی حاصل کرلی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ میں اگرچہ بعض امور پر ابھی تک اختلافات ہیں؛ تاہم دونوں گروپوں کے مشترکہ دوست یہ اختلافات دور کرانے کی تگ ودو کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو ذاتی طور پر خان صاحب سے بہت گلے شکوے ہیں۔ اُن کا نجی محفلوں میں یہی کہنا ہے کہ اُن کے خلاف کورٹ کچہری میں جو کارروائیاں ہوئی ہیں وہ پیا ہی کی مرضی اور منشا کے مطابق کی گئی تھیں۔ عمران خان اور اُن کے پرانے ساتھیوں کی قبائے دوستی میں اتنے چاک بلکہ شگاف ہوچکے ہیں کہ جنہیں دمِ واپسی سوزنِ التفات سے رفو کرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اگر اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے الگ ہوکر اپوزیشن کے ساتھ جاملتی ہیں تو پھر تحریک انصاف کے ''منحرف‘‘ ارکان کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پی ٹی آئی سے الگ ہو کر یہ ارکان اگر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتے ہیں تو اُنہیں حکمران جماعت کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ تو کیا اُنہیں اسمبلی کی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے؟ اپوزیشن کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم سے لے کر دیگر وزراء تک ان ''منحرف‘‘ ارکانِ اسمبلی کو رات دن دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کسی بھی جماعت کے ارکان اگر اپنی لیڈرشپ اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس پارٹی کی قیادت کے خلاف اندرونِ خانہ تحریک عدم اعتماد پاس ہوچکی ہے۔
تحریک عدم اعتماد جمہوری نظام کے لیے ایک روٹین کی کارروائی ہے۔ یہ کسی سیاست دان کی سیاسی پالیسیوں سے شدید اختلافات کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ہر جمہوری حکمران کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ آئینی تقاضوں کے مطابق اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے گا۔ اگر کوئی حکمران اپوزیشن سے ہاتھ ملانے تک تیار نہ ہو‘ اور اُن کا سامنا کرنے سے گریز کرے‘ رات دن چور ڈاکو کہہ کر اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کرے تو پھر جس طرح کسی مجبور خاتون کے پاس خلع کا حق ہوتا ہے اسی طرح اپوزیشن کے پاس تحریکِ عدم اعتماد کا جمہوری ہتھیار ہوتا ہے۔
جہاں تک آثارو قرائن کا تعلق ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوگی تاہم پاکستان جیسے ملک میں آخری لمحوں میں بھی بازی الٹ سکتی ہے۔ اس لیے ہم احتیاطاً کوئی حتمی پیش گوئی کرنے سے اجتناب کررہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں