حتمی فیصلہ

ان دنوں سیاسی کالم لکھنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ جب ہر شے دھند کی دبیز تہہ میں لپٹی ہو اور کچھ دکھائی دے رہا ہو اور نہ سجھائی تو ایسی صورت میں کسی حتمی بات کی نشاندہی کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
گزشتہ دو تین ہفتوں سے ملک طرح طرح کی غیرمصدقہ خبروں‘ رنگ برنگی افواہوں‘ حیران کن کہانیوں اور ہر لحظہ بدلتی ہوئی صورتحال میں گرفتار ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے بے یقینی کی فضا زہر قاتل سے کم نہیں ہوتی۔ جب آپ کو معلوم نہ ہو کہ آنے والی حکومت کتنے عرصے تک چلے گی اور کیا وہ اپنی آمد پر پچھتا تو نہیں رہی۔ حکومت کے رویے سے یوں لگتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے ہچکچا رہی ہے اور گومگو کا شکار ہے۔ ایسی حالت میں سرمایہ سامنے آتا ہے نہ کوئی منصوبہ۔ یوں نظر آتا ہے کہ عمران خان کے جارحانہ رویے نے تقریباً ہر سیاسی جماعت اور ہر ادارے کو بیک فٹ پہ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ سوچتا ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ جس کی بنا پر عمران خان کو قانون و آئین اور واجب الاحترام شخصیات و اداروں پر حملہ آور ہونے کے لیے فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ اُن کو لندن یاترا کی بنا پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے مگرآپس کی باہمی مشاورت سے واضح مستقبل کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق میاں برادران دل و جان سے ایک پیج پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جلد الیکشن کے لیے ہرچہ بادا باد کہنے پر آمادہ تھی مگر وہاں لندن میں بنیادی اصول یہ طے کردیا گیا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اتحادیوں کی مکمل مشاورت سے کیا جائے۔
اگرچہ حکومتی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے لیے ہر سطح اور ہر جہت سے مکمل یکسوئی اور یک جہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ میاں شہباز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ اتحادی حکومت کی بڑی جماعتوں‘ جن میں پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم شامل ہیں‘ نے وزیراعظم کو مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ برباد شدہ معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے وہ جتنے بھی مشکل فیصلے کریں گے ‘سب ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں گے۔ اتحادیوں نے میاں شہباز شریف سے کہا ہے کہ وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ معیشت کی اصلاح کے لیے عرصہ قلیل اور عرصہ طویل پر مبنی منصوبہ سازی کریں۔ الیکشن ریفارمز سامنے لائیں اور احتسابی ادارے کو فردِ واحد کی فرمانبرداری سے نکالنے اور قانونی و جمہوری ادارہ بنانے کے لیے اُن اصلاحات کا تعین کریں جن کا تقاضا گزشتہ حکومتوں کے ادوار سے کیا جا رہا ہے۔
مختلف رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد کی سیاسی حکومت یہ چاہتی ہے کہ مشکل اقتصادی فیصلوں کو نافذ کرنے‘ معینہ مدت پوری کرنے اور مطلوبہ اصلاحات کے لیے مقتدر حلقوں کی حمایت کی یقین دہانی کرائی جائے۔ اگرچہ مقتدر حلقوں کے پاس ہمیشہ پلان بی ہوتا ہے اور غالباً اسی پلان کے لیے یہ طے کیا گیا تھا کہ کسی ماہر مالیات کو نگران حکومت کی سربراہی سونپی جائے۔ اس دوران کچھ ماہرین کے نام بھی سامنے آئے؛ تاہم لگتا یوں ہے کہ مشاورت کے بعد مقتدرہ اس نتیجے پر پہنچی کہ ایک عارضی حکومت سے عالمی مالیاتی ادارے بالعموم بہ آسانی معاملات طے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ہر سطح پر یہ ادراک کیا گیا ہے کہ اقتصادی اصلاحات کے لیے اور عوام کو مطمئن کر کے ساتھ لے کر چلنے کے لیے مستقل سیاسی حکومت کی قیادت میں معاشی ماہرین زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ اگر ملکی زمام کار کسی مالیاتی ماہر کے سپرد کر دی جائے تو وہ اِدھر اُدھر سے ٹیکس و محصولات بڑھا گھٹا کر آمدو خرچ کی بکس کو تو ''درست‘‘ کر دیتا ہے مگر اس سے معاشی ترقی رک جاتی ہے اور سیاسی بے چینی بڑھ جاتی ہے‘ لہٰذا ان سب امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سطح پر موجودہ حکومت کو آگے بڑھنے اور اگست 2023ء تک اپنی مدت مکمل کرنے کا گرین سگنل دیا گیا ہے؛ البتہ مریم نواز نے جمعرات کے روز شاہینوں کے شہر سرگودھا میں حکومت چھوڑنے اور انتخابی اکھاڑے میں اُترنے کے نعرے لگوا کر ایک بار پھر کنفیوژن پیدا کر دی ہے۔
دو روز قبل سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی روشنی میں فیصلہ دیا کہ منحرفین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ پانچ رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے سے دو فاضل جج صاحبان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نظر نہیں آتی۔ آرٹیکل 63 اے ایک مکمل ضابطہ ہے‘ عدالت اس کی تشریح کی مجاز نہیں ہے۔
سابق حکمران جماعت کے چیئرمین کا حیران کن وتیرہ ہے کہ جب عدالت سے کوئی فیصلہ اُن کی مرضی کے خلاف آئے تو وہ عدالت عظمیٰ کو انہیں اقتدار سے ہٹانے کی امریکی سازش کا حصہ تک قرار دے ڈالتے ہیں اور اگر فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق آجائے تو وہ عدالت کے گن گانے لگتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی ادارے اگر اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہیں تو وہ فخریہ ایک پیج پر ہونے کے شادیانے بجاتے ہیں اور اگر ریاستی ادارہ نیوٹرل ہونے کا اعلان کرتا ہے تو اُس کے خلاف بھی شرمناک مہم چلائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کے ادارے جتنے مضبوط ہوں گے وہ ملک اتنا ہی مستحکم ہوگا۔ پی ٹی آئی کو کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو وہ اسے چراغاں سمجھتے ہوئے جشن منانا شروع کر دیتی ہے۔
مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کی روشنی میں منحرفین کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مرکز میں اتحادی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کی اکثریت میں منحرفین کا ایک بھی ووٹ نہیں البتہ پنجاب میں حمزہ شہباز کو اس فیصلے سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؛ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ فیصلہ مؤثر بہ ماضی ہے یا مؤثر بہ مستقبل۔ نیز اس وقت پنجاب میں کوئی گورنر نہیں کہ جو حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے۔ اگر چودھری پرویز الٰہی قائم مقام گورنر بن جاتے ہیں تو پھر اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری اُن کی سیٹ سنبھال لیں گے جو اُن کی سپیکرشپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پاس کروا سکتے ہیں۔ سیاست اگر شطرنج کا کھیل ہے تو اس وقت پاکستان میں یہ کھیل اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکا ہے۔
میں نے اپنی معلومات کی تصدیق کے لیے جناب مولانا فضل الرحمن سے دریافت کیا کہ کیا اتحادی حکومت گومگو کے مخمصے سے باہر آچکی ہے۔ میرے سوال کے جواب میں مولانا محترم نے اعتراف کیا کہ بوجوہ ایک تذبذب کی کیفیت ماحول پر چھا گئی تھی۔ اس حوالے سے بیوروکریسی اور ہماری بزنس کمیونٹی ذہنی جمود کا شکار رہی۔ اتحادی حکومت کے ارکان نے اپنی مدت پوری کرنے کا اعلان کرکے تذبذب اور جمود کا خاتمہ کردیا ہے۔
اگرچہ اتحادیوں کی طرف سے میاں شہباز شریف کو اپنی حمایت کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی ہے تاہم یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ابھی تک معینہ مدت کے بارے میں حق الیقین کی منزل پر نہیں پہنچ سکی۔ جناب میاں شہباز شریف جتنی جلدی ہو سکے اس بے یقینی سے باہر آئیں اور حتمی فیصلہ کر لیں کہ اُنہیں قبل از انتخابات کی طرف جانا ہے یا 2023ء تک کی معینہ مدت پوری کرنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں