سیلاب اور سیاست دان

حالیہ سیلابوں سے سارے ملک میں ہونے والی تباہی کے بارے میں مجھے ملکی و عالمی میڈیا کے ذریعے بڑی تفصیلی معلومات حاصل ہوئیں؛ تاہم الخدمت کے جواں سال ذمہ دار شعیب ہاشمی نے بلوچستان اور سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کی تباہی و بربادی کا آنکھوں دیکھا حال سنایا تو آنکھیں پُرنم ہو گئیں۔
جون سے لے کر اگست تک جاری رہنے والے ان سیلابوں سے بلوچستان‘ سندھ‘ خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب بری طرح متاثر ہوئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں بے یار و مددگار لوگ سیلابی ریلوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اُن کے مال مویشی ہولناک لہروں کی نذر ہو گئے اور اُن کے کھیت کھلیان گندے پانی کے تالابوں اور جوہڑوں میں بدل چکے ہیں۔ ان سیلابوں میں زندہ بچ جانے والوں کو مختلف بیماریوں نے گھیر لیا ہے۔ ملیریا‘ اسہال اور جلدی امراض کا سیلاب زدگان بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے سینکڑوں بچے دیکھنے میں آئے جن کے زخموں میں کیڑے رینگ رہے ہیں۔ سیلاب زدگان مال و متاع سے خالی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں کو دیکھتے ہیں تو آس و امید سے اُن کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ مختلف ثقہ ذرائع سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے لے کر اب تک سیلابوں میں 1638 افراد لقمۂ اجل اور 12865 زخمی ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بیماروں کی تعداد اس سے الگ ہے۔ 20 لاکھ 49 ہزار 532 گھر نیست و نابود ہو چکے ہیں جبکہ 11 لاکھ بیس ہزار مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہیں۔ سیلابوں کی زد میں آنے والے سارے ملک کے 84 اضلاع میں متاثرین کی تعداد ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہے۔ ان علاقوں میں سڑکیں اور پل تقریباً نابود ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران کئی فلاحی تنظیموں نے ریلیف کے کاموں میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لیا۔ ان تنظیموں کے لاکھوں رضا کار کہیں تن تنہا اور کہیں قومی اداروں اور کہیں کچھ دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر شب و روز دور دراز کے دیہات اور گوٹھوں تک لوگوں کی جانیں بچاتے رہے۔ چاروں صوبوں میں خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور رضاکار ڈاکٹروں کی ٹیموں کے ساتھ درجنوں میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے ہیں اور موبائل میڈیکل یونٹس کے ذریعے دوردراز کے علاقوں میں طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ لاکھوں افراد کے لیے خیمہ بستیاں بسانا‘ انہیں خوراک اور صاف پانی مہیا کرنا‘ انہیں بیماریوں سے صحت یابی کے لیے میڈیکل کیمپ لگانا‘ ہر اثاثۂ حیات سے محروم ہونے والوں کو ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا کوئی آسان کام نہیں مگر یہ رفاہی تنظیمیں اس طرح کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔الخدمت‘ اخوت اور سیلانی ٹرسٹ کی یہ قابلِ قدر خدمات لائق تحسین ہیں۔
الخدمت کے صدر عبدالشکور صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ ہم سے اپنی مخلوق کی خدمت کا کام لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی دی ہوئی پائی پائی کو ہم مقدس امانت سمجھتے ہیں اور آمد و خرچ کا مکمل حساب کتاب رکھتے ہیں۔بیرونِ ملک جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں وہاں وہاں اُن کے دل اپنے آفت زدہ بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اُن کے لیے امدادی فنڈز اکٹھا کرکے پاکستان بھیج رہے ہیں۔ تمام پاکستانی حیران ہیں کہ مصیبت اور آفت کی اس گھڑی میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی سیاسی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ جماعت اسلامی اپنے مقامی دفاتر اور بالخصوص شعبۂ خواتین کے ذریعے مصیبت زدگان کے لیے ضرورت کا سامان اور نقد رقوم جمع کرکے متاثرہ علاقوں کو بھجوا رہی ہے؛ تاہم ملک کے اندر متحدہ مرکزی حکومت کی نو‘ دس جماعتیں کہیں ریلیف کا کوئی کام کر رہی ہیں اور نہ ہی آفت زدہ علاقوں کی تعمیرِ نو اور متاثرین کے لیے وسائل معیشت مہیا کرنے کی کوئی منصوبہ بندی لے کر سامنے آئی ہیں۔ لاکھوں افراد پر مشتمل تبلیغی جماعت کی طرف سے مولانا طارق جمیل مصیبت زدگان کے لیے کوئی امدادی پیکیج لے کر سامنے نہیں آئے۔ اسی طرح عمران خان گزشتہ تین چار مہینوں کے دوران سیلابی علاقوں کا دورہ کرنے کے بجائے کروڑوں روپے خرچ کرکے مختلف شہروں میں جلسے اور ریلیاں منعقد کر رہے ہیں اور اپنے حق میں نعرے لگوا کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر خان صاحب بالغ نظری اور سیاسی دوراندیشی سے کام لیتے تو وہ آگے بڑھ کر اعلان کر دیتے کہ کم از کم اگلے چھ ماہ کے لیے سیاست معطّل ہو گی اور صرف اور صرف فلاحی اور رفاہی کام ہوگا اور مصیبت زدہ لوگوں کے لیے پختہ گھروں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے گا۔ وائے افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔
عمران خان نے اب پھر اسلام آباد لانگ مارچ کی دھمکی دی ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر مرکزی وزیر داخلہ عمران خان کو للکارتے ہیں کہ ہمت ہے تو آ کر دکھائو۔ ان دوطرفہ دھمکیوں کے بجائے اگر حکومت اور اپوزیشن مل کر تاجروں اور اہل خیر کے ساتھ مل کر سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کام کرتیں تو نہ صرف ہم آفت زدہ لوگوں کی آبادکاری کو یقینی بناتے بلکہ سیلابوں کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ بندی کے مطابق عملی کام کا آغاز بھی کر سکتے تھے۔ مگر بقول غالب:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
آج کل پاکستان کے سیلاب زدہ علاقے مصائب و مشکلات کی زد میں ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد آڈیو لیکس کی زد میں ہے۔ پہلے کچھ آڈیو لیکس آئیں جن میں حکومتِ وقت کو خفّت اٹھانا پڑی۔ ان لیکس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ انہیں بتا رہے ہیں کہ مریم نواز اپنے داماد کے کسی پلانٹ کے لیے بھارت سے مشینری درآمد کرنے کا پرمٹ چاہتی ہیں۔ سیکرٹری صاحب کی رائے یہ تھی کہ اس فیور سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اب 28ستمبر کو آنے والی آڈیو لیکس میں عمران خان اپنے دورِ حکومت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو کہہ رہے ہیں کہ سائفر پر صرف کھیلنا ہے‘ امریکہ کا نام نہیں لینا۔ یہ اس سائفر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جسے بنیاد بنا کر خان صاحب نے طوفان اٹھا دیا تھا اور شخصیات اور اداروں کو انہوں نے وہ وہ کچھ کہہ دیا کہ جس کی آئین اجازت دیتا ہے نہ اخلاق۔ دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ جس ملک کے وزیراعظم کے دفتر میں آڈیو لیکس ہو جاتی ہیں وہاں ہیکر حملوں سے اور کون سا ادارہ محفوظ ہوگا۔
گزشتہ روز تعلیم یافتہ تاجروں کے ایک تھنک ٹینک سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ اس فکری فورم کے سربراہ عابد بٹ نے کہا کہ وہ سیلاب کی تباہی کے ساتھ ساتھ معیشت کی تباہی سے بہت فکر مند ہیں۔ برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تاجر کا کہنا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور پانی گھٹ رہا ہے۔ اسی طرح درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے اور برآمدات بہت کم ہو رہی ہیں۔ اس بزنس فورم کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر معاشی صورتِ حال پر گفتگو کرے تو ہم اسے ایسا قابلِ عمل حل پیش کر سکتے ہیں جس سے اگلے چند برسوں میں ہم نہ صرف سیلابوں پر قابو پا لیں گے بلکہ ملکی معیشت کو قرضوں سے چھٹکارا دلا کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جن سیاست دانوں کے پاس سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں اُن کے پاس معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو سنبھالا دینے کا وقت کہاں ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں