جنرل سیّد عاصم منیر: امیدیں‘ دعائیں

طوفان‘ ہیجان اور بے یقینی کے سیاہ بادلوں کے بعد سردیوں کی سنہری رو‘ پہلی دھوپ میں فوجی قیادت کی تبدیلی جس خوشگوار انداز میں ہوئی ہے اس سے خوفزدہ و حیران پریشان عوام کو بہت اطمینان اور سکون نصیب ہوا ہے۔ تیسری دنیا کے ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ہر آنے والے کی تہِ دل خواہش ہوتی ہے کہ عمر بھر یہ محدود پَل نہ گزرے اور اُن کے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہ ہو۔ بقول شاعر
عمر بھر اس ایک پل کو مت گزرنے دیجیے
اس پس منظر میں یہ باوقار تبدیلی باعثِ تشکر و اطمینان ہے۔ جنرل سیّد عاصم منیر کا راولپنڈی کے واجب الاحترام سادات گھرانے سے تعلق ہے۔ وہ اس شہر کے گلی کوچوں میں پلے بڑھے ہیں۔ اُن کا آبائی گھر ڈھیری حسن آباد کنٹونمنٹ بورڈ میں واقع تھا۔ اُن کے والد سید سرور منیر شاہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ آرمی چیف بننے سے قبل جنرل صاحب فوج میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ دیانت‘ متانت اور پروفیشنل مہارت اُن کا طرّہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ بچپن اور عمر کے کسی اگلے مرحلے میں قرآن پاک حفظ کرنا غیرمعمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے تائیدِ ایزدی اور نفس کُشی ضروری ہوتی ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ جنرل عاصم منیر نے بھی غالباً چالیس برس کی عمر کے لگ بھگ قرآن مجید مدینہ منورہ میں حفظ کیا تھا۔
جنرل صاحب کے سامنے چیلنجز کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ بہت سے مسائل و مشکلات انہیں ورثے میں ملے ہیں۔ ماضی بعید کی بات تو بعد میں کرتے ہیں مگر گزشتہ چار پانچ برس کے دوران ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا پہلے ذکر ہونا چاہیے۔2018 ء میں آنے والی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں مگر یہ پوری نہ ہوسکیں اور جب ملکی معاملات اس حکومت کے ہاتھ سے نکلتے ہوئے نظر آئے تو پاک فوج کو معیشت و خارجہ امور تک کئی امور میں حکومت کی مدد کے لیے آگے آنا پڑا۔ اب یہ تاثر عام ہے کہ فوج نے عمران خان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا کر اس وقت کی اپوزیشن کے سر پر رکھ دیا جس کے نتیجے میں وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئی۔ عمران خان گزشتہ دو ڈھائی ماہ اسی سرپرستی کی تبدیلی کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ وہ دستِ غیب یا دستِ شفقت کی واپسی کے لیے دن رات بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ اس مہم میں طنز‘ طعنے اور دشنام وغیرہ کا کوئی ایسا ہتھیار یا حربہ نہ تھا کہ جسے خان صاحب نے استعمال نہ کیا ہو۔ وہ فوج کے اعلیٰ عہدے کی تبدیلی کو بھی اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
خوش قسمتی سے حکمران جماعتوں کے اتحاد نے دانش و حکمت اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے سینئر موسٹ اور ڈیزرونگ موسٹ جرنیل کی بطور سپہ سالار تقرری کر دی ہے۔ اب جنرل عاصم منیر کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ فوج کے کبھی ادھر اور کبھی اُدھر سیاسی میلان کے تاثر کو کس دانشمندی و حکمت عملی سے زائل کرتے ہیں۔ فوج کے سابق سربراہ اور کلیدی عہدوں پر فائز بعض اعلیٰ افسران تنقیدی تیروں کی زد میں ہیں۔ اس تنقید کا اثر فوج کے ادارے پر بھی پڑتا ہے۔ عسکری ادارے کو ہر طرح کی سیاسی و انفرادی وابستگیوں سے ماورا بنا کر عوام کی محبوب و محترم فوج کو مقام بلند پر ایک بار پھر فائز کرنا ہی جنرل عاصم منیر کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ایک لحاظ سے جنرل عاصم منیر کا کام آسان بھی ہو گیا ہے۔ اگرچہ جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے زمانے میں فوجی مداخلت اپنے نقطۂ عروج پر تھی تاہم انہوں نے جو درد دیا تھا اسے وہ لادوا چھوڑکر نہیں گئے بلکہ جب اپنی غلطی کا ادراک ہو گیا تو پھر وہ سیاست میں 75 سالہ مداخلت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے پر کمربستہ ہو گئے۔ انہوں نے ملفوف انداز میں یہ بھی تسلیم کیا کہ 2018ء کے الیکشن میں مداخلت غلط تھی۔ بہرحال کور کمانڈرز کی سطح پر گہرے غور و خوض کے بعد فیصلہ کر لیا گیا کہ آئندہ من حیث الادارہ فوج سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہے گی۔ اب نئے سپہ سالار کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اس اہم اعلان پر کیسے عملدرآمد کرواتے ہیں۔ فوج سیاسی امور میں صرف مطلوبہ انتخابی نتائج کے ذریعے ہی مداخلت نہیں کرتی رہی بلکہ کئی طریقوں سے براہِ راست اور بالواسطہ طور پر حکومتی مشینری کے کئی شعبوں میں دخل اندازی کرتی رہی ہے‘ یہ روایت بھی اب ختم ہو جانی چاہیے۔
ہم اپنے کالموں میں کوشش کرتے ہیں کہ صرف نکتہ چینی اور امراض کی نشاندہی پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ علاج بھی تجویز کریں۔ مجھے یقین ہے کہ جنرل عاصم منیر نے جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ کر رکھا ہو گا۔ میری درخواست ہو گی کہ وہ ایک بار پھر اس اہم رپورٹ کے فوج سے متعلقہ حصوں کا بنظرِ غائر جائزہ لیں اور ان سفارشات کو اختیار کریں جن سے ہمارا مستقبل سنور سکتا ہو۔ جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں 26 دسمبر 1971 ء کو قائم کردہ اس عدالتی کمیشن نے برسوں کی محنت ِشاقہ کے بعد اپنی تفصیلی رپورٹ دے دی مگر اس رپورٹ کو قومی راز قرار دے کر سربمہر کر دیا گیا تھا۔ کمیشن کے قیام کے 29 برس کے بعد اس رپورٹ کے جو حصّے اخبارات کے ذریعے منظرعام پر آئے اُن کے مطابق فوج کو سیاست میں مداخلت‘ جرنیلوں کے اپنے مفادات کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کی نام بنام نشاندہی کی گئی تھی۔ رپورٹ میں مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کے سربراہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی ایک کے بجائے دو اکثریتی پارٹی کی تھیوری کو قومی وحدت پر حملہ قرار دیا گیا تھا۔ حمود الرحمن رپورٹ میں بہت سی سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں سب سے اہم ہے یہ کہ ہیت مقتدرہ اپنے کام سے کام رکھے اور سیاست سے مکمل اجتناب کرے۔ رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور پاکستان میں جمہوریت کی بالادستی کے بارے میں معلومات کو فوجی اکیڈمیوں کے نصاب کا حصّہ بنایا جائے۔ اگر حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو پھر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف ایک جمہوری حکومت کا تختہ نہ الٹتے۔ اس اہم چیلنج کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی حالتِ زار بھی جنرل صاحب کی توجہ کی مستحق ہے۔ اسی طرح کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی روک تھام بھی فوری نوعیت کا معاملہ ہے جس کی طرف جنرل صاحب کو توجہ مبذول کرنا پڑے گی۔
ہم امید کرتے ہیں جنرل سیّد عاصم منیر سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کے اعلان پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں لکھوائیں گے۔ ہم دعاگو ہیں کہ نئے سپہ سالار کے آئندہ تین برس میں کوئی سیاسی جماعت اُن کی فیورٹ ہو اور نہ وہ کسی جماعت کے فیورٹ ہوں۔ان شا اللہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے دلوں کی دھڑکن ثابت ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں