افغان طالبات پر تعلیم کے دروازے بند

افغان مجاہدین اور پھر طالبان تقریباً چار دہائیوں تک جہادی کارروائیوں میں سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے اپنی جانبازی اور چابکدستی کا لوہا ساری دنیا سے منوا یا ہے۔ پہلے افغانوں نے ایک سپر پاور کو شکست سے دوچار کیا اور پھر دوسری سپرپاور کو اس کے اتحادیوں سمیت ناکوں چنے چبوائے۔ اسلامی دنیا کے دینی و علمی حلقے طالبان کے فلسفۂ سیاست اور فلسفۂ امارت سے اختلاف رکھنے کے باوجود اُن کی کامیابی سے ہمیشہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ان حلقوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ طالبان اپنے تصورِ جہانبانی کو اسلام کی حقیقی روح اور دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ طالبان نے اپنی پہلی حکومت کے قیام کے دوران امن و امان قائم کرنے‘ افغانستان سے منشیات کے خاتمے اور اپنی اخلاقی برتری ثابت کی۔ عالمی سطح پر اس کو بہت سراہا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ نے اپنے اتحادیوں سمیت 20برس سے اوپر افغانستان پر آتش و آہن کی بارش کی اور انہوں نے اپنے حواریوں کی حکومت قائم کرکے ڈالروں سے افغانوں کو خریدنے کی کوشش کی مگر وہ طالبان کو سرنگوں نہ کر سکے۔
اس مرتبہ طالبان نے جہادی ہی نہیں سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ طالبان نے 2013ء میں اپنا دفتر قطر میں کھولا تھا۔ تقریباً آٹھ نو برس اُن کے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ مذاکرات چلتے رہے۔ مذاکرات کے دوران طالبان نے اپنی معاملہ فہمی اور سیاسی و سفارتی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا۔ انہوں نے امریکی سفارتکاروں کو دلائل کے ساتھ قائل کیا کہ اب افغان سرزمین پر کسی تنظیم کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں بالآخر طالبان کو فتح حاصل ہوئی اور امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت متوقع وقت سے بھی پہلے اور بغیر کسی مزاحمت کے کابل طالبان کے حوالے کرکے ارضِ افغانستان سے نکل گیا۔
اس مرتبہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ طالبان ایک نیا ورلڈ وِیو پیش کریں گے اور سماجی میدان میں گزشتہ دور کی نسبت ایک لچکدار اپروچ اختیار کریں گے۔ تاہم اس بار پھر طالبان نے پہلے طالبات کی سیکنڈری اور اب اُن کی ہائر ایجوکیشن پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ جمعرات کے روز افغان طالبات نے کابل کی سڑکوں پر اپنے حقِ تعلیم کے لیے زبردست مظاہرہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے طالبان کے اس رویے کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا ہے۔ یقینا طالبان میں اتنی وسعت نظری تو ہوگی کہ وہ سمجھ سکیں کہ موجودہ دور میں ہی نہیں بلکہ پرانے ادوار میں بھی کوئی سوسائٹی ہر معاملے میں خودکفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے طالبان حکومت عالمی ردِعمل سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی۔
ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ طالبان نے کس شرعی دلیل کا سہارا لے کر خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں؟ طالبان کا تعلق دیوبند کے مکتبِ فکر سے ہے۔ اس مکتبِ فکر سے وابستہ علما نے ہمیشہ عورتوں اور مردوں کے لیے تعلیم کی ترویج پر بہت زور دیا ہے۔ طالبان اس سلسلے میں اگر کسی فقہی یا شرعی مغالطے کا شکار ہیں تو انہیں عالمِ اسلام کے جیّد علما سے روشنی و رہنمائی کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔ اسلام میں واضح طور پر مرد اور عورت دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا مکلف کیا گیا ہے۔ ہمارے دینی عقیدے کے مطابق کل برزخ اور روزِ حشر میں سوال جواب ہوں گے تو یہ باز پُرس صرف مردوں سے نہیں‘ عورتوں سے بھی ہوگی۔
دیوبند فکر کے معروف مدارس و جامعات میں صرف مردوں کے ہی نہیں‘ عورتوں کے ادارے بھی شامل ہیں۔ طالبان اس سلسلے میں اگر کوئی فتویٰ چاہتے ہیں تو وہ دارالعلوم کراچی کے حضرت مولانا تقی عثمانی‘ ملتان کے حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا فضل الرحمن سے رجوع کر سکتے ہیں۔
تعلیم تو آکسیجن کی مانند ہے جس طرح آپ کسی شخص کی آکسیجن بند کر دیں تو قتل کے مرتکب پائے جائیں گے۔ اسی طرح آپ کسی مرد یا عورت پر تعلیم کے دروازے بند کر دیں تو یہ اس کے علمی قتل کے مترادف ہوگا۔ افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں بھی ایک مذہبی حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کی اخلاقی پولیس کے خلاف وہاں کے لوگوں بالخصوص خواتین کے اندر شدید جذبات پائے جاتے ہیں‘ تاہم ایران نے طالبات کو پرائمری سے لے کر جامعات تک تعلیم کی شاندار سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایرانی حکومت نے زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں‘ طب سے لے کر انجینئرنگ تک‘ خواتین کی بھی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔
ہمارے طالبان بھائی اسلام کی سربلندی اور دعوت اسلامی کو پرامن طریقوں سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے دعویدار ہیں۔ خواتین کو تعلیم اور سماج سے یکسر دیس نکالا دے کر وہ دنیا کے سامنے کس اسلام کی تصویر پیش کریں گے؟ اسلام وہ پہلا دین ہے کہ جس میں عورتوں کو حقِ تعلیم‘ حقِ وراثت‘ حقِ ملکیت اور حقِ معیشت دیا گیا تھا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ اس مرتبہ طالبان ایک متوازن اور معتدل شورائی طرزِ حکومت اختیار کریں گے جس میں عورتوں کو بھی بھرپور نمائندگی دی جائے گی۔ طالبان کے اس رویے کی منطق ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کسی اسلامی سوسائٹی میں خواتین کے خلاف تعلیم کش رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ طالبان شعوری یا لاشعوری طور پر قبائلی کلچر کے پیروکار بن کر طالبات کو زیورِ تعلیم سے محروم کر رہے ہیں۔ افغانستان جیسے معاشروں کے دیہات میں قبائلی رسوم و روایات کو اوّلیت و فوقیت دی جاتی ہے۔ اس معاشرے میں عورت کو مرد کے مساوی نہیں سمجھا جاتا۔ قبائلی کلچر عورتوں کے لیے تعلیم و ملازمت کے حق کو مرد کا صوابدیدی اختیار سمجھتا ہے۔ اسلام میں مردوں کو کوئی ایسا اختیار حاصل نہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر ایک روزہ دورے پر افغانستان گئی تھیں۔ انہوں نے وہاں کے وزرا سے مذاکرات کیے اور انہیں دیگر موضوعات کے علاوہ عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کیا۔ افغان وزراء نے پاکستان کے برادرانہ تعاون کو بہت سراہا۔ انہوں نے طالبات پر تعلیمی پابندی کو عارضی قرار دیا تھا۔ مگر جو ہوا وہ اس انڈر سٹینڈنگ کے بالکل برخلاف ہے۔ حنا ربانی کھر جب افغانستان گئی تھیں‘ اس وقت تک طالبات کی سیکنڈ ری تعلیم پر پابندی تھی اور ہماری وزیر خارجہ کی واپسی کے بعد وہاں عورتوں کی محدود اعلیٰ تعلیم کی اجازت بھی ختم کر دی گئی۔
بدوی طرز کے معاشرے میں شاہ فیصل شہید نے تعلیم کو ہر مرد اور عورت کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔ انہوں نے شہروں میں ہی نہیں بلکہ صحرائی بستیوں میں بھی طلبہ و طالبات کے لیے مدارس تعمیر کرائے۔ مرحوم شاہ نے عورتوں کے لیے تعلیمی و طبی شعبے میں ملازمتوں کے فراخدلی سے مواقع فراہم کیے۔ اس کے باوجود عورتوں کی خودمختاری پر مقامی قبائلی کلچر غالب رہا۔ اب گزشتہ دو برس سے محمد بن سلمان نے عورتوں کو ڈرائیونگ کے علاوہ بہت سے شعبوں میں ملازمتیں کرنے اور علم و تحقیق کے میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے مکمل آزادی دے دی ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت سعودی عرب‘ ایران اور پاکستان کے اسلامی معاشروں اور یہاں کے علمائے کرام سے تعلیمِ نسواں اور خواتین کے زندگی کے اکثر شعبوں میں شمولیت کے بارے میں رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ اس وقت افغانستان کو زبردست اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا مؤثر مقابلہ افغانی خواتین کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اور انہیں زندگی کے اکثر شعبوں میں حسن کارکردگی دکھانے کے فراخدلانہ مواقع دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں