شوق برہنہ پا چلتا تھا

ڈاکٹر تنویر زبیری لاہور میں بڑے مصروف اور محبوب طبیب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بس دو ہی شوق ہیں۔ ایک جہاں گردی‘ دوسرا کتاب بینی۔ وہ صرف کتابیں پڑھتے ہی نہیں‘ تحفتاً پیش بھی کرتے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے فقیر کو ایک کتاب عنایت کی۔ کتاب کے ٹائٹل نے پہلی ہی نظر میں دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ کتاب کا ٹائٹل ہے ''شوق برہنہ پا چلتا تھا‘‘۔ اس کے مصنف ہیں: وجاہت اشرف قاضی۔ اگلے صفحے پر غلام محمد قاصر صاحب کا مکمل شعر پڑھا تو میں تا دیر سر دھنتا اور اس کی معنویت پر غور و فکر کرتا رہا۔ شعر ملاحظہ کیجیے:
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
آٹو بائیوگرافی جتنی سچی اور حقیقی زندگی کے قریب ہو اتنی ہی دل چسپ ہوتی ہے۔ یہ خود نوشت وجاہت اشرف قاضی کے 42 برس پر محیط تدریسی و انتظامی سفر کی روداد ہے۔ قاضی صاحب 1969ء سے لے کر 1994ء تک گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک)میں بحیثیت استاد اور صدرِ شعبہ فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر وہ سیکرٹری بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور چیئرمین بورڈ بھی رہے۔ دو برس کے لیے وہ پاکستان انٹرنیشنل سکول ریاض سعودی عرب کے پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ یہ کتاب قاضی صاحب کی آپ بیتی ہی نہیں‘ ہماری قومی زندگی کی جگ بیتی بھی ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا ماضی دیکھ سکتے ہیں اور یہ آئینہ ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ ہمارا حال ہمارے ماضی سے بہتر نہیں بلکہ بعض اعتبارات سے ابتر ہے۔
وجاہت اشرف قاضی کی پچیس سالہ تدریسی زندگی کیمبل پور (اٹک) کے خوش رنگ ماحول میں بسر ہوئی۔ یہاں انہیں اپنے اساتذہ کی رفاقت بھی میسر آئی اور نئے دوستوں کی قربت بھی۔ کالج کی چار دیواری امن و آشتی کا گہوارہ اور چھوٹا سا شہر اپنائیت کے احساس سے لبریز تھا۔ اس کیف پرور ماحول سے نکل کر جب وہ لاہور پہنچے اور تدریس کے بجائے تعلیمی بورڈ میں انتظامی عہدے پر متمکن ہوئے تو صحیح معنوں میں انہیں کانٹوں بھرے راستوں سے گزرنا پڑا۔
خاکسار نے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہاں سے تدریسی فرائض کی ابتدا کی۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ چھوٹی بحر کے مصرعے کی طرح چھوٹے شہروں کی اپنی دلآویزی ہوتی ہے۔ قاضی صاحب کے بقول اُس زمانے میں کیمبل پور کا کالج پرنسپل صاحب کے اخلاقِ حسنہ‘ اساتذہ کے فیضانِ نظر اور طلبہ کی اطاعت شعاری کی بنا پر ایک منفرد تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ فاضل مصنف نے کئی مثالوں سے یہ واضح کیا ہے کہ تھانیدار سے لے کر ایم ایس اور ڈپٹی کمشنر تک‘ سب اپنے آپ کو اساتذہ سے کہیں برتر مخلوق سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ان افسران کے کئی چشم دید واقعات بیان کیے ہیں جن کی چشم کشا تفصیل کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ضلعی مقامات پر اساتذہ اور افسروں کے درمیان یہ تفاوت آج بھی اسی شدت سے موجود ہے۔
وجاہت قاضی نے لاہور ایجوکیشن بورڈ کے سیکرٹری اور قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے تین سال کام کیا۔ اُن کی خود نوشت کے مطابق انہیں نچلے طبقے سے لے کر بالائی طبقے تک قوم کے مزاج‘ بے اصولی‘ دھن دھونس سے کام کروانے کی عادت سے سابقہ پیش آیا۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات یا بہت سے آئینے کتاب میں موجود ہیں جن میں ہم اپنا قومی چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس چہرے کے خدوخال میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہمارے اربابِ حکومت و سیاست ایسی کسی تبدیلی کو صدقِ دل سے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی قوم اپنے اندر اس مثبت تبدیلی کے لیے کوئی آمادگی محسوس کرتی ہے۔
بورڈ آف ایجوکیشن لاہور کے بہت سے کلرکوں‘ ڈرائیوروں اور نااہل افسروں نے اس ادارے کے تشخص کو بری طرح مجروح کر رکھا تھا۔ جب اصلاحِ احوال کے لیے قاضی صاحب نے اقدامات کیے تو گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ قومی زندگی کے یہ مناظر کالم کی تنگ دامانی میں نہیں سما سکتے۔ بورڈ کی ملازمت کے دوران وزیروں‘ سیاستدانوں اور افسرشاہی وغیرہ کے طرز تخاطب کی بہت سی جھلکیاں کتاب میں موجود ہیں۔ ہم نمونے کے طور پر صرف ایک سٹاف افسر صاحب کا طرزِ تخاطب یہاں پیش کر رہے ہیں۔کسی بہت بڑے افسر کی بیٹی اپنے ایف ایس سی کے پرچوں کی ری مارکنگ چاہتی تھی۔ اُن کی طرف سے پہلے ایک صاحب آئے جو سیکرٹری صاحب کو دھمکیاں دے کر چلے گئے‘ بعد میں طالبہ کی والدہ محترمہ کئی افسران کے ساتھ کروفرّ سے بورڈ تشریف لائیں۔ ان سے بھی عرض کر دیا گیا کہ محترمہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دوبارہ نمبروں کا ٹوٹل تو چیک کیا جا سکتا ہے مگر کسی صورت ری مارکنگ نہیں ہو سکتی۔ اس پر افسر اعلیٰ نے سیکرٹری اور چیئرمین کو اپنے دفتر طلب کر لیا۔ جب یہ دونوں افسران وہاں حاضر ہوئے تو افسر بالا تو کسی میٹنگ میں چلے گئے تھے مگر اُن کے ایک سٹاف افسر صاحب چیئرمین اور سیکرٹری صاحب کے ساتھ نہایت درشتی سے پیش آئے۔ یہ سوال جواب ہماری قومی زندگی کا ایک اور آئینہ ہے۔
وجاہت اشرف قاضی صاحب 1996ء سے 1998ء تک بطور پرنسپل پاکستان انٹرنیشنل سکول ریاض سعودی عرب‘ خدمات انجام دیتے رہے۔ یہاں بھی مصنف نے بھرپور اصلاحات کیں۔ اس دوران انہیں تنقیدی تیروں اور کئی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود سر خواتین اساتذہ اور نازک مزاج سفارت کاروں سے بھی نمٹنا پڑا۔ پاکستانی معاشرے کا مجموعی مزاج ہی ایسا ہے کہ جہاں بھی آپ طرزِ کہن کو بدلنے کی کوشش کریں گے وہاں لوگ اپنا رویہ بدلنے کے بجائے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ تاہم بعدازاں ان اصلاحات کی بہت پذیرائی کی گئی۔ ریاض سے قاضی صاحب کی مدّت ملازمت کے خاتمے پر طلبہ‘ اساتذہ اور پاکستانی کمیونٹی نے انہیں نہایت محبت اور عزّت و احترام کے ساتھ رخصت کیا اور کئی روز تک الوداعی دعوتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
میں نے سعودی وزارتِ تعلیم میں دو دہائیوں سے زیادہ تدریسی فرائض انجام دیے۔ جس زمانے میں قاضی صاحب ریاض میں تھے میں اُن دنوں طائف میں تھا؛ تاہم میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ قیامِ ریاض کے دوران بیان کردہ ایک واقعے نے میرے دل کے تاروں کو چھیڑ دیا اور میری آنکھوں کو نمناک کر دیا۔ شیخ احمد دیدات 1980ء اور 1990ء کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کے ہیرو کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ 1997ء میں وہ فالج کی مہلک بیماری کا شکار ہو گئے۔ وہ حکومتِ سعودی عرب کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے بطورِ مریض ریاض کے ایک وی آئی پی ہسپتال میں زیرِعلاج تھے۔ وہ سن لیتے تھے مگر بول نہ سکتے تھے صرف پلک جھپکا کر جواب دیتے تھے۔ قاضی صاحب نے اُن کی عیادت کی اور اس ملاقات کا نہایت ایمان افروز تذکرہ کیا ہے۔
بیماری سے چند برس قبل فقیر کی دعوت پر شیخ احمد دیدات طائف تشریف لائے تھے جہاں انہوں نے پاکستانی سکول کے وسیع ہال میں پاکستانیوں‘ سعودیوں اور دیگر عربوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ خاکسار کو اُن کی خدمت میں استقبالیہ کلمات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہاں ہم نے بنفس نفیس شیخ کی زیارت کی اور اُن کے حافظے اور تبحرِ علمی کی دل کھول کر داد دی۔ اس طرح کے مزید واقعات جاننے کے لیے آپ کووجاہت اشرف قاضی کی کتاب ''شوق برہنہ پا چلتا تھا‘‘ کا نگاہِ شوق سے مطالعہ کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں