کوئی صورت نظر نہیں آتی

شبِ رفتہ لاہور میں ایک جگہ احباب جمع تھے۔ التفاتِ دلِ دوستاں بھی تھا۔ ایسے میں حالِ دل خوب کہا گیا۔ محفل میں اہلِ درد بھی تھے اور اہلِ دانش بھی مگر میں نے اس سے پہلے اتنی افسردہ دلی اور فکرمندی محفلِ دوستاں میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ لوگ کہ جنہیں ہر طرح کی پریشاں حالی میں رجائیت کے نغمے الاپتے سنا تھا وہ بھی تصویرِ یاس دکھائی دے رہے تھے۔
سوال وہی عام سے ہی تھے کہ جو آج کل ہر جگہ پوچھے اور سنے جاتے ہیں؛ البتہ اضطراب کی بات یہ تھی کہ ان سوالوں کا واضح جواب اہلِ محفل میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ پہلے ذرا سوالوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ کیا 2023ء اپنے دامن میں امید و نشاط کی چند کلیاں لا رہا ہے؟ کیا آنے والے مہینوں میں ہم نارمل حالات کی طرف لوٹ جائیں گے؟ اور کیا ہمارے سیاستدان تو تکار چھوڑ کر آپس میں افہام و تفہیم کے ساتھ اختلافی معاملات طے کر لیں گے؟ چلئے اس سوال سے ابتدا کرتے ہیں کہ کیا عمران خان اپنے رویے میں لچک پیدا کریں گے؟
خان صاحب کا اصل مسئلہ گلیمر ہے۔ وہ گلیمر کی ایسی دنیا سے آئے تھے جہاں ہزاروں تماشائی داد دینے کو سٹیڈیم میں موجود ہوتے تھے۔ لاکھوں ٹیلی وژن سکرینوں پر اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پہروں آنکھیں بچھائے رہتے تھے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خا ن نے سیاسی گلیمر کی وسیع دنیا کو اپنی جولاں گاہ بنا لیا۔ تیسری دنیا کی سیاست ایک لحاظ سے بہت کٹھن اور ایک اعتبار سے بہت آسان ہے۔ کٹھن اس لحاظ سے کہ اس میں دو چار بہت دشوار مقامات بھی آتے ہیں۔ سیاسی گلیمر کی پرواز ہمیشہ ہموار نہیں بلکہ کئی بار ناہموار بھی ہو جاتی ہے۔ یہاں بعض اوقات کوئے یار کے بعد راہ میں کوئی پڑائو ہی نہیں آتا اور حالات کا جبر سرِ دار کو سُوئے دار کھینچ کر لے جاتا ہے۔تیسری دنیا کی سیاست آسان اس اعتبار سے ہے کہ یہاں ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح کسی ایک پارٹی کے ساتھ بے غرض طویل رفاقت اور خدمتِ عوام کے لیے بے پناہ ریاضت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ تیسری دنیا میں آپ ایک مقبول بیانیے کی لہر پر سوار ہو کر لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے قائد کو سیاسی گلیمر کے نقطۂ عروج تک پہنچنے میں محض پندرہ سولہ برس کا عرصہ لگا۔ 2011 ء سے عمران خان نئے گلیمر کی بلندیوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ البتہ خان صاحب کو سیاست کی وادیٔ شوق کے پُر پیچ راستوں اور اونچی نیچی گھاٹیوں سے واقفیت نہ تھی۔ خان صاحب کے عرفان سے جو سب سے بڑی بھول ہوئی ہے وہ یہ کہ وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ سیاسی کامیابی کے لیے مقبولیت ہی اوّل و آخر زینہ ہے۔سٹیٹ کرافٹ محض مقبولیت کے زور پر نہیں چلتی۔ سیاست میں لمبی اننگز کھیلنے کے لیے بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے لیڈر کے قول و فعل کی یکجائی بھی ضروری ہے‘ خدمتِ عوام بھی ضروری ہے‘ کسی اہم کارنامے کی انجام دہی بھی ضروری ہے‘ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بھی ضروری ہے اور سب سے اہم یہ کہ تیسری دنیا کی گرتی سنبھلتی جمہوریت کے لیے اہم حلقوں کی اشیر باد بھی ضروری ہے۔ خان صاحب دوسروں کے پروں پر سوار ہو کر آئے تھے مگر پھر وہ یہ سمجھنے لگے کہ مقبولیت کی بنا پر اب وہ آل اِن آل ہو گئے ہیں۔ یہی اُن کا مغالطہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کوئی خاص تو درکنار کوئی عام سا کارنامہ بھی انجام نہیں دیا۔ خان صاحب بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی ذات‘ اپنی شخصیت اور اپنی جماعت کو پہنچنے والے زبردست نقصان کی تلافی کیلئے رویے میں کوئی لچک لانے پر ہرگز آمادہ نہیں۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکمران اتحاد خان صاحب کی مقبولیت سے مرعوب ہو کر انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دے گا یا نہیں؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کو اس راستے میں وہ کھائی نظر آتی ہے جس میں ان کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔
پاکستان آج جن مسائل کے گرداب میں گرفتار ہے اُن میں مہنگائی‘ دہشت گردی اور سیلابوں کی بنا پر بے گھر ہونے والی تقریباً ایک تہائی آبادی شامل ہے۔پاکستان کے کل قابلِ کاشت رقبے میں سے آدھا سیلابوں کی وجہ سے ابھی تک ناقابلِ کاشت ہے۔ بے شمار فیکٹریاں اور ملیں مکمل یا جزوی طور پر بند ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد چھوٹے موٹے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی کمی اور ہنڈی کے کاروبار میں تیزی اور بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات میں تشویشناک حد تک کمی ہو چکی ہے۔
اب آئیے ایک اور اہم سوال کی طرف کہ کیا آنے والے چند ماہ میں ہم نارمل حالات کی طرف لوٹ جائیں گے؟ خواہش تو ہر کسی کی یہی ہے کہ اللہ کرے کہ حالات نارمل ہو جائیں۔ مغربی سرحدوں اور بلوچستان میں دہشت گردی کنٹرول میں آ جائے‘ مہنگائی کا خاتمہ نہیں تو اس میں کچھ کمی تو ہو اور ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو جائے؛ تاہم ان مثبت تبدیلیوں کے کوئی آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت تو بلدیاتی انتخاب کا محدود سا رسک لینے پر بھی آمادہ نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو قومی اسمبلی کی یوسیز بڑھانے کی قانون سازی کی روشنی میں اسلام آباد کے 31دسمبر کو ہونے والے انتخابات منسوخ کرنا پڑے۔ جب بلدیاتی انتخابات کی منسوخی کے خلاف درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچی تو معززجج صاحب نے بے وقت کی قانون سازی کو آئین سے متصادم گردانا اور حکم دیا کہ مقررہ تاریخ کو ہی انتخابات کرائے جائیں۔ اگر عدالت تین چار ہفتوں کا وقت دے دیتی تو شاید الیکشن کمیشن انتظام کر لیتا مگر 24گھنٹے میں اتنے بڑے انتظامات تقریباً ناممکن تھے‘ لہٰذا الیکشن کمشنر اور وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی ہے۔ اُدھر کراچی میں 15 جنوری کو ہونے والے انتخابات کو ساتویں بار ملتوی کرانے کے لیے پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم عدالت پہنچ گئی۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کش اقدامات سے جمہوری کلچر پروان چڑھ سکتا ہے؟
اب آتے ہیں اُس بنیادی سوال کی طرف کہ کیا 2023ء کا سال اپنے دامن میں پاکستانی عوام کے لیے نشاط و انبساط کی کچھ کلیاں لے کر آئے گا؟ جناب عمران خان سالِ نو کے آغاز پر یکم جنوری کو وہی پرانا راگ الاپتے اور مقتدرہ کو پکارتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں؛ تاہم اُن کا دلچسپ متضاد رویہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ ابھی تک سیاست میں مداخلت پر مقتدرہ کو نشانۂ تنقید بناتے ہیں اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ وہی جلد انتخابات کو یقینی بنا سکتی ہے اور وہی ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے۔
سیاست دانوں کے انہی روّیوں کی بنا پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیں۔ اگر سیاست دان اپنے غیر جمہوری رویوں سے جمہوریت کا گلا گھونٹنے پر تلے ہوئے ہیں تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سیاست دانوں کے اس طرزِ عمل کی بنا پر مجھے تو اس سال میں بھی نویدِ بہار دور دور تک سنائی نہیں دیتی‘ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں