جماعت اسلامی کا انتخابی منشور

دنیا میں سیاسی جماعتیں چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہوں مگر انتخاب کے موقع پر ووٹرز اُن کے تازہ انتخابی منشور کو ضرور دیکھتے ہیں۔ اس منشور سے عوام اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سیاسی جماعت کو ان کے حالات کا کس حد تک ادراک ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں سیاسی جماعتیں شخصیات کے نام پر ووٹ مانگتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف‘ پی ٹی آئی عمران خان کی کرشماتی شخصیت اور پیپلز پارٹی مرحومین ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کے نام پر ووٹوں کی طلبگار ہوتی ہے۔ البتہ 22 مارچ کو جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے ایک ایسا منشور پیش کیا ہے جس میں عوام الناس کے مسائل و مصائب کا مکمل ادراک بھی موجود ہے اور دورِ جدید کے تقاضوں کا شعور بھی پایا جاتا ہے۔ اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کا قیام جماعت اسلامی کا روزِ اوّل سے مطالبہ بھی ہے اور منصوبہ بھی۔ اس منشور کے 14نکات میں سے جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ اہمیت معاشی مسئلہ اور گڈگورننس کو دی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں ایسی منصوبہ بندی کا تفصیلاً ذکر کیا ہے جس پر کاربند ہوکر چند سالوں میں بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
مضبوط معیشت کے لیے جماعت اسلامی نے محض نظری بحثیں نہیں کیں بلکہ ایک عملی ٹھوس منصوبہ بندی پیش کی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہچکولے کھاتی معیشت کو گرداب سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس منشور کے مطابق سودی معیشت اور سودی بینکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ برآمدات کو درآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ دی جائے گی۔ توازنِ ادائیگی درست ہو گیا تو سمجھیے معیشت درست ہو گئی۔ لہٰذا اس معاملے پر ماہرین معیشت کی مدد سے خصوصی توجہ دی جائے گی۔ جماعت اسلامی نے نہایت جرأت مندی کے ساتھ ایک ایسے نکتے کے عملی نفاذ کا اعلان کیا ہے‘ سرگوشیوں اور سوشل میڈیا پر جس کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا مگر علی الاعلان اسے کبھی پارٹی نے اپنے منشور میں پیش نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کے منشور کے مطابق حاضر اور سابق صدور‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلیٰ‘ وفاقی و صوبائی وزراء‘ سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی‘ چیئرمین سینیٹ‘ چیف جسٹس صاحبان نیز تمام اعلیٰ افسران کو سرکاری خرچ پر حاصل لگژری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت یکسر ختم کی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے منشور کے مطابق سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کرکے 200ارب روپے سالانہ تک بچائے جائیں گے۔ 20فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 5فیصد تک بلکہ اس سے بھی کم سطح پر لائی جائے گی۔
جماعت اسلامی ہائیڈرو پاور‘ شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی خود کفالت حاصل کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جماعت اسلامی حقیقی جرأت مندی سے کام لے کر کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے یا اس کی تعمیر کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت و ہم آہنگی پیدا کرنے کی حکمت عملی کا بھی اپنے منشور میں تذکرہ کرتی۔ جماعت کے منشور میں ایک نکتہ محض رواروی میں تحریر کر دیا گیا ہے اور اس پر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ نکتہ یہ ہے کہ قومی اداروں کی فروخت یا نجکاری کے بجائے انہیں منافع بخش ادارے بنانے کیلئے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے۔ کراچی سٹیل ملز کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ اس ادارے کی اصلاح احوال کیلئے نہایت اہل ذمہ داران کا بار بار تقرر کیا گیا مگر ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جن نجی اداروں کو قومی ملکیت میں لیا اور ان کی اصلاح کے لیے نہایت قابل اور اہل افراد کا تقرر کیا‘ وہ ادارے تباہ و برباد ہو گئے اور جب وہی ادارے واپس حقیقی مالکان کے سپرد کیے گئے تو انہوں نے چند ماہ میں اجڑی ہوئی ملوں اور بند کارخانوں کو پھر سے رواں دواں کر دیا۔ جب تک کسی ادارے میں ذاتی دلچسپی کا عنصر شامل نہ ہو‘ اس وقت تک اس کی ترقی کیلئے خونِ جگر کم ہی جلایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے منشور میں مرکزی فوکس غریب ہے‘ وہ غریب کہ جسے دس کلو آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں انتظار کی اذیت سہنا پڑتی ہے۔ جماعت اسلامی نے منشور میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ غریب کی عزتِ نفس پر آنچ نہیں آنے دے گی۔ انہیں بجلی اور گیس فری یا برائے نام قیمت پر دی جائے گی۔ جماعت اسلامی نے ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مفت فراہم کرنے کا پورا میکانزم بیان کیا ہے۔ ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت کی تعلیم کی بھی بہت حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
بلاشبہ جماعت اسلامی نے ایک پروگریسو‘ امیر غریب فرینڈلی‘ جدید زراعت اور صنعتی ترقی کا منشور پیش کیا ہے مگر اس منشور کے نفاذ کے لیے جماعت اسلامی نے کوئی پروگریسو انتخابی پالیسی پیش نہیں کی۔ جماعت اسلامی نے اس بار دو کمیٹیاں ترتیب دی تھیں‘ جن کے سربراہوں نے سارے ملک کا دورہ کرکے اور وہاں کی مقامی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرکے انتخابی پالیسی مرتب کی ہے۔ ایک سیاسی کمیٹی ہے جس کے سربراہ جناب لیاقت بلوچ ہیں‘ دوسری انتخابی کمیٹی جس کے صدر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ہیں۔ چار پانچ روز قبل جناب لیاقت بلوچ نے منصورہ میں جماعت اسلامی کی انتخابی حکمت عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور وسیع تر مشاورت سے مستفید ہونے کیلئے ایک اجلاس بلایا تھا۔
میٹنگ کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی انتخابی مہم کا ویژن‘ ڈیزائن اور دورِ جدید کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ہم آہنگی کا کیا طریق کار ہونا چاہیے۔ فقیر نے آن لائن عرض کیا کہ جماعت اسلامی کے پاس انتخابی مہم کا ویژن‘ ڈیزائن اور جدید تقاضوں سے آگہی کا عملی نمونہ موجود ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے جناب حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جتنی عظیم کامیابی حاصل کی‘ وہ جماعت کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ اہلِ جماعت حافظ صاحب کو ایک د و روز کے لیے لاہور‘ اسی طرح پشاور اور کوئٹہ مدعو کریں۔ ہر جگہ وہ امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی سے خطاب کریں اور ان کے ساتھ اپنی عظیم کامیابی کا ماڈل شیئر کریں۔ حافظ صاحب نے کراچی میں کئی برس تک مخلصانہ خدمت کو سیاست سے ماورا ہو کر اپنا شیوہ بنایا۔ دل و جان سے مصائب و مشکلات میں گھرے لوگوں کی مدد کی۔ جب کراچی میں میئر شپ کا انتخابی معرکہ برپا ہوا تو اہلِ کراچی نے بھی حافظ صاحب کو دل کھول کر ووٹ دیے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔
جماعت اسلامی گزشتہ 75برس سے مثالیت پسندی کے بھنور میں گرفتار ہے۔ وہ اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے کی متمنی ہے۔ لوگ ثوابِ طاعت و زہد سمجھنے کے باوجود ابھی تک جماعت اسلامی کو ملکی سطح پر ووٹ دینے پر آمادہ نہیں۔ جماعت اسلامی کے منشور کے اعلان کے موقع پر جناب سراج الحق نے ایک دلچسپ بات کی کہ لوگ خدمتِ عوام کے لیے الخدمت کو بڑی بڑی رقوم دیتے ہیں۔ جناب سراج الحق کا خیال یہ ہے کہ لوگ نوٹ کی اہمیت سے روشناس ہیں‘ اس لیے یہ امانت ان کے سپرد کرتے ہیں جو اس کے اہل ہیں مگر لوگ ابھی تک ووٹ کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوئے۔ جس دن انہیں یہ آگہی حاصل ہو گئی اس روز وہ نوٹ ہی نہیں‘ ووٹ بھی جماعت اسلامی کو دیں گے۔جماعت اسلامی کا ہدف یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اسے 50لاکھ ووٹ ملیں‘ انتخابی سیاست ووٹوں کا نہیں سیٹوں کا نام ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک ایک نمائندہ ہے مگر ان کی کارکردگی درجنوں پر بھاری ہے۔ سیاست سوچ بچار، افہام و تفہیم اور انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا نام ہے۔ جماعت اسلامی کو کم از کم قومی اسمبلی سمیت ہر اسمبلی میں دس فیصد سیٹوں پر کامیابی کا یقینی ٹارگٹ مقرر کرنا چاہیے تاکہ وہ اتنے شاندار منشور کو نافذ بھی کروا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں