میثاقِ مدینہ سے غزوۂ بدر تک

آج 17رمضان المبارک 1444ہجری ہے۔ 1442 برس قبل 17 رمضان المبارک کو مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے درمیان مقامِ بدر پر فیصلہ کن جنگ ہوئی تھی۔رمضان المبارک کی متبرک اور معطر ساعتوں میں مجھے سیرتِ سرورِ عالمﷺ کے بارے میں ایک بار پھر چند کتب کے مطالعہ کا موقع نصیب ہوا۔ اس جنگ کے پس منظر اور معرکۂ بدر کی تفاصیل پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اس جنگ سے اخذ کردہ اسباق سے رہنمائی حاصل کرکے آج بھی امتِ مسلمہ اپنے خراب و خستہ حالات کو سنوار سکتی ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اللہ کے رسول ﷺنے وہاں پہلے سے بسنے والے قبائل اور مکۃ المکرمہ سے آنے والے مہاجرین کے درمیان ایک میثاق قائم کر دیا‘لہٰذا ہجرت کا سب سے اہم سبق تو یہ ہے کہ نظریے اور عقیدے کا رشتہ خون کے رشتے سے ہزار گنا زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی چھوٹی سی بستی ہو یا کوئی بڑا ملک‘ جب تک وہاں آباد لوگوں کے درمیان آپس کے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کا کوئی معاہدہ نہ ہو تو وہاں امن و آشتی سے کیسے زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اسی لیے لوگوں کے درمیان باہمی حقوق و فرائض طے کرنا از ضروری ہوتا ہے۔
میثاقِ مدینہ میں کل41 شقیں تھیں‘ معاہدے کی ایک اہم ترین شق یہ تھی کہ مدینہ کے سب لوگ مسلمان اور غیرمسلم بشمول تمام یہودی قبائل ایک قوم تصور ہوں گے۔ سب ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کا احترام کریں گے۔ بیرونی جارحیت کے مقابلے میں تمام اہلِ مدینہ مل کر اس ریاست کا دفاع کریں گے۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک ایسے عمرانی معاہدے پر سب کا اتفاق کر لینا اور اس کی بنیاد پر ایک ریاست کا وجود میں آ جانا‘ انتہائی حیران کن تھا۔ جناب رسالت مآبﷺ کی دفاعی نقطۂ نظر سے یہ پیش بندی بہت اہمیت کی حامل تھی۔ اگرچہ بعد ازاں یہود نے درپردہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں اور اپنے کیے کی سزا بھی بھگتی مگر اللہ کے رسولؐ کی قیادت میں مسلمانوں نے نہایت فراخدلی کے ساتھ انہیں بھی ریاستِ مدینہ کا ایک واجب الاحترام جزو تسلیم کیا ۔
ریاست کا نظام قائم کرتے ہی والی ٔمدینہ نے بہترین دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ آقاﷺ نے شام‘ بدر اور مکۃ المکرمہ کی طرف پہلے سے جاسوس بھیجے ہوئے تھے۔ یہ 12رمضان المبارک 2ہجری کی بات ہے کہ بدر کی طرف بھیجے گئے جاسوس بھاگتے ہوئے مسجد نبوی میں آئے۔ انہوں نے رسول خداﷺ سے تنہائی میں کوئی بات کی۔ جاسوس کی بات سنتے ہی آقاﷺ نے اعلان فرما دیا کہ جن کی سواریاں یہاں موجود ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ مدینہ سے اچانک روانگی کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہ آئی مگر فرمانِ مصطفی ؐ پر لبیک کہا اور ساتھ چل پڑے۔ مدینہ منورہ سے نکل کر جب سواریوں اور قافلے والوں کی گنتی ہوئی تو پتا چلا کہ 313لوگ ہیں۔ 74 مہاجر اور 229 انصار تھے۔ پورے 313 کے پاس صرف 70 اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ اس سفر میں حسبِ روایت سفید جھنڈا بھی لہرایا گیا مگر اس دفعہ پہلی بار دو سیاہ جھنڈے بھی اٹھائے گئے۔ سیرت کے ایک مصنف ابدال بیلا کی تحقیق کے مطابق پہلے سیاہ جھنڈے پر عقاب بنا ہوا تھا۔یہ جھنڈا حضرت علیؓ کو تھمایا گیا جبکہ دوسرا سیاہ جھنڈا سردارِ اوس سعد بن معاذؓ کو عطا کیا گیا۔ 70 اونٹوں اور 313 سواریوں کے درمیان تقسیم یوں کی گئی کہ ہر چارچار لوگوں کے حصے میں ایک ایک سواری آئی۔ جناب آقائے دوجہاںؐ چار کے جس گروپ میں شامل تھے‘ اس میں ایک حضرت علی ؓ بھی تھے۔ حضرت علیؓ سمیت اس گروپ کے تینوں مجاہد رسول اللہﷺ سے اصرار کرتے ہیں کہ آپؐ سواری سے نہ اتریں ہم چل لیں گے۔ چون برس کے جناب مصطفی ؐ عدلِ مجسم تھے۔ آپؐ نے اس موقع پر کیسا شاندار جواب اپنے ساتھیوں کو دیا۔ آپؐ نے فرمایا ''نہ تم لوگوں میں مجھ سے زیادہ چلنے کی طاقت ہے اور نہ میں تم سے زیادہ خدا کے اجر سے بے نیاز ہوں‘‘۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر آپؐ نے یہ اصول بھی وضع فرما دیا کہ والی اور رعایا یا سپہ سالار اور عام سپاہی میں حقوق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
یہ میدانِ بدر ہے‘ جناب رسالت مآبﷺ نے اپنی سپاہ کو جنگی ترتیب میں لانے کیلئے ایک جگہ منتخب کی۔ انصار کے ایک ساتھی سیّدنا خباب بن منذرؓ نے ادب سے عرض کی یا رسول اللہﷺ! آپ نے یہ جگہ آسمانی ہدایت سے چنی یا انسانی حکمت سے؟ آپؐ نے فرمایا: آسمانی حکم سے نہیں‘ انسانی اندازے سے جس میں مشاورت ہو سکتی ہے۔ سیّدنا خباب بن منذرؓ نے عرض کیا کہ بہتر ہے کہ ہم قریب کے ٹیلے کے پاس اور بڑھ جائیں۔ وہاں میرے علم کے مطابق کئی کنویں ہیں‘ ان میں سے کچھ کنوئوں میں میٹھا پانی بھی ہے‘ جب ہمارا پانی پر کنٹرول ہوگا تو کفار زبردست دبائو میں آ جائیں گے۔ اسلامی ریاست کا ایک اور اصول بھی طے پا گیا کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔طبلِ جنگ بج گیا‘ کفارِ مکہ کی طرف سے ان کے تین سردار عتبہ‘ شیبہ اور ولید نکل۔ مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے تین انصاری آئے۔ اس پر عتبہ نے نخوت سے کہا: ہم نہیں جانتے یہ کون ہیں‘ اے محمد (ﷺ) ہمارے جوڑ کے بندے بھیجو۔ اب ان کے روبرو حمزہؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم‘ عبیدہؓ بن حارث اور تیسرے سردار ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم کے فرزند حضرت علی ؓ تھے۔ خاندانِ ہاشمیہ کے ان شیروں نے چند لمحوں میں تینوں سردارانِ قریش کو جہنم واصل کیا۔ کفارِ مکہ کی فوج کے ایک کمانڈر ابو جہل کو دو کم عمر نوجوانوں معاذ ؓاور معوذؓ نے تہہ تیغ کیا۔ سردارانِ قریش کی عبرتناک اموات کے بعد جنگ اب پوری وحشت اور غضب سے شروع ہو گئی۔جنگِ بدر دراصل دو فوجوں کا نہیں‘ دو فلسفہ ہائے حیات کے مابین مقابلہ تھا۔ یہ معرکۂ غرور و تکبر بمقابلہ عاجزی و انکساری تھا۔جس ابو جہل نے ساری زندگی پیغمبر خداؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے‘ ان کے خلاف اہانت آمیز رویہ اختیار کیا‘ دشمنی اور دشنام کو اپنا شیوہ بنایا‘ 17 رمضان المبارک کو جب رسالت مآبﷺ کے سامنے میدانِ بدر میں ابوجہل کا کٹا ہوا سر اور اس کی تلوار پیش کی گئی تو جناب مصطفیﷺ نے تین بار کہا: سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخشی۔ مسلمانوں کی فتحِ مبین اور ان کا واضح غلبہ دیکھ کر کفارِ مکہ اپنی لاشوں اور اسلحے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب جنگ کے آخر میں حساب کتاب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی‘ جن میں سوگھڑ سوار تھے ان کے پاس سامان حرب و ضرب کا ڈھیر تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی جن میں صرف دو گھڑ سوار تھے۔ ان کی تلواریں کُند مگر ان کا جوش و جذبہ اور شوقِ شہادت فزوں تر تھا۔ فتحِ مبین مسلمانوں کے حصے میں آئی۔اس فتح سے جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ جنگ بدر کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر خدا پر یقین کامل ہو اور جذبہ جواں ہو تو قلت کو کثرت پر صرف غلبہ ہی نہیں‘ فتحِ عظیم حاصل ہو سکتی ہے۔
مسلمانوں کی تعداد جب صرف چند سو تھی تو انہیں ہزاروں کے لشکر اور انکی دنیاوی شان و شوکت پر غلبہ حاصل ہوا۔ آج مسلمانوں کی تعدادڈیڑھ ارب ہے مگر ہر جگہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج فلسطینی اپنے ہی گھر میں بے گھر ہیں‘ غاصب اسرائیلی ان کا قتل عام کرتے ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ بدھ کے روز اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ کیا اور 350مسلمان خواتین و حضرات کو گرفتار کر لیا۔ اس پر مسلم ممالک رسمی قرار دادِ مذمت کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے۔ دیکھیے مولانا ظفر علی خان کیا برمحل یاد آتے ہیں‘ انہوں نے فتحِ مبین کا نسخہ بھی بتا دیا ہے:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں