اختلافی نوٹ

جمعۃ المبارک کو سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے از خود نوٹس کے حوالے سے 25صفحات پر مشتمل ایک اختلافی نوٹ جاری کیا۔ اس اختلافی فیصلے کی تفصیلات پڑھ کر میں اس سوچ میں غلطاں و پیچاں ہوں کہ اسے شکوہ کہوں یا شکایت نامہ کا نام دوں یا پھر اسے ''چارج شیٹ‘‘ قرار دوں۔ جس میں جسٹس اطہر من اللہ نے کسی رُو رعایت کے بغیر کہا ہے کہ سپریم کورٹ سیاسی سٹیک ہولڈر کو عدالتی فورم فراہم کرکے پا رلیمنٹ کو کمزور کر رہی ہے اور یہ کہ از خود نوٹس سے عدالت غیر ضروری سیاسی تنازع سے دو چار ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں انتخابات میں تاخیر پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کے بینچ کا حصہ تھا۔ فیصلہ تین کے مقابلے میں چارججزکی اکثریت سے مسترد ہوا۔ فاضل جج نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے واضح طور پر لکھا کہ حتمی نتیجے کے حوالے سے وہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کی رائے سے متفق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ جب لاہور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر سماعت تھا تو اس پر سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینا چہ معنی دارد۔ فاضل جج کے تفصیلی نوٹ یا اختلافی فیصلہ کا لب لباب یہ ہے کہ از خود نوٹس کیس تین کے مقابلے چارکی اکثریت سے مسترد ہو چکا تھا۔ پھر اس کی تین ججز کے ساتھ سماعت حیران کن ہے۔ یہ سارے اعتراضات کسی سیاستدان کے ہیں نہ کسی تجزیہ کار کے اور نہ ہی بار کونسل کے کسی وکیل کے‘ بلکہ یہ سارے اعتراضات سپریم کورٹ کے ایک فاضل جسٹس کے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انہوں نے مقدمے کی اہمیت اور حساسیت کا اندازہ لگاتے ہوئے اسی لیے تجویز دی تھی کہ اس کے فیصلے کے لیے فل کورٹ کا آپشن استعمال کرنا چاہیے۔ یہ تو عدالتی منظر نامہ ہے۔ اب ذرا حکومتی منظر نامے پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ حکومت نے تین فاضل ججز کا 14مئی کو پنجاب کے انتخابات کرانے کا فیصلہ یکسر مسترد کر دیا۔ کیا حکومتی تلخ نوائی اور شعلہ بیانی سے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کیا جا سکتا ہے؟
جہاں تک پی ڈی ایم حکومت کا تعلق ہے‘ اس حکومتی اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کا موقف جارحانہ نظر آتا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے کسی طرح کے مذاکرات کے حق میں نہیں جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور صدر پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقد ہونے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت مخلوط حکومت کے ذمہ داران کو اپنے موقف سے آگاہ کرے گی۔
انہی دنوں ایک اور دلچسپ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے کہ عمران خان ‘ جو چند روز پہلے تک 'حکومتی چوروں اور ڈاکوؤں‘ سے بات چیت کرنے پر تیار نہ تھے‘ اب اُن سے آمادۂ گفتگو نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ تو خان صاحب کے رویے میں آنے والی اس مثبت تبدیلی کو خان صاحب کا یوٹرن قرار دے رہے ہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ شاید خان صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کہیں پنجاب ہی نہیں‘ سارے انتخابات ہی تصادم کی نذر نہ ہو جائیں۔ اس لیے اب وہ مذاکرات کا آپشن اختیارکرنا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ عمران خان کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ہمارے بجائے مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں مگر یہ بھول گئے ہیں کہ اب 2018ء نہیں‘ 2023ء ہے۔ سردار ایاز صادق نے واضح طور پر کہا کہ سنجیدہ ریاستی قوتیں عمران خان سے بات چیت پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی گفت و شنید اور افہام و تفہیم میں سنجیدہ ہے تو بات بیانات سے آگے بڑھنی چاہیے۔ یہ بات درست ہے‘ جتنے بھی اہم موضوعات یا سوالات ہیں‘ وہ مذاکرات میں زیر بحث آنے چاہئیں لیکن اُدھر پی ٹی آئی دورِ حکومت کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ حکومت پہلے قومی اسمبلی توڑے اور پھر مذاکرات کی میز پر آئے۔ اس طرح کی پیشگی شرائط کی بنا پر مذاکرات کا دروازہ نہیں کھلتا۔
سیاسی نظام قدرتی انداز میں چلتا رہے‘ تمام تر سیاسی سرگرمیوں اور قانون سازی کا مرکز و محور پارلیمنٹ ہو تو ملک آگے بڑھتا ہے۔ سیاسی استحکام موجود ہو تو معاشی سرگرمیاں تیز تر ہوتی ہیں۔ ملک میں خوش حالی آتی ہے۔ فیکٹریاں‘ ملیں چلتی رہیں‘ تعمیرات ہوتی رہیں اور کاروبار پھلتے پھولتے رہیں تو بے روزگاری میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ پیداوار بڑھتی رہے اور رسد میں طلب کے مقابلے میں اضافہ ہو جائے تو از خود قیمتیں نیچے آ جاتی ہیں۔ یہاں سیاست دان سیاسی و معاشی گمبھیر صورتحال سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کمربستہ ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کے بعد ہفتہ کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حافظ قرآن کو میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے 20اضافی نمبر دینے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کے بارے میں اپنا تفصیلی نوٹ جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد اٹھ جائے گا۔انہوں نے لکھا کہ متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔اسی طرح رجسٹرار سپریم کورٹ کو وفاقی حکومت فوری طور پر واپس بلاتی ہے تو وہ واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی اخبارات میں شائع ہوتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تفصیلی نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ دریں اثنا پارلیمنٹ کی طرف سے صدرِ مملکت عارف علوی کو بھیجا گیا عدالتی اصلاحات بل واپس بھیج دیا گیا۔ صدر کا کہنا تھا کہ ایسی قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہی نہیں۔ ہم نے ریاست کے مختلف ستونوں کے اندر اور ایک دوسرے کے ساتھ پائی جانے والی کشاکش کا اس لیے قدرے تفصیلی ذکر کیا ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ ہم گرداب سے نکلنے کے بجائے اس میں مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں اور ہماری درخواست ہوگی کہ سب سے پہلے عزت مآب چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے گھر یعنی سپریم کورٹ کی خبر لیں۔ جج صاحبان کی طرف سے جن آرا کا اظہار کیا گیا ہے‘ ان کے بارے میں باہمی گفتگو کریں اور جہاں جہاں جو غلطی ہوئی ہے‘ اسے فراخدلی سے تسلیم اور اس کی اندرونِ خانہ تصحیح فرما لیں۔ اندرونی کشاکش اور چپقلش سے ملک میں افراتفری اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ سیاستدان اقتدار کے کھیل میں اس قدر مگن ہیں کہ وہ گمبھیر صورتحال کو اس شدت سے ہرگز محسوس نہیں کر رہے جس شدت سے آج ہر دردمند پاکستانی ملک کے اندر اور ملک سے باہر محسوس کر رہا ہے۔ ڈالر تاریخی بلندی چھو چکا ہے‘ اشیائے ضرورت کی قیمتیں 44فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ ہر طرف تشویش ہی تشویش اور پریشانی ہی پریشانی ہے۔
جناب چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ پر بالخصوص توجہ فرمائیں۔ فاضل جج کی رائے میں اکثر مشکلات کا حل یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کا مقدمہ فل کورٹ کے حوالے کرے۔ فل کورٹ کے فیصلے پر سب سر تسلیم خم کر دیں گے۔ یوں بحرانی صورت حال میں بہت بڑا ٹھہراؤ آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں