ایک سنجیدہ سیاستدان سے ملاقات

ملکی حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاست احترام باہمی کے ساتھ اختلاف رائے کا نام ہے‘ مگر یہاں سیاست اندھی محبت اور اندھی نفرت کا کھیل بن چکا ہے۔ سیاست جس تفریق کا شکار ہو چکی ہے اب وہی تقسیم معاشرے کے اکثر شعبوں میں ہی نہیں بلکہ انتہائی واجب الاحترام اداروں کے اندر بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملکی افق پر دور دور تک نظر دوڑائیں تو دھند ہی دھند نظر آتی ہے اور حالات کی بہتری کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں نہ امکانات۔ اس پس منظر میں ہماری ملاقات پاکستان کے ایک سینئر اور سنجیدہ سیاستدان سے ہوئی تو محسوس ہوا کہ سیاستدانوں کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو افکارِ تازہ کے ساتھ ساتھ دلِ درد مند بھی رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مقامی ہسپتال میں داخل تھا۔ جس روز میرے گھٹنوں کا آپریشن ہوا اس سے اگلے روز میرے کمرے کے سامنے جو معزز خاتون بسلسلۂ علاج مقیم تھیں وہ میرے کمرے کے دروازے پر تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے دعا دی کہ بھائی! اللہ کرے آپ جلد صحت یاب ہو جائیں۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس معزز خاتون کا نام بیگم عشرت اشرف ہے۔ بیگم صاحبہ تین چار مرتبہ ایم این اے رہ چکی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے خواتین ونگ کی سینئر رہنما ہیں۔ میں اُن کی خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوا۔ اگلے روز اُن کے میاں‘ سینئر سیاستدان سینیٹر چودھری محمد جعفر اقبال ہسپتال کے کمرے میں تشریف لائے‘ میری اُن سے جان پہچان تو تھی مگر یوں بالمشافہ ملاقات نہ تھی۔چودھری صاحب نے میری عیادت کی۔ اُن کے ساتھ اُن کی ایک ایم این اے صاحبزادی اور اُن کا اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادہ بھی عیادت کیلئے آئے۔ میرا بیٹا ڈاکٹر بلال بھی کمرے میں موجود تھا لہٰذا ملکی سیاسی و معاشی حالات کے بارے میں جو ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی اس میں ینگ جنریشن نے ادب و احترام کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ چودھری جعفر اقبال نے ملکی حالات کے بارے میں دلیل و استدلال کے ساتھ اپنی رائے پیش کی جسے نہایت توجہ سے سنا گیا۔ اس مختصر ملاقات کے بعد مجھے اشتیاق ہوا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے سیاست نگر میں اہم ترین ذمہ داریاں ادا کرنے والے سیاستدان سے تفصیلی بات چیت ہونی چاہئے۔ سینیٹر چودھری جعفر اقبال صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ غریب خانے پر تشریف لائیں گے۔ وہ حسبِ وعدہ آئے اور اُن کے ساتھ نہایت دلچسپ اور مفید گفتگو ہوئی۔
چودھری جعفر اقبال کے والدِ محترم چودھری محمد اقبال آف چیلیانوالہ ا پنے زمانے کے ممتاز سیاستدان تھے۔ 1962ء سے لے کر 1985ء تک وہ چھ مرتبہ گجرات سے ممبر صوبائی و قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چودھری جعفر اقبال نے اپنے والد کی سیاسی میراث سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ چودھری صاحب کے بزرگوں نے ضلع رحیم یار خان میں قیامِ پاکستان سے کافی عرصہ پہلے کچھ زمین خرید رکھی تھی۔ چودھری جعفر اقبال نے گجرات سے سینکڑوں میل دور جا کر اس صحرائی رقبے کو گل و گلزار بنانے اور وہیں سے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔میں نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ لوگ تو اپنی سیاسی میراث سے ہی اپنی سیاست کو چار چاند لگاتے ہیں مگر آپ نے اپنے آبائی علاقے سے دور جا کر غیر لوگوں میں اپنی سیاست کا آغاز کرنے کا رسک کیوں لیا؟ چودھری صاحب نے کہا کہ اگرچہ میں نے اپنے والد ِگرامی کا ہاتھ پکڑ کر ہی چلنا سیکھا مگر میں چاہتا تھا کہ سیاست میں بغیر کسی سہارے کے اپنی دنیا آپ پیدا کروں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے نسبتاً ایک غیر علاقے میں اتنی بڑی سیاسی کامیابی کیسے حاصل کی اور مسلسل چھ انتخابات میں جیت آپ کا مقدر ٹھہری؟ چودھری صاحب نے کہا کہ یہ کامیابی اللہ کے فضل کے بعد صرف دو نکاتی پروگرام کا ثمر ہے‘ پہلا نکتہ اخلاص اور دوسرا نکتہ صدقِ دل کے ساتھ خدمتِ خلق۔ چودھری صاحب 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوئے‘ 1988ء اور 1990ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے اور وزیر صحت پنجاب کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی‘ 1993ء اور 1997ء میں وہ ایم این اے بنے‘1997ء میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ چودھری جعفر اقبال گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وابستہ ہیں‘ میں نے پوچھا کہ مسلم لیگ (ن) پر بڑے کڑے وقت آئے کبھی آپ نے کسی اور پارٹی میں جانے کا سوچا؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ سیاسی اصول بھی بڑا رومانٹک ہے۔
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشان نظری کا
1999ء میں مسلم لیگ (ن) پر بڑی افتاد آن پڑی۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ پرویز مشرف اُن کا بہت احترام کرتے تھے‘انہوں نے مسلم لیگ (ق) جوائن کرنے کیلئے کئی ذرائع سے کہلوایا مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے عرض کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی حرفِ اختلاف بلند نہیں کر سکتا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ ایسا نہیں‘ میرا تجربہ اس سے بالکل مختلف ہے‘ میں 2012ء میں پبلک فورمز سے یہ آواز بلند کر رہا تھا کہ پاکستان کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم یہاں صدارتی نظام نہیں لائیں گے‘ 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تو مجھے خدشہ تھا کہ شاید میاں نواز شریف میری اس عوامی تحریک پر برہمی کا اظہار کریں گے‘لیکن میری رائے سے نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ میاں شہباز شریف نے بھی اتفاق کیا۔ چودھری صاحب نے اس نظام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو بے حد مضبوط ہونا چاہئے اسی طرح انتظامی اضلاع کی تعداد پچیس تیس ہونی چاہئے۔ انہوں نے اسلامی دنیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اکثر ممالک میں صدارتی نظام ہے‘ صرف دو چار ملکوں میں پارلیمانی طرزِ سیاست ہے۔چودھری صاحب اب بھی صدارتی نظام کو ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ہمیں ان کی رائے کا احترام ہے؛ تاہم اکثر اسلامی ممالک میں ملوکیت ہے یا صدارتی نظام کے نام پر بدترین قسم کی آمریت۔ ہم اس سے پہلے 1960ء کی دہائی میں صدارتی نظام کا تجربہ کر چکے ہیں‘ بہرحال ہمیں سینیٹر جعفر اقبال کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ لوکل حکومتیں یا بلدیاتی ادارے انتہائی مضبوط ہونے چاہئیں۔
میں نے چودھری جعفر اقبال صاحب سے پوچھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں تحریک انصاف کا ڈنکا بج رہا ہے اور مسلم لیگ (ن) بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ چودھری نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ میں نے عرض کیا تو پھر آپ 90 دنوں کے اندر پنجاب میں انتخابی معرکے سے کیوں کنی کترا رہے ہیں؟ چودھری صاحب نے کہا کہ اگر صوبائی اور قومی انتخابات الگ الگ ہوئے تو اس سے سیاسی افراتفری ہوگی۔ سارے انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں۔ سینیٹر جعفر اقبال کی رائے میں تمام سٹیک ہولڈرز‘ یعنی سیاستدان‘ عدلیہ‘ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کو ایک پیج پر آنا چاہئے اور یہ 90 روز والی جو ایک غیر معمولی صورتحال سامنے آئی ہے‘ جس کا شاید آئین میں پہلے سے کوئی حل موجود نہیں‘ اس کیلئے مل جل کر متفقہ راستہ نکالنا چاہئے۔
میں نے پوچھا کہ آپ میاں نواز شریف کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں‘ میاں صاحب کب واپس لوٹیں گے؟چودھری صاحب کہنے لگے: میاں صاحب کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے‘ جونہی اس کے ازالے کی کوئی واضح صورت سامنے آئی میاں صاحب پاکستان لوٹ آئیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں