شریف حکومت کا نیا ملزم

جنرل ضیاء الحق کے 11سالہ اقتدار کے ہماری قومی و سیاسی زندگی پر اتنے گہرے اثرات ہیں کہ آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی شخصیت کی بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جن کا اعتراف ان کے سخت ترین مخالف بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح جنرل صاحب کی بعض ایسی خامیاں ہیں جن کا انکار ان کے بڑے بڑے مداحین بھی نہیں کر سکتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ منتخب حکومت پر شب خون مارنے کی کسی طرح سے بھی کوئی تاویل اور توجیہ نہیں دی جا سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ ایک متنازع فیصلہ ہے۔ اسی طرح جنرل صاحب کے صدارتی ریفرنڈم کو بھی درست تسلیم نہیں کیا جاتا؛ تاہم جنرل صاحب کی بعض خوبیاں ایسی ہیں کہ جن کو اندرونِ ملک اور عالم اسلام میں نہایت فراخ دلی سے تسلیم کیا گیا۔ جنرل ضیا الحق نے آل پاور فل ہونے کے باوجود کوئی بددیانتی کی نہ بدعنوانی سے اپنے دامن کو آلودہ کیا۔ لامحدود سیاسی اقتدار کے دوران اُن کے محدود اثاثوں میں کمی ہوئی‘ اضافہ کوئی نہیں ہوا۔ وہ اسلام سے محبت رکھنے والے ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ ان کی ذاتی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔
ان کے صاحبزادوں اعجاز الحق اور ڈاکٹر بشارت کے بارے میں بھی بالعموم یہی تاثر ہے کہ جنرل صاحب کے اقتدار کے دوران اور بعد میں وہ کسی طرح کی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہے۔ جنرل صاحب کے بڑے صاحبزادے جناب اعجاز الحق وفاقی وزیر بھی رہے۔ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے مگر ان کے بارے میں کبھی بددیانتی کی کوئی داستان نہیں سنی گئی۔ ان کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ ان کی زندگی بھی جنرل مرحوم کی طرح سادگی پر گزر رہی ہے۔ اب یکایک ٹیلی وژن ٹکرز‘ پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر بدعنوانی کے متعدد الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ ان الزامات کا خلاصہ یہ ہے کہ اعجاز الحق نے ہارون آباد شہر میں زرعی زمین پر غیرقانونی رہائشی کالونیاں اپنے اثر و رسوخ سے بنوا لیں۔ اینٹی کرپشن کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے مطابق اعجاز الحق نے یہ کالونیاں بغیر کسی سرکاری منظوری کے بنائی ہیں۔ اینٹی کرپشن کے مؤقف کے مطابق اعجاز الحق اور ان کے فرنٹ مینوں نے عوام الناس کے کروڑوں روپے ہتھیائے ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق اس طرح کے کسی الزام پر اظہارِ رائے سے پہلے اس کی تحقیق کر لینی چاہیے اور ''ملزم‘‘ کا موقف بھی ضرور لے لینا چاہیے۔ ہم نے اس اصول کے مطابق اعجاز الحق صاحب کو فون کیا اور ان سے سوال کیا کہ جناب! ان الزامات کی حقیقت و اصلیت کیا ہے نیز شرفا کے دورِ حکومت میں آپ پر ہر طرف سے الزامات کی بوچھاڑ کیوں ہونے لگی؟ اعجاز الحق نے کہا کہ شہباز حکومت کی طرف سے اس عنایت پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ سورۃ الرحمن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ھل جزا الاحسان الا الاحسان (کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے)۔اعجاز الحق صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا کہ شریفوں نے جنرل ضیا الحق کے احسانات کا بدلہ ان کے بیٹے پر جھوٹے الزامات لگا کر چکا دیا ہے۔
اعجاز الحق نے تلخ نوائی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ سارے الزامات جھوٹ اور دروغ گوئی کا پلندہ ہیں۔جس ہاؤسنگ سکیم کا نام لیا گیا اس میںان کا صرف پانچواں حصہ ہے اور یہ سکیم صرف پانچ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس سکیم میں حکومتی و مقامی قوانین میں سے کسی کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ ہم نے عرض کیا پھر آپ پر یہ الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں؟ اس کے جواب میں اعجاز الحق نے کہا صرف ایک سبب ہے اور وہ میری پی ٹی آئی میں شمولیت ہے۔ ان الزامات پر اپنی حیرانی‘ پریشانی اور تلخی کا اظہار کرتے ہوئے اعجاز الحق ایک ''کاٹا تھیوری‘‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے اس ملک میں ''بینظیر‘‘ پر'' کاٹا‘‘ لگایا گیا پھر نواز شریف پر اور اب عمران خان پر'' کاٹا‘‘ لگانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اعجاز الحق کا کہنا یہ تھا کہ خان پر'' کاٹا‘‘ لگے یا نہ لگے‘ اب وہ ان کے ساتھ ہیں۔یہ نرالا دستور ہے کہ یہاں حکومتی ادارے کسی شخص پر الزام بعد میں لگاتے ہیں‘ سربازار اس کی پگڑی پہلے اچھالتے ہیں پھر جب وہ ادارے حکومتی ایما پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ملزم سے معافی مانگتے ہیں‘ نہ ہی معذرت کرتے ہیں اور نہ ہی اس اذیت کا کوئی ازالہ کیا جاتا ہے جس سے اس دوران ملزم گزرتا ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی اخراجات طالب علم کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں‘ چاہے وہ امریکی ہو یا غیرملکی تاہم بعض پاکستانی افسروں اور سیاستدانوں کے بچے امریکہ میں والدین کے اخراجات پر شہزادوں کی طرح تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں براہِ راست اپنے ذرائع سے معلوم ہے کہ 1972ء سے 1977ء تک اعجاز الحق شکاگو سے اڑھائی سو کلو میٹر دور یونیورسٹی آف سدرن النائے میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ضیا الحق پہلے جنرل اور پھر آرمی چیف بنے مگر ان کا بیٹا اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے گرمیوں کی تعطیلات میں شکاگو آ کر کسی عمارت کے تہہ خانے میں سستے کرائے پر کمرہ لیتا اور محنت مزدوری کرتا۔ اعجاز الحق نے اپنی پانچ سالہ تعلیمی مدت کے دوران شکاگو جیسے بڑے شہر میں ہر طرح کی محنت مزدوری کی۔ اس نے پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالا‘ ٹیکسی چلائی۔ اس دوران بعض اوقات کالوں نے اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کرایہ بھی ادا نہیں کیا۔گھروں تک سائیکلوں اور سکوٹروں پر فوڈ ڈِلیوری کی۔ بعض اوقات فیس پوری کرنے کے لیے اعجاز الحق نے تین شفٹوں میں چوبیس چوبیس گھنٹے بھی کام کیا۔ اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ وہ محنت کے بل بوتے پر زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئے ہیں۔ ابنِ ضیا الحق کے بقول انہوں نے وزارت کے دوران بھی اصول کی غیرت کو ہر طرح کی مصلحت اور منفعت پر ترجیح دی ہے۔ اس وقت پاکستان جس گرداب میں گرفتار ہے‘ اس کا حکومتِ وقت کو مطلقاً احساس و ادراک نہیں۔ دنیا میں ہم ایک تماشا بن چکے ہیں۔ ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ غریب حکومت اور اپوزیشن کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس چکے ہیں۔ مہنگائی کا 59 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ حکومتی ادارۂ شماریات کے مطابق مہنگائی ساڑھے 36 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ گوشت‘ دودھ اور پھل تو رہے ایک طرف‘ دال ساگ کی قیمتیں بھی غریب کیا سفید پوش کے بھی ہوش اڑانے کو کافی ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں دو سیاستدانوں سے بڑی امید تھی کہ وہ سیاسی حالات کو ہیڈ آن تصادم تک جانے سے پہلے ہی سنبھال لیں گے مگر وائے افسوس کہ دونوں اس کارِخیر پر آمادہ نہیں۔ ان دو شخصیات میں ایک مولانا فضل الرحمن اور دوسرے جناب پرویز خٹک تھے۔ مولانا نے خلافِ توقع اَنا پسندی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ جناب پرویز خٹک سے عمران خان اُن کی سمجھداری اور اعتدال پسندی کی بنا پر ناراض ہیں۔
اس افسوسناک منظرنامے میں اتحادی حکومت سیاست و معیشت اور لاقانونیت سے بے نیاز ہو کر عمران خان کے دورِ حکومت کی اندھا دھند پکڑ دھکڑ کا انتقام لینے پر تلی ہوئی ہے۔ ہم نے اعجاز الحق سے پوچھا کہ ان الزامات کے نتیجے میں آپ کی گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ اس صورت میں آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ شہباز حکومت مجھ پر یہ احسان بھی کر دے‘ میں ضمانت کی درخواست بھی نہیں دوں گا۔ میں ہر الزام سے بری الذمہ ہوں۔ حکومت ہارون آباد کی پانچ ایکڑ پر مشتمل ہاؤسنگ سوسائٹی کہ جس میں میرا پانچواں حصہ ہے‘ اسے چھوڑ کر میری باقی چھ کی چھ سکیموں کو نیلام کرکے ساری رقم بیت المال میں جمع کرا دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں