سوت کی اٹّی سے یوسف کی خریداری

جب بھی پاکستان میں کوئی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو مجھے پنجاب کے ایک دانشور اور ادیب وزیر خزانہ محمد حنیف رامے مرحوم یاد آ جاتے ہیں۔ رامے صاحب نے مالی سال 1972-73ء کا بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے اپنی بجٹ تقریر کی ابتدا میں کہا کہ اس وقت ہم تقریباً تہی دست ہیں اور میری حالت اس مصری بڑھیا جیسی ہے کہ جو بازارِ مصر میں ایک صاحبِ جمال اور خوش خصال غلام کی خریداری کے لیے سوت کی اٹّی لے کر چل پڑی تھی۔ رامے صاحب نے کہا کہ ہمارے وسائل کم مگر ترقی و خوش حالی کیلئے ہمارا شوق فزوں تر ہے۔
آج نصف صدی کے بعد ہمارے وسائل کی حالت پہلے سے بھی دگرگوں ہے مگر وفاقی حکومت کے جہاں دیدہ اور کہنہ مشق وزیرِ خزانہ جناب اسحق ڈار کی ہمت اور حوصلہ قابلِ داد ہے کہ انہوں نے مایوس ہونے کے بجائے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے کہ جوچھ ہزار924ارب خسارے کا بجٹ ہے۔ یہ وسائل کہاں سے آئیں گے‘ یہ خسارہ کیسے پورا ہوگا‘ یہ قرض کہاں سے ملے گا اور ملے گا بھی یا نہیں‘ اس سب کچھ کے باوجود ڈار صاحب نے قوم کی ہمت بندھائی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے ہماری معیشت کی حالت اتنی خستہ کیوں ہے؟ سبب اس کا یہ ہے کہ ہماری آمدنی بہت کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
لوگ بلکہ معیشت دان پوچھتے ہیں کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافے کیے ہیں‘ اس کیلئے رقم کہاں سے آئے گی؟ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے دوران آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف کیساتھ کئی بار رشتۂ امید بندھتا اور ٹوٹتا رہا۔وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کر لی ہیں۔ اب قرضے کے اجرا میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ عام آدمی کیلئے مہنگائی کا بے پناہ بوجھ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا‘ سیاسی انتشار کی بنا پر نئی سرمایہ کاری رک گئی اور صنعتوں پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بجٹ تجزیے کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ ایک سال کی انتہائی ناقص کارکردگی کی بنا پر وزیر خزانہ اسحق ڈار کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ اس ایک برس میں پی ٹی آئی کے قائدین کے بقول ملکی معیشت کئی دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر اسحق ڈار نے قوم اور تحریک انصاف کو یاد دلایا کہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کی بنا پر 2013ء سے 2018ء تک معیشت فراٹے بھر رہی تھی۔ ڈار صاحب نے دعویٰ کیا کہ 2017ء میں پاکستان دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن چکا تھا مگر پی ٹی آئی حکومت کے غیر دانشمندانہ اقدامات کی بنا پر پاکستانی معیشت 47ویں نمبر پر آ گئی۔
الزام در الزام کی اس روش نے ہی تو ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ اس لیے دوطرفہ الزامات کا محاکمہ کرنے اور معاشی بربادی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے آج کے معاشی منظر نامے کی طرف آتے ہیں۔ اس منظر کے مطابق معاشی سرگرمیاں منجمد ہو کر رہ گئی ہیں۔ بے روزگاری لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ سال 2022-23ء میں شرح نمو صفر سے بھی کم رہ گئی ہے۔ چوتھی اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی 38فیصد تک پہنچ چکی ہے جو پاکستانی تاریخ کی بلند ترین شرح ہے۔
میں قارئین کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے اور خوش نما وعدوں کے پھندے میں نہیں الجھانا چاہتا۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انہیں حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ صوبوں کو اُن کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس 4500ارب روپے ہوں گے جبکہ پاکستان کے ذمے قرض و سود کی مد میں 5200ارب روپے واجب الادا ہیں۔ یوں سمجھیے کہ سود کی ادائیگی کیلئے بھی معیشت کے پاس کچھ نہیں ہوگا‘ اس کیلئے بھی ہمیں مزید قرض لینا ہوگا۔ اگر بات کو مزید آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو دفاع‘ ملازمین کی تنخواہیں‘ پنشن وغیرہ کی ادائیگیاں بھی قرضوں سے کرنا پڑیں گی۔ پاکستان کے ایک سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا یہ ہے کہ ایسا وقت پاکستان نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ خدا خیر کرے!
اس بجٹ میں پیش کیے گئے تین نکات کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ ان تین نکات میں زرعی مشینری‘ سولر پینلز اور آئی ٹی آلات کی درآمد پر ڈیوٹی کا خاتمہ شامل ہیں۔ یقینا یہ ایک مثبت قدم ہے۔ حکومت نے زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں پر توجہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے تاہم اس سلسلے میں جو زرعی مشینری اور بیجوں وغیرہ کی درآمد پر ڈیوٹی کا خاتمہ ماہرینِ زراعت کے نزدیک کاسمیٹک کارروائی سے زیادہ نہیں۔ ہم نے عالمی شہرت یافتہ ماہرِ زراعت جناب حافظ وصی محمد خان سے رابطہ کیا‘ انہوں نے بتایا کہ حکومت کا یہ قدم درست سمت کی طرف پیش قدمی ہے تاہم جب تک حکومتی ماہرین کے سامنے زراعت کے شعبے کے پس منظر اور موجودہ صورتحال کی حقیقی تصویر نہیں ہوگی اس وقت تک محض ڈیوٹی کے خاتمے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
ملتان کے کاشتکاروں نے اعلان کیا ہے کہ ان کا اندازہ تھا کہ یہ کسان دوست بجٹ ہوگا‘ تمام کھادیں بالخصوص یوریا کی قیمتیں کم کی جائیں گی اور ان کی فصلوں کی بوائی کے موقع پر بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اسی طرح کسانوں کو امید تھی کہ بجلی کا ٹیرف کم کیا جائے گا مگر اس سلسلے میں بھی حکومت نے کسی کمی کا اعلان نہیں کیا۔ اگر حکومت نے کھاد اور بجلی کے نرخوں میں کمی نہ کی تو کاشت کار مل کر زبردست احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
رواں مالی سال کے دوران 27ملین ٹن گندم پیدا ہوئی جبکہ 25کروڑ کی آبادی کیلئے ہمیں کم از کم 35ملین ٹن کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت جنوبی پنجاب میں کاٹن کی پیداوار 41فیصد سے کم ہوئی ہے۔ ان حالات میں ہمیں گندم کے ساتھ ساتھ کاٹن بیرون ملک سے بھاری زرِمبادلہ ادا کرکے منگوانا ہوگی۔ اگر خام مال نہیں ہوگا تو ٹیکسٹائل ملیں کیسے چلیں گی۔ جنوبی پنجاب کپاس کی پیداوار کیلئے نہایت موزوں ہے مگر اب جنوبی پنجاب اور سندھ میں بااثر لوگوں نے شوگر ملیں لگا لی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کاشتکاروں نے کپاس کے بجائے گنا لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس سال کاٹن کی کل 49لاکھ بیلیں پیدا ہوئی ہیں جبکہ 1996ء سے لے کر 2006ء تک بی ٹی سیڈ کے استعمال سے کپاس کی ڈیڑھ کروڑ بیلیں سالانہ پیدا ہوتی تھیں۔ پاکستان میں زرعی تحقیق کیلئے کم از کم تیرہ چودہ ادارے اور تین چار یونیورسٹیاں ہیں۔ ان اداروں کو اپنے مقامی زمینی و زرعی حالات اور بدلتے ہوئے کلائمیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ کرنی چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا کام تو نیا نالج تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ ہم نہ زیادہ پیداوار دینے والے اپنے بیج تیار کرتے ہیں اور نہ ہی زراعت کی بہتری کیلئے کوئی نئی تکنیک سامنے لاتے ہیں۔
اگر ہم معاشی خوش حالی چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا۔ ٹیکس نیٹ کو پھیلانا ہوگا۔ زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں سہولتوں کیساتھ ساتھ تحقیق و تجسس کو اپنا ولولہ بنانا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی رویوں کو بدلنا ہوگا۔ ہماری آبادی کی شرح افزائش 1.8 فیصد ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے جبکہ معاشی شرح نمو صرف ایک فیصد ہے۔ اب تو سوت کی اٹّی سے یوسف کی خریداری کا خیال بھی ہمیں دل سے نکال دینا چاہیے کیونکہ اب تو ہمارے ہاتھ میں سوت کی اٹّی بھی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں