انتخابات کیوں لیٹ ہوں؟

کسی ملک کے عدم استحکام کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ عام انتخابات کی گھڑی سر پر آن پہنچی ہو اور اُس وقت سیاستدانوں اور دانشوروں میں یہ بحث ہو رہی ہو کہ الیکشن کب ہوگا؟ ابھی چند روز قبل لکھا تھا کہ کسی ملک کے سیاسی استحکام کی سب سے روشن دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہاں طے شدہ قوانین و ضوابط کے مطابق حکومتیں قائم اور رخصت ہوتی ہیں۔ ایک دن اوپر نہ ایک دن نیچے۔ انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخ پر اور نتائج کے بروقت اعلان کے بعد پرامن انداز میں انتقال ِاقتدار ہوتا ہے۔ مستحکم جمہوری ملکوں میں انتخابات کا انعقاد کوئی خبر نہیں ایک معمول کی کارروائی ہوتا ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ حکومتی سیاستدانوں نے اپنے بیانات سے انتخابات کے انعقاد میں کنفیوژن پیدا کر دی ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اُن تھنک ٹینکس اور سیاسی و تحقیقی اداروں پر ہے کہ جو اس کنفیوژن کی پذیرائی کرتے ہوئے اس موضوع پر سیمینار منعقد کر رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ تھنک ٹینکس حکومتِ وقت کو دو ٹوک انداز میں باور کراتے کہ وہ بروقت انتخابات کے انعقاد کی پابند ہے‘ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ لہٰذا وہ اپنی ذمہ داری بلا چون وچرا پوری کرے۔
ایک بار پھر پنگ پانگ شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف فرماتے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ حکومت پروگرام دے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ اسحق ڈار کہتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں غیر آئینی نہیں۔
چار پانچ روز قبل اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک علمی نوعیت کے سیاسی سیمینار میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اتحادی حکومت کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی حکمرانی اگست 2023ء میں ختم ہو رہی ہے۔ حکومتی ٹرم کی تکمیل کے بعد 60روز کے اندر اندر اگلے انتخابات کا انعقاد لازمی ہے۔ یہ دستوری تقاضا تسلیم کرنے کے باوجود وزیر قانون سیمینار کے دوران عام انتخابات کے انعقاد کی دو ٹوک کمٹمنٹ دینے سے گریز کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے اندر آرٹیکل 232اور 234 بھی موجود ہیں۔تاہم تارڑ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ آرٹیکل 232کا نفاذ اس وقت ممکن ہے کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو اور دشمن کی فوجیں سرحدوں پر کھڑی ہوں۔ یا ملک کے اندر داخلی افراتفری زوروں پر ہوں۔ الحمد للہ پاکستان کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں۔ جہاں تک آرٹیکل 234 کا تعلق ہے تو اس کے نفاذ کا کوئی جواز اس وقت ہوتا ہے کہ جب کسی صوبے میں آئینی مشینری فیل ہو چکی ہو اور لا اینڈ آرڈ آؤٹ آف کنٹرول ہوں۔ مقامِ شکر ہے ایسی صورتحال بھی کسی صوبے میں نہیں۔
ہمیں جس بیان پر سب سے زیادہ حیرانی بلکہ پریشانی ہوئی ہے وہ جناب مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ مولانا سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے۔ ہمارے دل میں اُن کا بہت احترام ہے مگر مولانا نے یہ کیا فرمایا کہ ''الیکشن میں تاخیر ہوئی تو فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔‘‘ مولانا کا ارشاد بڑا ذومعنی ہے۔ کیا تاخیر کا اجرا کہیں اور سے ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر پارلیمنٹ کے فیصلے کی کیا وقعت ہے۔ ایسی صورت میں تو پارلیمنٹ صادر ہونے والے امر کی تائید ہی کرے گی۔ مولانا تو فرنٹ فُٹ پر کھیلنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ بیک فٹ پر کیوں چلے گئے ہیں؟
مولانا کا یہ جملہ تو ضرب المثل بن چکا ہے کہ ''آئین کے تناظر میں...‘‘ مولانا تو آئین اور آئینی تقاضوں کے دلدادہ ہیں۔ وہ ماورائے آئین کی باتیں کیوں کرنے لگے۔ مولانا سے بڑھ کر اور کسے ادراک ہوگا کہ اگر انتخابات آئینی تقاضے کے مطابق بروقت نہیں ہوتے تو اس کے کیا کیا نتائج ہوں گے‘ سب سے بڑا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ عوام میں مایوسی پھیلے گی۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ انتخابی جمہوریت ایک بار پھر ڈی ٹریک ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں پاکستانی سیاستدانوں کا ساری دنیا میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوگا۔
سیاسی کنفیوژن کی اس فضا میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک خوشخبری سنائی ہے کہ 2023ء کے آخری مہینوں میں نئے انتخابات کی تمام تر تیاری مکمل کرلی گئی ہے کہ اس سلسلے میں اُن کی طرف سے کوئی تاخیر نہ ہوگی۔ البتہ ہماری سوسائٹی ایک سیاسی حیرت کدہ ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو وہ کبھی مردم شماری سے مطمئن نہیں ہوتی۔ اب چونکہ کراچی اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اس لئے وہ بھی ''باعثِ تاخیر‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ تاخیر ہونے کا کوئی جواز پیش کر سکیں۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے ایم کیو ایم کے ''مردم شماری اعتراض‘‘ کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صاف شفاف اور دیانتدارانہ انتخابات کا انعقاد ''درست‘‘ مردم شماری کے بغیر ممکن نہیں۔ ''مردم شماری‘‘ ایسا موضوع ہے کہ اگر ایک پارٹی مطمئن ہو جائے گی تو دوسری اختلاف کا علم بلند کر دے گی۔
مستحکم جمہوریتوں میں عام انتخابات باالعموم ملتوی نہیں ہوتے۔ برطانیہ میں جو بلدیاتی انتخابات اور میئر کا الیکشن مئی 2020ء میں منعقد ہونا تھا اسے غالباً کورونا کی وبا کی بنا پر مئی 2021ء تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ایسا شاید برطانوی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ برطانیہ میں ہارجیت کے کسی خدشے کے پیش نظر کبھی انتخابات کا التوا نہیں ہوا۔ جہاں تک امریکی تاریخ کا تعلق ہے وہاں کبھی عام انتخابات کو ملتوی یا مؤخر نہیں کیا گیا۔
کسی شدید نوعیت کی قدرتی آفت کے نتیجے میں صرف الیکشن ڈے کے انتخابات میں معمولی رد و بدل ہو جاتا ہے مثلاً 2012ء کے طوفانِ بادو باراں کے دوران انتخاب کے مقررہ دن بعض مشرقی امریکی ریاستوں کے کچھ پولنگ سٹیشنوں میں ووٹنگ کیلئے اضافی وقت دیا گیا یا 11ستمبر 2001ء کے دن جب ٹوئن ٹاورز پر حملہ ہوا تو اس سے زبردست افراتفری پھیلی۔ اس دوران نیو یارک کے کچھ پولنگ سٹیشنوں کے مقامات کو تبدیل کر دیا گیا اور ہر ممکن طریقے سے اس تبدیلی کے بارے میں ووٹروں کو آگاہ کر دیا گیا۔ مگر شدید نوعیت کی اس ایمرجنسی میں بھی الیکشن ملتوی نہیں کیا گیا۔البتہ ہماری بات ساری دنیا سے نرالی ہے۔ یہاں آناً فاناً انتخاب کی ہی نہیں دستور کی ہی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ جہاں تک موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا تعلق ہے تو انہیں جتنا ہم جانتے ہیں اس کے مطابق اُن کی شہرت ''گوبائی دی بُک‘‘والی ہے۔ عام حکومتی دباؤ تو وہ بالکل قبول نہیں کرتے۔ عام شہریوں‘ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو اپنے بھرپور تعاون سے الیکشن کمیشن کی ہمت بڑھانی چاہئے تاکہ وہ الیکشن کیلنڈر کے مطابق بروقت صاف شفاف انتخابات منعقد کرانے اور اپنی آئینی ذمہ داری کو کماحقہ پورا کر سکے۔الیکشن میں تاخیر کا تو کوئی جواز نہیں۔ امید ہے کہ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں