گولڈا میئر سے چودھری پرویز الٰہی تک

''گولڈامیئر (گولڈی مابووچ) تنہا رہتی تھی۔ رات کو کوئی بھی حتیٰ کہ ایک کتا بھی نہیں ہوتا تھا جو اس کی حفاظت کرے یا خیال رکھ سکے۔ وہاں پر بس اس کا ایک چوکیدار ہوتا تھا جو اس کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے پر تعینات تھا۔ دن کے وقت فقط ایک ملازمہ موجود ہوتی تھی جو کہ گھر کے معاملات میں اس کی مدد کرتی تھی اور وہ ملازمہ بستر لگانے‘ صفائی کرنے اور کپڑے استری کرنے پر مامور تھی۔ شام کے بعد گولڈا سارے کام خود کرتی تھی۔ مثال کے طور پر اگر گولڈا نے آپ کو رات کے کھانے پر مدعو کیا ہوا ہے تو وہ خود ہی کھانا پکاتی اور خود ہی صفائی کر لیتی تھی۔ سو جب اگلی صبح نوکرانی آتی تو اسے پچھلی رات کا کوئی کوڑا کرکٹ نہ ملتا۔میرے ساتھ طے شدہ ملاقات سے پچھلی رات گولڈا نے کچھ مہمانوں کو دعوت دے رکھی تھی تو وہ مہمان رات دو بجے تک وہیں تھے جس کی وجہ سے میلی پلیٹوں کا ڈھیر‘ استعمال شدہ گلاس اور حد سے زیادہ بھرے ہوئے ایش ٹرے ساری صفائی تتر بتر کر چکے تھے۔ اس کے باوجود اگلی صبح نوکرانی کو کوئی بھی چیز گندی حالت میں نہ ملی کیونکہ مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد گولڈا نے سارے برتن دھوئے اور کمرے کی صفائی ستھرائی میں لگی رہی اور پھر ساڑھے تین بجے سونے کی غرض سے بستر میں پہنچی۔ صبح سات بجے وہ اپنے معمول کے مطابق اخبار پڑھنے اور ریڈیو پر خبریں سننے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ آٹھ بجے اسے کچھ مخصوص جرنیلوں سے ملنا پڑا اور نو بجے اسے کچھ وزیروں سے ملاقات کرنا پڑی۔ دس بجے وہ قدرے کمزوری محسوس کر رہی تھی۔ 74برس کی عمر میں ساڑھے تین گھنٹوں کی نیند کسی طرح بھی کافی نہیں ہوتی‘‘۔
یہ قدرے طویل اقتباس میں نے اوریانا فلاچی کی اپنے زمانے میں بیسٹ سیلر کتاب ''انٹرویو وِد ہسٹری‘‘ سے لیا ہے۔ اطالوی صحافی اوریانا کے 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں عالمی شخصیات سے لیے گئے انٹرویوز کی بہت شہرت ہوئی۔ اس زمانے کے ممتاز حکمرانوں اور سیاست دانوں کے انٹرویوز پر مشتمل یہ کتاب ''تاریخ کا دریچہ‘‘ آج بھی بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو سے لیا گیا انٹرویو بھی موجود ہے۔ اوپر پیش کردہ اقتباس 1969ء سے 1974ء تک کے زمانے کی پاور فل اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر کے بارے میں ہے۔
گولڈا میئر اسرائیل کی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیراعظم تھی۔ جو سیاسی و سرکاری کاموں میں مصروفیت کے باوجود گھر کے سارے کام خود کرتی تھی۔ اسرائیل چھوٹے سے غصب کردہ فلسطینی رقبے اور تھوڑی سے آبادی کا وہ پاور فل ملک ہے کہ جس نے ساری عرب دنیا کو آگے لگا رکھا ہے۔ اسرائیل کی اکانومی بھی مضبوط ہے اور یہودی دنیا کی امیر ترین کمیونٹی سمجھے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ذرا خیال میں لائیے کہ اس کی وزیراعظم کھانا بھی خود پکاتی ہے‘ رات کو صفائی بھی خود کرتی ہے‘ جرنیلوں اور وزیروں سے گھر پر ملاقاتوں کے دوران ان کی خاطر مدارات بھی خود کرتی ہے۔ قارئین کے دل میں بجاطور پر یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ آج مجھے اس پرانے انٹرویو کا کیسے خیال آیا۔
اگلے روز کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی جسے پڑھ کر مجھے گولڈا میئر کا یہ انٹرویو یاد آ گیا۔ خبر یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی سے پنجاب اسمبلی کا سٹاف واپس لے لیا گیا۔ غالباً یہ سٹاف انہیں بطور سپیکر پنجاب اسمبلی دیا گیا ہوگا جو اب تک ان کے گھر پر خدمات انجام دیتا رہا۔ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم تو دور کی بات‘ ایک سپیکر کا پروٹوکول ملاحظہ فرمائیے۔ یہ سٹاف 60‘ جی ہاں 60 افراد پر مشتمل تھا جن میں سکیورٹی اہل کار‘ ڈرائیور‘ باورچی اور مالی وغیرہ شامل تھے۔یہ اُس ملک کے ایک سپیکر کے لیے خدمت گاروں کی فوج ظفر موج ہے جوبیچارا ڈیفالٹ کرنے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہاں پر صاحبِ منصب کے پروٹوکول کی تفصیل آپ پڑھیں یا سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔
سینیٹر مشتاق احمد سینیٹ میں اکثر قصۂ درد سناتے رہتے ہیں کہ بندئہ مجبور اور بندئہ سفید پوش کی فاقوں تک نوبت آ چکی ہے اور ملک کی صرف ایک فیصد اشرافیہ کے کیسے وارے نیارے ہیں۔ انہوں نے کئی بار پاکستان کے ایوانِ بالا میں بتایا ہے کہ بڑی بڑی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اعلیٰ افسران کیسے عوامی ٹیکس کی رقم سے بڑی بڑی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ انہیں کئی کئی گاڑیاں‘ بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہیں‘ مفت پٹرول اور مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
جدید مغربی دنیا کی جمہوری ریاستوں کے حکمرانوں کو سرکاری خزانے سے کوئی ایک ادنیٰ سی بھی سہولت نہیں ملتی۔ یوں تو یورپ کے وزرائے اعظموں اور حکمرانوں کی ایک سے ایک سنہری مثال موجود ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم سے لے کر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل تک مگر میں صرف ایک مختصر مثال مسلسل گیارہ برس تک برطانیہ کی وزیراعظم رہنے والی آنجہانی مارگریٹ تھیچر کی زندگی سے پیش کروں گا۔
مارگریٹ تھیچر کو ان کی مضبوط اور دو ٹوک پالیسیوں کی بنا پر عالمی سطح پر ''آئرن لیڈی‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اس آئرن لیڈی کے پاس کوئی جز وقتی ملازم یا ملازمہ گھر کے لیے نہیں تھی۔ ہر رات کو اپنے میاں ڈینس تھیچر کے لیے مارگریٹ خود کھانا پکاتی تھی اور ڈش واشنگ کا کام بیچارے میاں کے سپرد تھا۔ جب سینیٹ کا اجلاس ہوتا تو تھیچر ان کے لیے بھی اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتی تھی۔
یہ تو جدید جمہوری دنیا کا کلچر ہے اور اگر ہم اسلامی سرکاری پروٹوکول کی طرف آ جائیں تو وہاں تو ا ور بھی کڑا بلکہ بہت کڑا معیار ہے۔ ہمارے حکمران ریاستِ مدینہ کی مثالیں دیتے رہتے ہیں‘ وہاں تو یہ پروٹوکول تھا کہ جب والی ٔ مدینہ جناب محمد مصطفیﷺ کی صاحبزادی اپنے انتہائی شفیق والد سے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے مدینہ آنے والے غلاموں میں سے ایک غلام کے لیے درخواست کرتی ہیں تو شاہِ مدینہ بڑے پیار سے اپنی بیٹی کو یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ جب تک مدینہ کے ہر گھرانے کو ایک ملازم نہیں مل جاتا اس وقت تک دخترِ رسولﷺ کو بھی نہیں مل سکتا۔ ہم خواب جمہوریت کے دیکھتے ہیں اور روّیے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں والے اختیار کرتے ہیں۔ہم کب تک بلند بانگ دعووں اور کھوکھلے نعروں پہ گزارہ کرتے رہیں گے۔ ہمارے حکمران اور سیاست دان کب تک غریبوں کا خون چوستے اور اپنے کاشانوں کو گل رنگ کرتے رہیں گے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ہمارے چال چلن اور لچھن تو پنپنے والے نہیں۔
ایک بار پھر کالم کی ابتدا میں دیا گیا گولڈا میئر کے بارے میں اوریانا فلاچی کا اقتباس پڑھ لیں اور ان سطور کی روشنی میں اپنے کسی حکمران کے طرزِ زندگی کا جائزہ لے لیں تو آپ پر عیاں ہو جائے گا کہ ہم اس حال تک کیسے پہنچے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں