کنجِ قفس کا کمالیت پسند شاعر

اسے ایک دلچسپ اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ فواد حسن فواد صاحب سے پہلی ملاقات پسِ دیوارِ زنداں ہوئی۔ فواد صاحب کو میں ایک نیک نام اور فرض شناس اعلیٰ افسر کے طور پر جانتا تھا اور محبِ گرامی جناب عرفان صدیقی صاحب سے بارہا اُن کا ذکرِ خیر بھی سن چکا تھا مگر کبھی بالمشافہ ملاقات نہ ہوئی تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ ایک کالم نگار ہونے کی حیثیت سے وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے۔میں ان کا قیدی ساتھی نہ تھا۔ ان کے ایامِ اسیری کے دوران میں کیمپ جیل لاہور میں ایک بزرگ زندانی سے ملاقات کے لیے گیا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں میٹنگ روم میں فواد حسن فواد سے بھی شرفِ ملاقات حاصل ہو گیا۔ یوں ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی۔ بعض اوقات سرِ راہ ہی خوابوں کا جہاں مل جاتا ہے۔ اس روز ان سے جو تعلقِ خاطر قائم ہوا وہ فزوں تر ہے۔اگرچہ میں خود تو کبھی باقاعدہ قیدی کے طور پر جیل میں نہیں رہا مگر کالج کے ابتدائی دنوں میں کسی پُرامن احتجاج کے دوران شعلہ بیانی کی پاداش میں حوالاتی قفس میں دو تین ساتھیوں کے ہمراہ دو راتیں بسر کرنا پڑیں۔ اگلے روز ہمیں سول جج سرگودھا باقر حسین صاحب کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ میری کلائی میں گھومتی ہوئی ہتھکڑی دیکھ کر ان کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے غالبؔ کا یہ مصرع پڑھ دیا :
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
اور ساتھ ہی ہماری ضمانت منظور کر لی۔
جناب فواد حسن فواد کا تعلق ایک آسودہ حال خاندان سے ہے۔ زندگی انہوں نے صاحبِ اختیار افسرِ اعلیٰ کے طور پر گزاری۔ ان کی آخری پوسٹنگ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری تھی۔ اس خوشحال پس منظر کی بنا پر میرا اندازہ تھا کہ وہ جیل میں جلد گھبرا جائیں گے مگر یہ دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے 16ماہ کی طویل قید بلند حوصلگی‘ ثابت قدمی‘ عالی ظرفی اور جرأت مندی سے کاٹی‘ کوئی جزع فزع نہ کی۔ رہائی تو دور کی بات‘ انہوں نے جیل کے اندر کسی معمولی سی رعایت کے لیے بھی کوئی درخواست نہ کی‘ نہ ہی کوئی فریاد۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ایسا حوصلہ ایک قیدی میں کب پیدا ہوتا ہے۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری پاکستان کی ایک نہایت نیک نام دینی و سیاسی جماعت کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ انہیں کئی بار حق گوئی کی پاداش میں شاہی قلعہ لاہور کے تہہ خانوں سے لے کر زندانوں کی کال کوٹھڑیوں میں مہینوں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ یہ ہمارے بچپن اور لڑکپن کا زمانہ تھا۔ بعد ازاں ہم نے بڑے ہو کر والد صاحب سے پوچھا کہ آپ قلعے اور قید خانے کی صعوبتوں کو ہنسی خوشی کیسے برداشت کر لیتے تھے؟ اس کے جواب میں والد مرحوم نے فرمایا کہ جب آپ کو اپنی بے گناہی کا مکمل ادراک اور اپنے مشن کی سچائی پر سو فیصد یقین ہوتا ہے تو پھر آپ کو کوئی ملال ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی گھبراہٹ۔ فواد حسن فواد صاحب کو بھی اپنی بے گناہی اور سچائی کے اصولوں کی سربلندی پر مکمل یقین تھا۔مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا:
نہ اڑ جائیں کہیں قیدی قفس کے
ذرا پر باندھنا صیّاد کس کے
مگر صیّاد کو یہ معلوم نہ تھا کہ فواد حسن فواد جیسے باہمت قیدی ہر روز راہوارِ تخیل پر سوار ہو کر اونچی اڑانیں بھرتے اور نئی نئی دنیاؤں کی سیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ صیّاد کو یہ بھی اندازہ نہ ہوگا کہ ایسے شوریدہ سر قیدی فکر و خیال کی کن کن تجلیوں سے ہر شب اپنے کلبہ احزاں کو منور کرتے ہیں۔ صیّاد لاکھ ستم گر سہی مگر وہ سوچ اور خیالات پر تو پہرے نہیں بٹھا سکتا۔ کنجِ قفس کا زیادہ حصہ جیل کی ہی مشقِ سخن کا ثمر ہے۔ حمد کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے:
اگر کبھی وہ ہمیں کچھ سزا بھی دیتا ہے
کریم ایسا ہے اس کی جزا بھی دیتا ہے
کبھی بساط سے بڑھ کر نہ دے کوئی تکلیف
جو ظرف کم ہو تو اس کو بڑھا بھی دیتا ہے
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کسی شخص کو اس کی ہمت سے بڑھ کر آزمائش میں نہیں ڈالتا۔ یہاں شاعر نے ایک لطیف نکتہ پیش کیا ہے کہ اگر کسی شخص کی ہمت کم ہو تو اللہ حسبِ موقع اسے بڑھا بھی دیتا ہے۔ فواد حسن فواد کی نعت کا یہ خوب صورت شعر دیکھئے:
یہ دل کا درد مرا گر جو عام ہو جائے
تمام شہر نبیؐ کا غلام ہو جائے
فواد حسن فواد کے دو کولیگز جناب شعیب صدیقی اور محترمہ سمیرا نذیر صدیقی سے مجھے گفتگو کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی طویل پروفیشنل رفاقت کے دوران فواد کی جس صفت نے ہمیں بے حد متاثر کیا وہ ان کی کمالیت پسندی تھی۔ فواد صاحب کے ان کولیگز کا اس بات پر اتفاق تھا کہ دفتری کاموں میں ہم نے ان سے بڑھ کر کوئی Perfectionist نہیں دیکھا۔ میڈم سمیرا صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ فواد صاحب نے تین دہائیوں تک شاعری کی متلاطم موجوں کو اپنے سینے میں تھام کر رکھا اور انہیں ظاہر نہ ہونے دیا۔ فواد صاحب کے مجموعۂ کلام میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ اپنے بیٹے سلال‘ بیٹی عائشہ اور بیگم رباب حسن کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں شدتِ جذبات و احساس اپنے عروج پر ہے۔ان کی شاعری میں کہیں حبیب جالبؔ کا باغیانہ طرزِ بیان جھلکتا ہے اور کہیں کہیں فیض احمد فیض کا رنگِ تغزل محسوس ہوتا ہے۔ دیکھئے وہ اپنے پیشے کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
مرے قبیل کے لوگوں کا المیہ یہ ہے
کہ جھوٹ سچ میں تفاوت کیا نہیں کرتے
امیرِ شہر اگر دعویٰ خدائی کرے
تو ردِ کفر کی جرأت کیا نہیں کرتے
باغیانہ رنگ کے درج ذیل اشعار پڑھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کا خالق کبھی کامیاب ترین بیورو کریٹ رہا ہوگا:
تمہارے عہد کو عہدِ عذاب لکھوں گا
مرا یہ عزم ہے عالی جناب‘ لکھوں گا
کہوں گا کلمۂ حق جو بھی اس کی ہو قیمت
ہزار طرح سے آئیں عذاب‘ لکھوں گا
آخر میں فواد حسن فواد کے دو اشعار جن میں کلاسیکی و روحانی رنگِ تغزل ہے۔ یہ غزل ناصر کاظمی کی زمین میں کہی گئی ہے اور ان کی مشہور غزل کا ایک مصرع ان اشعار میں مستعار بھی لیا گیا ہے:
عجیب اندازِ دوستی ہے نہ آشنا ہے‘ نہ اجنبی ہے
ابھی ابھی میرا ہم سفر تھا ابھی نہ جانے کدھر گیا وہ
نظر جھکائی تو اس کو دیکھا‘ نظر اٹھائی تو بے نشاں ہے
''عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘
''مانوس اجنبی‘‘ کی طرح فواد حسن فواد کا غیر متوقع کلام سب کو حیران کر گیا ہے۔ کل فواد حسن فواد اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جس کمالیت پسندی سے کام لیتے تھے‘ آج ویسی ہی کمالیت پسندی کنجِ قفس کے ہر صفحے سے جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں