خواجہ آصف اور اوورسیز پاکستانی

اس بار عیدالاضحی کی اخباری چھٹیاں کچھ اس طرح آئیں کہ قارئین سے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ اس دوران کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک انتہائی قابلِ نفرت و قابلِ مذمت واقعہ پیش آیا۔ عین عید کے روز مسجد کے باہر قرآن مجید کو نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم اور دلخراش حرکت کرنے والا 37سالہ سلوان مومیکا کئی برس قبل عراق سے فرار ہو کر سویڈن آ گیا تھا۔ یہاں اس نے ''آزادیٔ اظہار‘‘ کی آڑ میں انتہائی دل سوز حرکت کی۔ اس افسوسناک واقعے پر ساری مسلم و غیر مسلم دنیا میں شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ عراقی وزارتِ خارجہ نے سویڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُن کا شہری سلوان واپس عراق بھیجے تاکہ اس کے خلاف عراقی قوانین کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔
ایسی مذموم حرکات کے انسداد کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ مسلمان او آئی سی کے فورم سے ساری مغربی دنیا کو دو ٹوک انداز میں یہ بات سمجھائیں کہ دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کا تقدس انہیں دل و جان سے عزیز ہے۔ مغربی دنیا میں کسی شخص کے عام جذبات کو مجروح کرنا بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے مگر پونے دو ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ او آئی سی یورپی ممالک کو باور کرائے کہ اگر انہوں نے ایسی دلخراش حرکات کا سدباب نہ کیا تو 57 مسلم ممالک ان کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں فیصلہ کن اقدام کر سکتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف ایک اور نفرت انگیز واقعہ امریکی ریاست کینٹکی کے شہر ہارٹ فورڈ میں پیش آیا۔ یہاں کی ریاستی اسمبلی کی پہلی مسلمان پاکستانی نژاد باحجاب خاتون رکنِ اسمبلی مریم خان جب نمازِ عید ادا کرکے مسجد سے باہر نکلیں تو ان پر 30سالہ اینڈری ڈیمانڈ نے حملہ کر دیا۔ مس خان کو کئی زخم آئے مگر ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ریاست کینٹکی کے اٹارنی جنرل ولیم ٹانگ نے مسلمانوں کے عیدالاضحی کے اجتماع کو نہایت پُرامن اور پُرلطف قرار دیا۔ ایسے واقعات مسلمانوں کے لیے لمحاتِ فکریہ ہیں۔ ان کے تدارک کے لیے ہر سطح پر اور ہر فورم سے کوشش ہونی چاہیے۔
اب اگر ملکی سیاسی صورتحال کی بات کی جائے تو پہلے قوم کی قسمت کے فیصلے لندن میں ہوتے تھے‘ اب دبئی میں ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں آصف زرداری ‘بلاول بھٹو زرداری‘ میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے۔ اب سنا ہے کہ دونوں اطراف سے اپنی اپنی پارٹی کے کچھ وزرا کو بھی دوطرفہ خاندانی مذاکرات کے فیصلوں سے آگہی کے لیے دبئی میں طلب کیا گیا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی طرف سے نوماہ کے لیے تین بلین ڈالر کا ریلیف قرضہ بھی نہایت اہم موضوع ہے۔ مذکورہ بالا موضوعات مستقل کالموں کے متقاضی ہیں۔ ہم ان شاء اللہ آئندہ چند روز میں ان پر تفصیلی اظہار خیال بھی کریں گے۔
اب آئیے آج کے مرکزی موضوع کی طرف۔ 14جون کو قومی اسمبلی میں شعلہ بیانی اور گل افشانی کرتے اور عقل و خرد کا دامن چھوڑتے ہوئے خواجہ آصف نے امریکن‘ کینیڈین اور یورپین اوورسیز پاکستانیز کے بارے میں نامناسب ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انگلش سپیکنگ امریکی‘ کینیڈین اور یورپین پاکستانی اپنے وطن ڈالر تو بھیجتے نہیں صرف یہاں مردے دفنانے اور اپنی پراپرٹی فروخت کرنے آ جاتے ہیں۔ وہ جذبات کی رو میں اوورسیز پاکستانیوں کو بے شرم بھی کہہ گئے۔ خواجہ آصف کے ان ریمارکس کے بارے میں فوری تبصرہ تو یہ ہے کہ
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مسلم لیگ (ن) کے بھی مہرباں کیسے کیسے ہیں۔ اس بیان میں خواجہ صاحب نے اپنی پارٹی کے پاؤں پر اپنے ہاتھ سے کلہاڑی مارتے ہوئے گویا یہ تسلیم کیا کہ ان مغربی ممالک میں بسنے والے تقریباً 30لاکھ پاکستانیوں میں سے کوئی ان کے حق میں نہیں‘ سب ان کے خلاف ہیں۔ کسی ایک پاکستانی امریکن نے کہا کہ وہ پاکستان رقوم نہیں بھیجیں گے‘ کیا ایسے انفرادی ریمارکس پر پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کو مغلوب الغضب ہو جانا چاہیے اور اسے آپے سے باہر ہو جانا چاہیے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ مذکورہ بالا ممالک کے انتہائی ذمہ دار اور معزز پاکستانی خواجہ آصف کے بیان کی بھرپور مذمت کرتے رہے۔
چار دہائیوں سے قائم ''اپنا‘‘ امریکہ میں بسنے والے پاکستانی ڈاکٹرز کی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم مکمل طور پر غیرسیاسی ہے۔ یہ ہر سال پاکستانی سیاستدانوں‘ دانشوروں اور شاعروں وغیرہ کو اپنے سالانہ اجلاس میں مدعو کرتی ہے۔ ان سے پاکستان کے احوال سنتی ہے اور انہیں یقین دلاتی ہے کہ وہ اپنے دیس کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک بار ہمیں بھی ''اپنا‘‘ کے نیو یارک اجلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا۔ ''اپنا‘‘ کے موجودہ صدر ڈاکٹر ارشد ریحان نے وزیراعظم پاکستان کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے مغربی دنیا میں بسنے والے تیس لاکھ پاکستانیوں کے دلی جذبات کا بھرپور الفاظ میں اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق خواجہ آصف کے مغربی دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں کے بارے میں ریمارکس دلخراش اور قابلِ اعتراض ہیں۔ انہوں یہ بھی لکھا ہے کہ کیا چند اوورسیز پاکستانیوں سے اختلاف کا یہ مطلب ہے کہ آپ تیس لاکھ پاکستانیوں کی توہین کریں اور ان کے خلاف ہتک آمیز الفاظ استعمال کریں۔ انہوں نے لکھا کہ ''اپنا‘‘ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اور ہم نے ہمیشہ پاکستان کی ویلفیئر کے بارے میں سوچا ہے بلکہ عملاً ہر ممکن طریقے سے مدد اور تعاون کیا ہے۔
ہمیں اسمبلی میں بیٹھے ہوئے دیگر ارکانِ اسمبلی کے رویے سے بھی بہت دکھ ہوا ہے کہ جنہوں نے خواجہ آصف کے ان ریمارکس پر انہیں ٹوکا اور نہ روکا۔ سپیکر اسمبلی کو چاہیے تھا کہ وہ اسی وقت خواجہ صاحب کو اپنے الفاظ واپس لینے کا کہتے اور ان کے ریمارکس کو اسمبلی کی کارروائی سے حذف کرواتے۔ ''اپنا‘‘ کے صدر نے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواجہ آصف کی چائس آف ورڈز اور ان کے رویے پر گرفت کریں اور انہیں اپنے الفاظ واپس لینے کا حکم دیں۔ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی پاکستانی شاخ کے بعض ذمہ داران نے انفرادی سطح پر ہم سے ''اپنا‘‘ کے صدر جیسے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ خواجہ آصف اگر اپنے والد مرحوم خواجہ محمد صفدر کی روایت کے مطابق بولنے سے پہلے سوچ لیتے تو وہ ہرگز ایسے افسوسناک کلمات نہ کہتے۔خواجہ صاحب کو معلوم نہیں کہ امریکہ سے سالانہ کتنے ڈالر پاکستان آ رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں 15ارکانِ پارلیمنٹ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لندن میئر صادق خان اور سکاٹ لینڈ کا چیف منسٹر حمزہ یوسف بھی پاکستانی نژاد ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 19پاکستانی صف اوّل کے سیاستدان ہیں۔ مغربی دنیا میں پاکستانی ڈاکٹر‘ پروفیسرز‘ سائنسدان‘ بزنس اور فنانس کے ماہرین نہایت اچھی شہرت کے مالک ہیں۔
خواجہ آصف نے جن معزز پاکستانیوں کی اہانت کی‘ ان کی مغربی دنیا میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سفیر سمجھے جاتے ہیں جو سرکاری سفیروں سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی حقیقی سفارت کاری کا حق ادا کرتے ہیں۔ ہم چونکہ خود بھی اوورسیز پاکستانی رہے ہیں لہٰذا ہم بھی خواجہ آصف کے ان ریمارکس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ خواجہ آصف اقامے کی حد تک چند روز کے لیے مصلحتاً اوورسیز پاکستانی بنے۔ انہیں کیا پتا کہ پاکستانی اوریجن کا ہر شخص جہاں کہیں بستا ہو‘ اس کی آنکھ اپنے نشیمن پاکستان پر رہتی ہے اور اس کے دل کی ہر دھڑکن میں پاکستان کی یاد شامل ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں