مسلمان دنیا کے کسی ملک میں بستا ہو‘ وہ مسلم ملک کا باسی ہو یا کسی غیرمسلم ریاست کا باشندہ ہو‘ وہ صاحبِ علم ہو یا کم علم‘ وہ باعمل ہو یا بے عمل مگر ایک بات یقینی ہے کہ قرآن مجید اور ذاتِ مصطفیﷺ کے ساتھ اس کی وابستگی دنیا کی ہر شخصیت اور ہر شے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
قارئین کرام کو یاد دلا دوں کہ عین عیدالاضحی کے روز جب مسلمان سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد میں نماز ادا کرکے باہر آ رہے تھے تو ایک بدبخت قرآن پاک کو نذرِ آتش کر رہا تھا۔ وہ ''آزادیٔ اظہار‘‘ کے نام پر اس مذموم حرکت کیلئے مقامی عدالت سے اجازت نامہ لایا تھا اور اس ملعون کی حفاظت کیلئے وہاں پولیس بھی موجود تھی۔ 37سالہ جس شخص نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی‘ اس انتہا پسند کا نام سلوان مومیکا ہے۔ اس دلخراش اور قابلِ مذمت واقعہ پر سارا عالمِ اسلام سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان میں احتجاج قدرے تاخیر سے شروع ہوا۔ 6جولائی جمعرات کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں قرآن کی بے حرمتی پر شدید احتجاج کیا گیا اور ایک بھرپور قرارداد کے ذریعے سویڈن کی حکومت کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اس طرح کے واقعات کا سدّباب کرے۔ جمعۃ المبارک کو سارے پاکستان میں یومِ تقدیسِ قرآن منایا گیا اور کتابِ مبین کی بے حرمتی کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ یورپ و امریکہ میں بھی مسلمانوں نے سویڈن والے واقعہ کی مذمت میں بھرپور ریلیاں نکالیں۔ کئی یورپی اور امریکی شہروں میں غیرمسلموں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور اظہارِ یکجہتی کیا۔
گزشتہ چند دہائیوں سے مغربی دنیا میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ مغربی حکومتوں کی چشم پوشی سے ہی نہیں بلکہ ان کے باقاعدہ اجازت ناموں سے ہو رہا ہے۔ کئی سالوں سے امریکہ اور بعض یورپی ممالک بالخصوص ہالینڈ‘ سوئٹزر لینڈ‘ فرانس‘ آسٹریا اور ڈنمارک و سویڈن میں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مغربی حکومتوں نے بے لگام آزادیٔ اظہار و احتجاج کے تحفظ کے نام پر اپنے شہریوں کو اربوں مسلمانوں کے جذبات کے آبگینے چکنا چور کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جنوری 2023ء میں ڈنمارک کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت کے لیڈر راسموس پالوڈن نے سویڈن کے شہر سٹاک ہوم ہی میں ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن مجید کے نسخے جلائے۔ پالوڈن کے پاس بیک وقت ڈنمارک اور سویڈن کی قومیت ہے۔ اس سے پہلے وہ کوپن ہیگن کی مسجد کے سامنے یہ فعل شنیع انجام دے چکا تھا۔
قبل ازیں امریکی فوج کے سپاہی قرآن پاک کی بے حرمتی گوانتاناموبے اور افغانستان میں کر چکے تھے۔ یہ سب کچھ امریکی حکومت کے سائے تلے ہی ہوا تھا۔ اگرچہ امریکی حکومت کا عوامی و دستوری موقف یہ ہے کہ وہ تمام ادیان و مذاہب کی تعلیمات و مقاماتِ مقدسہ اور اُن کی محترم شخصیات کا احترام کرتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہودیوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والے حق گو صحافیوں کے ساتھ امریکہ میں کیا سلوک ہوتا ہے۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والی امریکی حکومت اس ڈبل سٹینڈرڈ پر کیوں عمل پیرا ہے‘ اس کا سبب بڑا واضح ہے کہ یہودی تعداد میں تھوڑے مگر علمی و مالی طور پر بہت مضبوط ہیں جبکہ مسلمان تعداد میں بہت زیادہ ہونے کے باوجود علمی اور سیاسی طور پر بہت کمزور ہیں۔ قوموں کی اس کمزوری کو مرشد اقبال نے جرم قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اگر جنوری 2023ء میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعات پر مسلمانوں کی طرف سے شدید ردِعمل کا اظہار کیا جاتا تو پھر جون 2023ء میں عین عیدالاضحی کے روز سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر یہ مذموم حرکت نہ دہرائی جاتی۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت انگیز کارروائی کیوں کی جاتی ہے؟ ہماری رائے میں اس کے دو اسباب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ مغربی سائیکی میں ابھی تک صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے نقوش موجود ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ چند اشخاص کے انفرادی فعل کو مسلمانوں کیساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں کو انتہا پسندی کا ڈراؤنا لباس پہنایا گیا۔ اگرچہ یہ اثرات تیزی سے کم بھی ہو رہے ہیں اور مغرب میں قرآن مجید سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ امریکی پروفیسر سارہ چرچ ویل نے کتابوں کے بارے میں ایک نہایت فکر انگیز بات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: ''کتابیں انتہا پسندوں کی دشمن ہوتی ہیں‘‘۔
مغرب والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خدا کی آخری کتاب قرآن مجید اور خدا کے آخری نبی محمد مصطفیﷺ مسلمانوں کے لیے عزیز ترین مقدسات ہیں۔ یہ کتابِ مقدس اور نبی ٔ مہرباںﷺ مسلمانوں کو اپنی جانوں سے بھی عزیز تر ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کو تڑپانے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے انہی مقدسات کی حرمت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان دل خراش اور دل آزار واقعات کے انسداد کے لیے مسلمانوں کی دو نکاتی پالیسی ہونی چاہیے۔
ان حرکات کے انسداد کا مؤثر ترین طریقہ تو یہ ہے کہ او آئی سی کے فورم سے مسلمان قیادت مغربی حکومتوں کو یہ باور کرائے کہ شخصی آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے جذبات مجروح کیے جائیں اور ان کی مقدس ترین کتابوں اور محبوب ترین ہستیوں کی توہین کی جائے۔ اس لیے مغرب کی ''آزادیٔ اظہار‘‘ کا دوسروں پر سنگ باری کے لیے قانونی ''جواز‘‘ کا خاتمہ کیا جائے۔
گزشتہ تین چار روز سے اسرائیلی فضائی اور زمینی فوجیں فلسطین کے مغربی کنارے پر مسلسل بمباری کر رہی ہیں۔ اب تک بارہ فلسطینی شہید اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ جنین میں ہر طرف ٹوٹی ہوئی چھتیں‘ ٹوٹی ہوئی دیواریں اور چکنا چور کاریں دکھائی دے رہی ہیں۔ گزشتہ 74برس سے فلسطینیوں کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے مگر پونے دو ارب مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال ان کے عرب بھائی انہیں اپنی زمین پر جینے کا حق نہیں دلا سکے۔
مسلمانوں کے لیے ہماری مجوزہ پالیسی کا دوسرا نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا میں آج کل ''سافٹ پاور‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ سافٹ پاور کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے توپ اور تیر و تفنگ استعمال کرنے کے بجائے نرم خوئی‘ دل جوئی اور تالیفِ قلب سے کام لیا جائے۔ دوسروں کو اپنے موقف کی صداقت کے بارے میں نرمی سے دلائل کے ساتھ قائل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مغربی دنیا کے قدیم و جدید سکالروں کے قرآن کریم کی حقانیت اور محمد عربیﷺ کی سیرت و شخصیت کے بارے میں ان کی تحریروں اور بیانات کو اجاگر کریں۔
آج کی ''سافٹ پاور‘‘ کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ النحل میں پہلے ہی ارشاد ربانی موجود ہے۔ ''اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ‘‘۔ مجوزہ دو نکاتی پالیسی کے تحت مسلمان حکومتیں او آئی سی کے فورم سے متحد ہو کر یورپ کی حکومتوں کو سٹرانگ میسج دیں کہ وہ ''فریڈم آف سپیچ‘‘ کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ فی الفور بند کرائیں وگرنہ ان سے اقتصادی و سفارتی مقاطعہ کیا جائے۔ دوسری طرف مسلمان سکالرز اور دانشور اہلِ مغرب کو حرمتِ قرآن اور سیرتِ سرورِ عالمﷺ کے بارے میں حکمت اور اچھی نصیحت سے آگاہ کریں۔