آن لائن آدم خور

وہ ایک 42برس کا معزز سفید پوش شخص تھا۔ لین دین کا دیانت دار‘ محلے میں عزت دار۔ ہر کوئی اس کا احترام کرتا تھا۔ پھر اچانک اس کی ملازمت ختم ہو گئی۔ بے روزگاری کی جان لیوا اذیت میں زندہ رہنے کے لیے وہ مسلسل چھ مہینوں تک ہاتھ پاؤں مارتا رہا اور گھر کے اثاثوں کو فروخت کرتا رہا۔ پھر نوبت فاقوں تک آ گئی‘ مالک مکان نے اس کا سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکنے اور پولیس بلانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس کے دو نہایت ذہین بیٹے ہیں جن کی فیسوں کی ادائیگی کئی ماہ سے رکی ہوئی تھی۔
ان حالات میں اس مجبور شخص نے اپنے موبائل فون پر ایک آن لائن قرضہ ایپ کا اشتہار دیکھا۔ ایپ میں معمولی شرحِ سود پر 90 دنوں کے لیے قرضے کا اشتہار تھا۔ اشتہار کی زبان بڑی ہمدردانہ قسم کی تھی۔ ڈوبتے ہوئے شخص کو ایپ کا اشتہار بہت بڑا سہارا لگا۔ اس نے 50 ہزار کے قرضے کے لیے آن لائن درخواست دے دی مگر ہر طرح کی شخصی اور خاندانی معلومات اور ٹیلی فون نمبر لینے کے بعد ایپ والوں نے اسے کئی روز کے بعد صرف 13ہزار روپے کا قرضہ دیا۔یہ ہمدردانہ اشتہار دراصل ایک سنگدلانہ جال تھا۔ 90دن نہیں‘ صرف چند دنوں کے بعد 13ہزار روپے کا قرضہ ایک لاکھ ہو گیا۔ اس قرض کی واپسی کے لیے ''ایزی لون‘‘ نامی ایپ نے سفید پوش شخص کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ مجبور شخص نے ''بھروسا‘‘ نامی ایک اور قرضہ ایپ پر پچاس ہزار کے قرضے کے لیے اپلائی کیا۔ چند دنوں کے بعد ہزار طرح کی ضمانتیں لے کر سفید پوش شخص کو صرف 22ہزار روپے دیے گئے اور ایک ہی ہفتے کے بعد قرضے کا تقاضا شروع کر دیا گیا۔
حیران کن طور پر محض چند ہفتوں میں ''بھروسا‘‘ آن لائن ایپ نے 22 ہزار روپے کی رقم کو سود در سود کے اضافوں کے ساتھ 7لاکھ بنا دیا۔ یہ دیکھ کر مجبور شخص کی ہمت ٹوٹ گئی‘ اس کے اعصاب شل ہو گئے‘ اس کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ماؤف ہو گئیں۔ کسی عزیز دوست یا رشتہ دار کے آگے ہاتھ پھیلانے پر اس کی سفید پوشی کسی طور آمادہ نہ ہوئی۔ جب بے بس شخص نے چاروں طرف سے اپنے آپ کو تاریکیوں‘ مایوسیوں اور دھمکیوں میں گھرا ہوا پایا تو اس نے ان مصائب و مشکلات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے ایک واٹس ایپ میسج ریکارڈ کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ واٹس ایپ میسج میں اس نے کہا کہ میں ایک اچھا بیٹا ثابت ہو سکا نہ ایک اچھا باپ اور نہ ہی ایک ہمدرد و غمخوار شوہر۔ اس نے اپنے پیاروں سے معافی طلب کی اور خدا کے حضور پیش ہو گیا۔
مجھے اتنا تو معلوم تھا کہ سود خور جونکیں غریب بستیوں میں گلی گلی پھرتی ہیں۔ یہ بیروزگاری‘ بیماری اور حاجت مندی کے ہاتھوں مجبور جاں بلب لوگوں کو سود در سود کے چنگل میں پھنسا کر ان کا خون نچوڑتی ہیں۔ سود خوری کا یہ مکروہ دھندہ بڑے چھوٹے شہروں حتیٰ کہ دیہات تک پھیلا ہوا ہے۔آن لائن قرضہ ایپس کے بارے میں معلومات یکجا کیں تو ہوشربا نتائج سامنے آئے۔ آن لائن قرضوں کا شکار ہونے والوں کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں‘ کروڑوں میں ہے۔ کئی سالوں سے اس دھندے کا شکار ہونے والے اشخاص کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ پاکستان کے قانون کے مطابق سود لینا بدترین قسم کا جرم ہے جس کی کم از کم سزا تین سال قید بامشقت ہے۔ کئی آن لائن قرضہ ایپس سکیورٹی ایکسچینج کی طرف سے منظور شدہ ہیں۔ ان آدم خور قرضہ ایپس کو انسانی شکار کے اجازت نامے دینے کے بعد کوئی ان مظلوم لوگوں کا پرسان حال نہیں ہوتا اور نہ کوئی آدم خوروں سے پوچھنے والا ہے کہ 22ہزار روپے کا قرضہ محض پانچ‘ چھ ہفتوں میں 7لاکھ روپے کیسے ہو جاتا ہے۔ان ایپس کا شکار ہونے والے بہت سے لوگوں کے بقول انہوں نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل سے گزشتہ دو تین برس کے دوران رجوع کیا مگر کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس دلدل میں پھنسنے والے بعض نیک نفس لوگوں نے سوشل میڈیا پر باخبر رکھنے کی مہم شروع کی تاکہ اور لوگ اس ہولناک چنگل کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔
ہمارے ہاں ایک حیران کن تغافل کا دفتری نظام رائج ہے۔ یہ باخبر ادارے اس وقت تک خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں جب تک کہ کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ رونما نہیں ہو جاتا۔ لوگ غیرقانونی طور پر یورپی ملکوں کو جاتے ہیں تو جاتے رہیں‘ غیرقانونی طور پر ایجنٹ ویزوں کے نام پر نوجوانوں کو لوٹتے ہیں تو لوٹتے رہیں اور مکمل دستاویزات کے بغیر لوگ تلاشِ روزگار میں ملک سے باہر جاتے ہیں تو جاتے رہیں مگر ان اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب روزگار کے متلاشیوں کی کشتیاں ڈوبتی ہیں‘ جب بھوکے پیاسے نوجوان بحری جہازوں میں دم توڑتے ہیں اور جب سینکڑوں پاکستانیوں کے سمندر میں ڈوبنے کی خبریں پاکستانی و عالمی میڈیا پر شہ سرخیوں کی صورت میں شائع ہوتی ہیں تب ہمارے باخبر اور احتسابی ادارے چونک کر جاگتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ تین چار برس سے آن لائن قرضہ ایپس کا شکار ہونے والے مظلوم و مجبور افراد کئی اداروں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے مگر کہیں داد رسی نہ ہوئی۔ اب ایک شخص نے خودکشی کی اور اس کی داستانِ الم میڈیا پر سامنے آئی اور اس ٹریجڈی سے ملتی جلتی سینکڑوں داستانیں سامنے آئیں تو متعلقہ ادارے کچھ حرکت میں آئے ہیں۔
تین چار روز قبل جماعت اسلامی لاہور نے غیرسودی نظامِ معیشت اور اسلامک بینکنگ کے بارے میں ایک سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار سے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مجیب الرحمن شامی اور ڈاکٹر راغب نعیمی وغیرہ نے خطاب کیا۔ اپنی باری پر میں نے جماعت اسلامی اور دیگر علمائے کرام کو مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد فیڈرل شریعت کورٹ سے سودی بینکنگ کے خاتمے کی جنگ جیت لی ہے۔ راقم الحروف نے علمائے کرام اور اہلِ علم و قلم کو متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ بدترین مہنگائی کی چکی میں پسنے والے ان کروڑوں غریبوں اور سفید پوشوں کی خبر بھی لیں کہ جو بے روزگاری‘ بیماری اور پریشانی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گلی گلی پھرنے والے سود خور بھیڑیوں اور آن لائن لون دینے والے آدم خوروں کے نرغے میں آ کر اپنی زندگی گنوا بیٹھتے ہیں یا زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی اس بے بسی اور کسمپرسی کی ذمہ داری حکمرانوں‘ سیاسی جماعتوں‘ علمائے کرام‘ تاجروں اور سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے۔
میں نے حضراتِ علمائے کرام کو نہایت درد مندی و دل سوزی کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے متوجہ کیا کہ جب کوئی شخص بے بسی کی آخری سٹیج پر پہنچتا ہے تو وہ کہاں جائے؟ جدید فلاحی ریاستوں میں تو بے روزگار اور پریشان حال شہری کی مدد کرنے والے کئی ادارے موجود ہوتے ہیں۔میں نے علما سے درخواست کی کہ وہ مسجدوں کو قرونِ اولیٰ کی طرح فلاحی مراکز بنائیں اور سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کے قیام کو یقینی بنائیں تاکہ عوام کی کوئی تو خبر گیری کرے۔ خدارا! خلقِ خدا کو سود خور بھیڑیوں اور آدم خوروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں