اُمّ الخطا

ای ایم فاسٹر انگریزی کے ممتاز مصنف تھے۔ انہوں نے اپنے ناولوں‘ کہانیوں اور مضامین کی بنا پر دنیا میں شہرت پائی۔ ایک زمانے میں ہم نے انہیں ڈوب کر پڑھا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا تھا ''اگر مجھے کبھی یہ چننا پڑے کہ میں اپنے ملک کو دھوکا دوں یا اپنے دوست سے غداری کروں تو میں اپنے اندر یہ خود اعتمادی پاتا ہوں کہ میں دوست کے بجائے اپنے ملک کو دھوکا دوں گا‘‘، تاہم سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے اعظم خان نے ملک سے غداری نہیں کی اور اپنے دوست سے بے وفائی کو ترجیح دی۔
تقریباً ایک ماہ سے لاپتا اعظم خان نے اسلام آباد کے ایک مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام تر حقائق چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔ سابق وزیراعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سے کہا تھا کہ اب دیکھنا میں سائفر کو اپوزیشن اور سلامتی کے اداروں کے خلاف کیسے استعمال کرتا ہوں۔ 8 مارچ 2022ء کو سیکرٹری خارجہ نے پرنسپل سیکرٹری کو ایک امریکی شخصیت کے حوالے سے لکھا گیا وہ سائفر دیا جو امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو ارسال کیا تھا۔
سابق وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی روایات و آداب کے مطابق اس تحریک کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بجائے امریکی سائفر کا سہارا لے کر عوام کو جذباتی انداز میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اپوزیشن اور مقتدر حلقے امریکی ایما پر ان کے خلاف سازش کرکے انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ سائفر کی ساری کہانی قارئین کو یاد ہوگی۔ میں کئی روز سے غور و فکر کر رہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی محض چند برس میں 26 نشستوں سے زقند لگا کر قومی اسمبلی میں ملک کے مالک و مختار کیسے بن گئے تھے؟ تاہم میرے لیے یہ سوال اس سے بھی اہم تھا کہ عوام کی زبردست حمایت اور ایک پیج پر ہونے کی شہرت حاصل کر لینے کے باوجود سابق وزیراعظم محض پونے چار برس میں تیز رفتاری کے ساتھ روبہ زوال کیسے ہوئے اور پستی کی اتھاہ گہرائی میں کیوں جا گرے؟ ان کی پارٹی کی اکثریت انہیں کیوں چھوڑ گئی ہے؟ ایسی بلندی‘ ایسی پستی کا یہ کیا کھیل تھا؟ آج کے کالم میں ہم اسی سوال کا کافی و شافی جواب ڈھونڈنے اور اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
بعض لوگ مجھ پر یہ تنقید کر سکتے ہیں کہ آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی شخصیت اور ان کی غلطیوں کی اس وقت نشاندہی کیوں نہ کی جب ان کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ ہم نے اس وقت بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر خان صاحب کو تاریخ کا سبق یاد دلانے کی کوشش کی مگر اس وقت وہ اپنوں کی سننے کو تیار نہ تھے‘ ہم جیسے غیروں کی کیا سنتے۔
میری کئی دنوں کی سوچ بچار کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کھیل کے میدان سے کوچۂ سیاست میں کیوں آئے؟ جیسا کہ ان کی اپنی تقریروں میں بار بار کہا گیا کہ وہ اس قوم کی قسمت بدلنے آئے تھے۔ انہوں نے تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ دراصل وہ ایسے مردِ از غیب تھے جس کا اس قوم کو کئی دہائیوں سے انتظار تھا۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ 2011ء سے لے کر 2022ء تک کے گیارہ برس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی زبان سے گاہے گاہے ایسے مقاصد کا اظہار تو ہوتا رہتا تھا مگر یہ وہ زینہ نہ تھا جو اُن کے دل تک اترتا ہو۔
دلوں کا حال تو علام الغیوب کو معلوم ہوتا ہے مگر انسان کی کارکردگی وہ آئینہ ہے جس میں اس کے دل کا احوال بڑی حد تک نظر آ جاتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کسی عظیم مقصد یا خدمتِ خلق کے کسی آسمانی مشن کی تکمیل کے لیے سیاست کے اکھاڑے میں نہیں اترے تھے۔ دراصل کرکٹ سے انہیں گلیمر اور شہرت ملی تھی۔ اگر وہ ریٹائرڈ زندگی گزارتے تو وہ کوچۂ گمنامی میں چلے جاتے۔ یہ انہیں گوارا نہ تھا۔ کسی زمانے میں انہیں سیاست سے بالکل دلچسپی نہ تھی مگر انہیں ان کے کچھ دوستوں اور قدر دانوں نے سمجھایا کہ کرکٹ سے بڑھ کر گلیمر اور شہرت انہیں دنیائے سیاست میں ملے گی۔ یہ بات ان کے دل کو لگی اور بقول شاعر ؎
تجھ سے بچھڑ کے صحبتِ گل میں ملا قرار
اس میں بھی کچھ تو ہے‘ تری بو باس کی طرح
ہر انسان کی طرح چیئرمین پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت سی خطائیں تھیں۔ مگر ان کی جس خطا نے انہیں زوال کے اس انجام سے دوچار کیا وہ کیا تھی؟ یا دوسرے الفاظ میں ان کی اُمّ الخطا کیا تھی؟ چیئرمین تحریک انصاف کے ہر غلط فیصلے کے پیچھے یہی خطا تھی۔ وہ کوچۂ سیاست میں آ ہی گئے تھے تو پھر انہیں آئیڈیل برطانوی پارلیمانی سیاست دانوں جیسے طرزِ عمل کو اپنا لینا چاہیے تھا۔ کھیل کے بارے میں تو چیئرمین پی ٹی آئی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ کھیل کے دوران ان قواعد وضوابط سے سرمو انحراف کی گنجائش نہیں ہوتی۔
تحریک انصاف کے بانی نے حصولِ اقتدار کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز طریقے کو استعمال کیا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی عوامی قوت کتنی ہے اور غیبی قوت کتنی۔ انہیں ان قوتوں پر بڑا ناز تھا لہٰذا وہ سمجھتے تھے کہ اب کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی زعم میں انہوں نے اپوزیشن کے اکثر قائدین کو پسِ دیوارِ زنداں پہنچا دیا۔ آگے چل کر جب ان سے ملک نہ چل سکا تو انہیں لانے والوں کا ماتھا بھی ٹھنکا۔ ادھر اپوزیشن والوں کو بھی احساس ہوا کہ خان تو انہیں جینے کا حق بھی دینے کو تیار نہیں اور وہ اپنے تئیں اگلے دس پندرہ برس برسراقتدار رہنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ تب متحد ہو کر اپوزیشن والے بھی میدان میں آ گئے۔ اس وقت تک شومئی قسمت سے سابق وزیراعظم کا ایک صفحے پر ہونے کا زعم بھی ٹوٹ چکا تھا۔
اب آئیے اس اُمّ الخطا کی طرف جس نے خان کو اس انجام سے دوچار کیا۔ وہ خود مرکزیت یا اَنا پرستی کا شکار تھے۔ وہ کسی سے مشورہ نہ کرتے تھے۔ کابینہ وغیرہ کی رسمی مجالس میں اوّل تو اختلافِ رائے کی کوئی جرأت نہ کرتا تھا‘ اگر کوئی کرتا تو اسے سابق وزیراعظم کے غیظ و غضب کا شکار ہونا پڑتا۔ سیاست میں آ کر انہوں نے سیاسی طور طریقے اختیار نہ کیے۔ انہوں نے ہر کام اپنی من مانی‘ دھونس و دھاندلی اور طعنہ زنی سے نکالنے کی کوشش کی۔ تحریک عدم اعتماد پارلیمانی سیاست کا ایک جزو لاینفک ہے مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا اور اس کے لیے اپنے سپیکروں سے خلافِ قاعدہ رولنگ دلوائی۔ پھر انہوں نے سائفر کا ڈرامہ رچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اب گھر کے بھیدی کے ذریعے اس کی حقیقت بھی طشت ازبام ہو گئی ہے۔چودھری پرویز الٰہی‘ پرویز خٹک اور خود ان کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدرِ پاکستان عارف علوی انہیں سمجھاتے رہ گئے کہ ہماری چار صوبوں میں حکومت ہوگی‘ سینیٹ میں ہماری اکثریت ہوگی‘ صدرِ پاکستان ہمارا ہوگا۔ اگر آپ نے دو صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں تو ہم ٹکے ٹوکری ہو جائیں گے مگر چیئرمین تحریک انصاف نے کسی کی ایک نہ سنی۔ پھر 9مئی کے واقعات نے پارٹی کی کمر توڑ دی۔
یقین کیجئے میں نے کم از کم دس خواتین و حضرات‘ جن میں پیرو جواں شامل تھے‘ سے پوچھا کہ چیئرمین تحریک انصاف کے زوال کا سب سے بڑا سبب کیا ہے تو سب کا ایک ہی جواب تھا؛ ان کے زوال کا بڑا سبب ان کی اَنا ہے۔ خان صاحب کی اَنا پرستی نے ان کا اپنا مستقبل ہی تباہ نہیں کیا بلکہ پارٹی کو بھی تباہی و بربادی سے دوچار کر دیا ہے۔ اَنا پرستی ہی ان کی سب سے بڑی خطا تھی‘ یہی ان کی امّ الخطا تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں