سلطان کیا جواب دے گا؟

جب کوئی روح کو لرزا دینے اور دل کو تڑپادینے والا واقعہ رونما ہوتا ہے تو میرے سامنے ایک بار پھر یہ سوال پوری شدت سے آن کھڑا ہوتا ہے ‘کیا ہم انسان کہلانے کے مستحق ہے؟
تیرہ سالہ معصوم بچی جو اسلام آباد کے ایک جج کے گھر میں ملازمہ تھی‘ اس کی روح فرسا کہانی اس کے باپ کی زبانی سنیے ''ہم بچی سے ملنے کئی ماہ بعد جج کے گھر گئے تو ہمیں دیکھ کر بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے بتایا کہ جج کی بیوی روزانہ بدترین طریقے سے اسے پیٹتی ہے‘‘۔ باپ نے روتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ بچی کے سر میں ایک نہیں کئی زخم تھے جن سے خون رِس رہا تھا ۔ بچی کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر دو بڑے فریکچر تھے۔ اس کی آنکھیں‘ ہونٹ اور ناک سوجے ہوئے تھے۔
بچی کی اس حالت میں اس کے والدین سرگودھا ڈسٹرکٹ ہسپتال لے آئے۔ سرگودھا پولیس کے ڈی پی اونے فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے بچی کو پولیس کی ایمبولینس میں لاہور جنرل ہسپتال بھجوایا کیونکہ بچی کے سر پر بہت چوٹیں تھیں۔ میں نے اپنے ذرائع سے لاہور جنرل ہسپتال سے خبر لی تو معلوم ہوا کہ بچی کے چہرے ‘سر اور جسم کے دوسرے حصوں پر گہرے زخموں کے بہت سے نشانات ہیں‘ صرف بچی کے سر پر بارہ شدید نوعیت کے زخم ہیں۔ سینئر ڈاکٹروں کی ٹیم کی نگرانی میں بچی کے مختلف ٹیسٹ کیے جارہے ہیں جن کے نتائج کی روشنی میں ہیڈ سرجری کا فیصلہ ہو گا۔گزشتہ روز ڈاکٹر بچی کی حالت تشویشناک قرار دے چکے ہیں۔
بچی نے بتایا کہ اس پر چوری کا الزام لگا کر شدید تشدد کیا گیا اور اسے کمرے میں بند کرکے کھانا بھی نہیں دیا گیا۔ ایسا وحشیانہ سلوک کیا کوئی انسان کرسکتا ہے؟ اسلام آباد پولیس نے کیس کی ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کیا مگر سرگودھا پولیس کی بھجوائی گئی رپورٹ کی بنا پر انہیں یہ مقدمہ ضبطِ تحریر میں لانا پڑا۔ مجھے معلوم نہیں کہ سول جج اور اس کی بیوی گرفتار ہوئی یا نہیں۔ اب جج صاحب کی منطق ملا حظہ فرمائیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمہ بچی کی ماں نے اس پر تشدد کیا اور اسے مارا پیٹا۔ کیا صرف ایک روز میں مظلوم بچی کی ماں نے اس کے بازو اور ٹانگیں توڑ دیں۔ اس کے سرپر بارہ زخم لگا دیے اور ان میں کیڑے ڈال دیے؟ اس سنگدل طرزِ استدلال سے اندازہ لگالیں کہ کروڑوں بلکہ اربوں کے اخراجات سے قائم تربیتی اکیڈمیوں میں اعلیٰ افسران کو کیا تربیت دی جارہی ہے۔ شاید قارئین کو یاد ہوکہ اس سے ملتا جلتا واقعہ2017ء میں پیش آیا تھا جب ایک ایڈیشنل جج اور اس کی بیوی نے دس سالہ ملازمہ بچی کے ہاتھ پائوں اور جسم کے دوسرے حصوں کو گرم لوہے سے بار بار جلایا‘ حتیٰ کہ اس کے چہرے پر بھی بدترین تشدد کیا گیا۔2017ء کے کیس میں جج راجہ خرم اوراس کی بیوی پر یہ غیر انسانی جرائم ثابت ہوگئے اور انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین سال کی قید بامشقت دی تھی۔ میں حکمرانوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا اعلیٰ عہدوں پر فائز انسانوں کے پردوں میں ان حیوانوں کی نفسیات پر کوئی تحقیقی کام ہوا ہے اور ان رویوں کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
2020ء میں گھروں میں کام کرنے والی ان بچیوں پر ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی جس کے مطابق ان مظلوم ومجبور بچیوں پر دس سالوں کے دوران جسمانی تشدد‘ جنسی زیادتی حتیٰ کہ قتل تک کے 140واقعات سامنے آئے اور جو واقعات سامنے نہیں آئے ان کی تعداد کہیں ز یادہ ہوگی۔
ایک خبر یہ بھی سامنے آئی کہ گھریلو ملازمہ بچی پر تشدد کے تازہ ترین واقعے میں ملوث جج اور اس کی بیوی نے لاہور کے ہسپتال میں زخموں سے چُور بچی کے والدین سے '' مک مکا‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ بچی کے والدین نے اس طرح کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم بچی پر ڈھائے گئے مظالم کا سودا نہیں کریں گے۔ اب آپ جانیں اور قانون جانے۔ اس واقعے میں جج کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا کہ اس کی بیوی کا ۔کیا جج کو معلوم نہیں کہ عدالت عظمیٰ کی طیبہ کیس میں رُولنگ کے مطابق 16برس سے کم عمر بچی کو ملازمہ نہیں رکھا جاسکتا ۔ گھر میں جج کی بیوی اتنی مار پیٹ کررہی ہے اور بچی پر قیامت ڈھارہی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جج کو اس کی خبر نہ ہو۔کیا جج کو معلوم نہیں کہ اگر کوئی ملازم یا ملازمہ چوری کرے تو اس کیس کو پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے نہ کہ اس پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ مظلوم بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ بچی نے کوئی چوری نہیں کی تھی۔
کسی زمانے میں ہم مہذب تھے آج جو مہذب ہیں ذرا اُن کا ایک واقعہ سن لیجئے۔ ایک مصری خاندان کے کئی افراد کو امریکن امیگریشن ملی تو وہ دو نمبر کارروائی سے ایک ملازمہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں وہ ملازمہ سے دن رات کام لیتے۔ امریکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے الگ کھانا دیتے اور شدید سردی کے موسم میں ہیٹر والے کمرے کے بجائے انہوں نے اسے گیراج میں ڈالا ہوا تھا۔ جب پڑوسیوں کے علم میں یہ صورتحال آئی تو انہوں نے ''ڈال‘‘ کو اطلاع دی۔ ''ڈال‘‘ سے مراد ڈیپارٹمنٹ آف لیبر ہے۔ یہ محکمہ کمپنیوں میں ہی نہیں گھروں میں بھی کام کرنے والے ملازمین کے حقوق‘ اُن کے معاوضے اور دیگر سہولتوں کا مکمل تحفظ کرتا ہے۔ اگر کوئی کارخانہ یا گھرانہ قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے تو اس کے خلاف شدید ایکشن ہوتا ہے۔'' ڈال‘‘ نے امریکی شہر میں اس مصری گھرانے پر چھاپہ مارا۔ جب مصری خاندان کے خلاف ملازمہ سے بدسلوکی کے الزامات ثابت ہو گئے تو امریکی عدالت نے اس خاندان کے تمام افراد کی امیگریشن منسوخ کر دی اور انہیں دس برس کی سزا دی جو انہیں امریکی جیلوں ہی میں کاٹنا تھی۔ عدالت کے حکم پر امریکی حکومت نے مصری ملازمہ کو مکمل شہریت دے دی‘ اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اسے انگریزی سیکھنے کے ادارے میں داخل کروایا۔
ہمارے ہاں کم از کم اڑھائی تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ آتی جاتی حکومتوں کو قوم سازی‘ ہر بچے کے تعلیمی تحفظ‘ اُن کی صحت و خوراک اور آبادی کی مناسب منصوبہ بندی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔جب کوئی ایسا روح کو تڑپانے والا واقعہ سامنے آتا ہے تو بعض حکومتی افلاطون نجی محفلوں میں یہ کہتے ہوئے پا ئے جاتے ہیں کہ لوگ کیا کریں انہیں مجبوراً بچوں کو کام پر لگانا پڑتا ہے۔ یہ تو بے وسیلہ لوگوں کی مجبوری ہے مگر ملک کے ہر شہر اور دنیا کے اہم ممالک میں اپنے لئے قصر ِسلطانی تعمیر کرنے والے حکمرانوں کی بھی کچھ ذمہ داری ہے یا نہیں؟
یہ بے وسیلہ خاندان اور تعلیم و خوراک سے محروم بچے اسی مملکتِ خداداد پاکستان کے شہری ہیں۔ اس معاملے میں سٹیٹ اور سوسائٹی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے مکمل طور پر غافل ہیں۔ یوں ڈاکٹر اور انجینئر بن سکنے والے بچے بدترین تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمارے آج کے ''سلطان‘‘ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف شدتِ احساسات و جذبات رکھتے ہیں۔ تقریبات کے دوران جب کوئی غمناک واقعہ سنتے ہیں تو اُن کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔
سورۃ التکویر کی آیت 8‘9 کا ترجمہ ان کیلئے پیش کر رہا ہوں۔''اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس گناہ کی وجہ سے قتل کیا گیا؟‘‘ معصوم بچی پر بدترین تشدد اسے زندہ درگور کرنے کے ہی مترادف ہے۔ کل روزِ محشر اگر آج کے '' سلطان‘‘ سے پوچھا گیا کہ تمہاری راجدھانی میں ایک معصوم بچی پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ تم نے اس ظلم کا کیا مداوا کیا تھا؟ تو ''آج کا سلطان‘‘ کیا جواب دے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں