یونیورسٹی سکینڈل: کتنی حقیقت کتنا فسانہ

80ء اور 90ء کی دہائی میں سعودی وزارتِ تعلیم کے ملازم کی حیثیت سے میں بسلسلہ تدریس طویل عرصہ تک طائف میں مقیم رہا۔ اس قیام کے دوران مجھے بہت سے پاکستانی اور عرب اہلِ علم و فضل سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا۔ ان احباب میں ایک پاکستانی بزرگ ڈاکٹر حافظ عبدالحق مرحوم تھے۔ حافظ صاحب کی مقناطیسی شخصیت میں کمال درجے کی مٹھاس تھی۔ وہ موقع کی مناسبت سے قرآن‘ حدیث یا بزرگوں کے اقوالِ زریں سے کوئی ایسا شہ پارہ پیش کرتے کہ سامع اش اش کر اٹھتا۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کسی خبر پر اپنا ردِعمل دینے سے پہلے اس کی تحقیق و تفتیش کر لیا کرو۔ جب بہاولپور کی ایک معروف یونیورسٹی کے بارے میں روح فرسا خبر ملی تو مجھے بھی ہر صاحبِ احساس کی طرح بہت دکھ ہوا‘ تاہم میں نے حافظ صاحب کی نصیحت کے مطابق پہلے مقدور بھر تحقیق کی اور اس ٹریجڈی کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کیا اور پھر قلم اٹھایا۔ اس دوران میرے قارئین کالم کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے۔ گزشتہ چار پانچ روز کے دوران میں نے اعلیٰ تعلیم کی بعض اہم شخصیات اور بہاولپور کے چند واجب الاحترام معززین سے یونیورسٹی سیکنڈل کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ ان رابطوں سے میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ نذرِ قارئین ہے۔
بہاولپور شہر کے ایک علاقے بغداد الجدید میں 20جولائی کو پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کی کہ انہوں نے ناکے پر ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی۔ پولیس نے گاڑی کا تعاقب کرکے اسے روکا۔ گاڑی کے ڈرائیور نے اپنا تعارف میجر (ر) اعجاز شاہ کی حیثیت سے کروایا اور بتایا کہ وہ بہاولپور کی ایک یونیورسٹی میں چیف سکیورٹی آفیسر ہے۔ اسی رپورٹ میں پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گاڑی سے نہایت تباہ کن نشہ آئس اور کئی جنسی ادویات برآمد ہوئیں۔ نیز اعجاز شاہ کے دونوں موبائل فونز سے لڑکیوں کی 5500 قابلِ اعتراض تصاویر اور ویڈیوز بھی ملیں۔ چیف سکیورٹی آفیسر کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی جو مبینہ طور پر یونیورسٹی کی طالبہ بتائی گئی۔ پولیس کی اس رپورٹ نے دنیا بھر میں ہر اہلِ درد پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
21جولائی کے روز جب اعجاز شاہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس نے جج سے ملزم کے پندرہ روزہ ریمانڈ کی درخواست کی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم سے منشیات کی مزید برآمدگی اور قابلِ اعتراض تصاویر اور ویڈیوز اور اس میں ملوث اساتذہ و طلبہ وغیرہ کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہے۔ جج نے صرف تین روزہ ریمانڈ دیا‘ تاہم جب 24جولائی کو مجسٹریٹ کے سامنے ملزم پیش کیا گیا تو پولیس نے پہلے موقف کے برعکس کہا کہ کیس صرف منشیات کا ہے جو برآمد کر لی گئی ہیں۔ اس لیے ہمیں مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں۔ اس پر فاضل مجسٹریٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پہلے آپ نے اتنی بڑی تعداد میں طالبات کی قابلِ اعتراض تصاویر اور اس میں ملوث لوگوں کی بات کی تو اب آپ اس پہلو کو کیوں دبا رہے ہیں؟
جج کی خصوصی ہدایت پر اس کے فیصلے کی ایک کاپی سرکاری طور پر آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان کو ارسال کی گئی تاکہ وہ اس واقعہ کی سو فیصد غیر جانبدارانہ اور عادلانہ تحقیق کروائیں مگر اعجاز شاہ کا اعترافی بیان سامنے آنے اور اس مکروہ کام میں اس کے ساتھ کئی اساتذہ ملوث ہونے کے واقعے کی رازداری کے ساتھ تفتیش ہونی چاہیے اور اگر کوئی کسی دباؤ کے تحت اس تفتیش کو نیا موڑ دینے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنے طور پر متعلقہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب سے رابطے کی کوشش کی تو ان کا فون بند ملا۔ ڈاکٹر صاحب اس واقعے کے چند روز بعد اپنی چار سالہ مدتِ ملازمت پوری کرکے منظر سے غائب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بعض معتبر علمی شخصیات نے مجھے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر اس طرح کے کاموں میں ہرگز ملوث نہ تھے‘ تاہم ان کا رویہ نہایت حیران کن ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اتنا بڑا سیکنڈل آنے کے بعد اس کی پردہ پوشی کی کوشش کی اور کہا کہ ان کی یونیورسٹی کا کوئی ملازم یا استاد ایسے کاموں میں شامل نہیں جبکہ ان کے چیف سکیورٹی آفیسر نے پہاڑ جیسے بڑے اعترافات پولیس کے سامنے کیے ہیں۔ وائس چانسلر صاحب کو تو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ محکمانہ‘ عدالتی اور یونیورسٹی سطح کی تفتیش میں وہ ہر طرح معاونت کریں گے تاکہ ملازمین اور اساتذہ کی صورت میں کالی بھیڑوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ وائس چانسلر صاحب کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ سرکاری ضابطوں اور قاعدوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے بار بار طلب کرنے پر بھی وہاں پیش نہ ہوئے تھے۔ وائس چانسلر صاحب نے عمارت کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باوجود ہزاروں طلبہ و طالبات کو داخلہ دے رکھا تھا جن کی کماحقہٗ کلاسیں نہ ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی موصوف کے خلاف بے ضابطگیوں کا ایک انبار تھا۔ بہاولپور کی اس یونیورسٹی کا منظر عام پر آنے والا اخلاقی بحران ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں کہیں کم یا زیادہ‘ موجود ضرور ہے۔ مذکورہ یونیورسٹی کے مختلف پانچ کیمپسز میں اس وقت تقریباً 70ہزار سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں جن میں تقریباً 35 ہزار طالبات ہیں۔ ان تمام طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ یہ خیال ہی محال اور ناقابلِ یقین ہے کہ اتنے برسوں سے جاری ان قبیح حرکات کی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو کوئی خبر نہ ہوئی ہو۔ اگر وائس چانسلر اس طرح کے واقعات کو مصلحتاً نہ دباتے اور شہر کی اہم سیاسی و سماجی شخصیات کے دباؤ کی پروا کیے بغیر ایسے طلبہ و اساتذہ اور ملازمین کے خلاف بروقت ایکشن لیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
ہم ایک یونیورسٹی میں طلبہ امور کے نگران رہے ہیں۔ ایسا کوئی بھی واقعہ ہمارے علم میں آتا تو وی سی صاحب کی اجازت سے فی الفور انکوائری کمیٹی تشکیل دی جاتی اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق متفقہ یا اکثریتی فیصلہ نافذ کر دیا جاتا۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ اپنے عروج پر ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پولیس کی ایف آئی آر میں ہی اتنا بڑا ڈرگ اور جنسی ہراسگی کا سیکنڈل عام ہو گیا۔ تاہم میرا اندازہ ہے کہ اس قبیح دھندے میں ہزاروں نہیں‘ سینکڑوں بھی نہیں بلکہ بہت کم تعداد میں طالبات ملوث ہوں گی۔ اس سارے سکینڈل میں کچھ نہ کچھ حقیقت تو یقینا موجود ہے مگر زیبِ داستاں کے لیے فسانے کو بہت بڑھا دیا گیا ہے۔
اس وقت کئی تحقیقاتی کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ پنجاب کی تشکیل دی گئی کمیٹی۔ ایک قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کی ہدایت پر چیئرمین ایچ ای سی کی وضع کردہ پاور فل کمیٹی اور اگر پولیس کی کوئی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی سامنے آتی ہے تو وہ بھی الگ تفتیش کرے گی۔ اس موقع پر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کا یہ بیان نہایت اطمینان بخش ہے کہ شفاف انکوائری کے بعد اساتذہ‘ بڑے عہدوں پر فائز یونیورسٹی افسران یا جو بھی مجرم پائے گئے انہیں سر عام قرار واقعی سزا دی جائے۔
ڈاکٹر مختار احمد نے ایک اور بھی نہایت اہم بات کی ہے کہ وہ تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق تشکیل دیں گے جس کی پابندی ہر سرکاری و پرائیویٹ یونیورسٹی پر لازم ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب طلبہ و طالبات کے لیے باوقارڈریس کوڈ بھی وضع کریں۔ امید ہے چیئرمین ایچ ای سی اپنے قول پر قائم رہیں گے اور بچیوں کے لیے محفوظ درس گاہوں کو یقینی بنائیں گے اور اس سلسلے میں کسی دباؤ کی پروا نہیں کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں