پاکستان، خلیجی اخبار کی نظر میں

لگتا ہے جیسے اچھی خبریں تو ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ چند روز قبل باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان دینی و روحانی اجتماع منعقد ہوا۔ اس جلسے میں علاقے کے قائدین‘ کارکنان اور مرشد حضرت ڈاگئی بابا جیؒ کے معتقدین کی بہت بڑی تعداد جمع تھی۔ باجوڑ کے ہر دلعزیز سینیٹر مولانا عبدالرشید صاحب کے جلسہ گاہ میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک بدبخت بارودی جیکٹ پہنے ہوئے آگے بڑھا اور اس نے سٹیج کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس نہایت زور دار دھماکے نے جلسہ گاہ میں موجود انسانوں کے چیتھڑے اڑا دیے۔ تقریباً پچاس سے اوپر قائدین و کارکنان نے جامِ شہادت نوش کیا۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے جن میں پھول سے بچے بھی شامل تھے۔ آگ میں یہ پھول دیکھ کر دل زخموں سے چور ہے۔پُرامن‘قانون پسند اور آٹومیٹک انداز میں دستور کی پابندی کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے والے ملکوں کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ہم عالمی سازشوں اور داخلی افراتفری کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ داعش نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ داعش پاکستان میں دہشت گردی کیوں کر رہی ہے اور بالخصوص جمعیت علمائے اسلام کو نشانہ کیوں بنا رہی ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں مگر اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس کے بارے میں کسی اور وقت تفصیلاً اظہارِ خیال کروں گا۔اس وقت تو ہم شہادت کا مرتبہ پانیوالوں کی بلندیٔ درجات اور زخمیوں کی فوری صحت یابی کیلئے دست بدعا ہیں۔ ہم نے مولانا فضل الرحمن سے رابطے کی کوشش کی تاکہ براہِ راست اُن سے تعزیت کر سکیں مگر مولانا اس دنیا سے رخصت ہونے والوں کے اہلِ خانہ کو دلاسا دینے اور زخمیوں کی عیادت میں مصروف تھے۔ اللہ مولانا اور جمعیت کے دیگر قائدین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ عطا کرے‘ آمین!
29جولائی کے روز ایک خلیجی اخبار مڈل ایسٹ آئی نے اپنے صفحات میں نہایت نمایاں طریقے سے ایک سرخی جمائی جس نے ساری دنیا میں پاکستانیوں کو تڑپا دیا۔اخبار کی سرخی تھی''Pakistan for Sale‘‘۔ اس رپورٹ کی تفصیل میں لکھا گیا کہ پاکستان پہاڑ جتنے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر کراہ رہا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اب پاکستان نے ان قرضوں سے نجات کیلئے اپنی بندرگاہوں‘ ہوائی اڈوں اور ٹیلی کام کمپنیوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بدھ کے روز پاکستان نے ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہماری حکومت کراچی کی بندرگاہ پر بعض نئی کارگو تعمیرات اور سامان کی وصولی و ترسیل کی جدید ٹیکنالوجی کیلئے ابوظہبی پورٹ گروپ کو 25برس کیلئے کراچی کی بندرگاہ کا ٹھیکا دے رہی ہے۔ اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو کراچی کی بندرگاہ کا 85 فیصد کنٹرول متحدہ عرب امارات کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تین بڑے ہوائی اڈوں‘ جن میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد شامل ہیں‘ کو قطر کے حوالے کرنے کا معاہدہ بھی گفت و شنید کے مرحلے میں ہے۔ حکومت پاکستان نے اسلام آباد ایئر پورٹ کی قطر کو ''آؤٹ سورسنگ‘‘ کا خود اعتراف کرلیا ہے۔ جب کسی محنتی بزنس مین کے نااہل بیٹے اپنے باپ کے کاروبار کو نہیں چلا پاتے اور اسے خسارے سے دوچار کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنے اثاثے بیچ کر ہی ا پنی شاہ خرچیوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ان دنوں ہماری حکومتوں کا بھی یہی وتیرہ ہے۔بڑی شاہراہوں کو پہلے ہی ہم گروی رکھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی ایک بہت بڑے ماہر معیشت ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے حقیقی معیشت کی کھڑکی بند کر دی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ہمارا ہر وزیر خزانہ اور اس کی معاشی ٹیم کا صرف ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لے۔ جب کسی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف کی طرف سے ناقابلِ برداشت شرائط پر قرضہ مل جاتا ہے تو وہ خوشی کے شادیانے بجانے لگتا ہے۔ یوں سود در سود اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ حقیقی معیشت کیاہے؟ حقیقی معیشت یہ ہے کہ کوئی ملک اپنی آمدنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتا ہے۔ اچھی معیشت وہ سمجھی جاتی ہے جو اپنے ہر شہری تک خوشحالی کے ثمرات پہنچائے۔ لوگوں کیلئے روزگار کے زیادہ منافع بخش طریقے دریافت کرے۔ نوجوانوں کیلئے ملک کے اندر اور ملک سے باہر اچھی ملازمتوں کا بندوبست کرے۔ زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگانے اور اس کیلئے واجبی شرح سود پر قرضے فراہم کرنے کا انتظام کرے۔ اچھی معاشی پالیسی وہ ہوتی ہے جس میں ملکی سرمایہ کاری کیلئے زیادہ سے زیادہ پُرکشش منصوبے پیش کئے جاتے ہیں۔ کسی ملک میں معاشی خوش حالی آتی ہے تو پھر شہریوں کو بہترین تعلیم اور علاج معالجے کی اعلیٰ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔
جب معاشی کارروائیاں زوروں پر ہوتی ہیں تو ملک میں بڑے بڑے ڈیم اور اس طرح کے میگا پراجیکٹس لگائے جاتے ہیں۔ جب ہم اپنی بندرگاہیں‘ اپنی شاہراہیں‘ اپنے ہوائی اڈے اور اپنی بڑی صنعتیں وغیرہ دوسروں کے ہاتھ فروخت کر دیں گے تو پھر ہمارے غیر ملکی دوست ہمارے آجر ہوں گے ہم ان کے اجیر اور مزدور ہوں گے۔ وقتی طورپر تو ہمیں آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ملنے والوں قرضوں کے ذریعے سانس لینے کی مہلت ملی ہے مگر اگلے تین برس میں ہمیں چینی بینکوں اور پرائیویٹ کمپنیوں‘ سعودی عرب اور دوسرے عالمی اداروں کو اگلے تین برس میں 77.5 بلین ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے۔
1998ء جب پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا تو اس طالبعلم سمیت بہت سے اہلِ دانش نے حکومت پاکستان کو باور کرایا تھا کہ اب ہمارے ہاتھ میں کشکولِ گدائی اچھا نہیں لگے گا۔ایٹمی کے بعد ہمارا ایک اقتصادی قوت بننا بہت ضروری ہے۔ہم اپنے نیو کلیئر اثاثوں کا کماحقہٗ تحفظ اسی وقت کر سکتے ہیں جب تک ہم اپنے بل بوتے پر ترقی کرتی اور پھلتی پھولتی ہوئی معیشت نہ بن جائیں۔''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ نام کی ایک نیم دلانہ تحریک بھی چلی تھی مگر جلد ہی وہ کہیں راستے میں دم توڑ گئی۔ہم پھر مقروض بادشاہوں اور شہزادوں والے انداز و اطوار پر واپس آ گئے اور تب سے لیکر آج تک مزید قرضے لیتے چلے جا رہے ہیں۔ تبھی تو دنیا ہمیں اپنی بندرگاہیں اور ہوائی اڈے فروخت کرنے کا طعنہ دے رہی ہے۔اس قرضے کی ادائیگی کیلئے ہمارے ہاں جو احساسِ ذمہ داری‘ بھاگ دوڑ اور غور و فکر ہونا چاہئے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ جانے والے حکمرانوں نے ایک روز کیلئے بھی اپنے انداز و اطوار اور اپنے شاہانہ ٹھاٹ باٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ البتہ وزیراعظم شہباز شریف نے مستقبل میں 60 ٹریلین کی معدنیات کی خوشخبری سنائی جوہنوز دہلی دور است والا معاملہ ہے ۔ اس وقت ہمارے حکمران مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے نقشِ قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول غالبؔ ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن
جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو فی الواقع نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ 23کروڑ کی آبادی میں سات کروڑ غربت کے مارے ہیں باقی پندرہ کروڑ سفید پوش ہیں جو کبھی جیتے کبھی مرتے ہیں۔ رہ گئے ایک کروڑ تو اُن کے وارے نیارے ہیں۔ اس ملک کے امیر قرض لیتے‘ غریب قرضوں کے بوجھ تلے مرتے اور مر مر کر سود ادا کرتے ہیں اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنی شہ خرچیوں کیلئے ''پاکستان برائے فروخت‘‘ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں