آشیاں در آشیاں

''جب مجھے مولانا عبدالرؤف کا یہ پیغام ملا کہ وہ شدید علیل ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو میں فوراً گاؤں پہنچ کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے اپنے پاس دیکھ کر انہوں نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ وہ میرے والدِ مرحوم کی پائنتی میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ میں نے بعد حیرت اُن سے پوچھا کہ پائنتی کیوں؟ آپ جیسے برگزیدہ عالمِ دین کی اس تمنا نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ اس پر مولانا عبدالرؤف نے کہا کہ یہ علم و فضل سے زیادہ علم و عمل کی بات ہے۔ آپ کے والدِ بزرگوار نے ہمیشہ سچی اور کھری بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی تھی‘ ہم لوگ مصلحت اندیش ہیں‘‘۔ میں نے یہ اقتباس پروفیسر فتح محمد ملک کی خود نوشت ''آشیانۂ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘ کے پہلے باب سے پیش کیا ہے۔
پروفیسر صاحب اپنے درویش صفت والدِ مکرم‘ اپنے محنت کش پابندِ صوم و صلوٰۃ دادا جان اور اپنی صابرو شاکر والدہ محترمہ کے فیضانِ تربیت کو اپنے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔ تلہ گنگ سے صرف دو کلو میٹر دور جس گاؤں کے گھر میں پروفیسر صاحب کا بچپن اور اوائلِ جوانی کا زمانہ گزرا وہ ایک کچی حویلی تھی جس کے پھاٹک پر لکھا تھا ''آشیانۂ غربت‘‘۔ ملک صاحب نے اپنی بیگم ذکیہ کا نہایت محبت و احترام سے ذکر کیا ہے جو جوانی میں فوت ہو گئی تھیں۔
جناب فتح محمد ملک پاکستان کی ایک نہایت ہی نامور شخصیت ہیں۔ وہ شہرت یافتہ معلم‘ مقرر‘ مفکر‘ مدبر‘ محقق‘ مصنف‘ ادیب اور ناقد ہیں۔ اُن کی تحریر شستہ‘ شائستہ اور نہایت پُرکشش ہوتی ہے۔ انہوں نے درجنوں کتب لکھی ہیں۔ اس خود نوشت میں ملک صاحب کی نثر اپنے جوبن پر ہے۔ یہ کتاب نہیں‘ طلسم ہوشربا ہے‘ معلومات کا ایک حیرت کدہ ہے۔ملک صاحب نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد‘ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی‘ جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں خدمات انجام دیں۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی رہے۔ اسلام‘ پاکستان‘ اقبال اور مساواتِ محمدی وہ چار عناصر ہیں جن سے مل کر ملک صاحب کی شخصیت ترتیب پائی ہے۔
خود نوشت انگریزی کی ہو‘ اردو کی ہو یا دنیا کی کسی اور زبان میں ہو‘ اسے نثر کی ایک نہایت اثر انگیز صنف تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم آٹو بائیو گرافی کی اثر انگیزی اس کی سچائی‘ بے ساختگی اور حقیقت نگاری سے مشروط ہے۔ ملک صاحب نے کتاب میں حق گوئی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اپنوں سے کوئی رعایت کی ہے نہ غیروں سے۔ جب غلام مصطفی کھر کے بجائے حنیف رامے کو ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کیا تو انہوں نے اپنے دوست فتح محمد ملک کو بااصرار اپنی معاونت کے لیے فی الفور راولپنڈی سے لاہور آنے پر آمادہ کیا۔ یہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1974ء کا زمانہ تھا۔ ملک صاحب لکھتے ہیں ''اتنی مدّت گزرنے کے بعد آج اپنے اُس تجربے میں قارئین کو شریک کر رہا ہوں‘‘۔ اُس زمانے میں نئی موٹر گاڑیوں کی خریداری پرمٹ کے ذریعے ہو رہی تھی۔ اوپن مارکیٹ میں بکنے والی گاڑیوں کی قیمت پرمٹ والی گاڑی سے دس ہزار زیادہ تھی۔ چنانچہ دفتر میں پرمٹ پر گاڑی لینے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ملک صاحب کو معلوم ہوا کہ مولانا مودودی‘ مجید نظامی اور آغا شورش کاشمیری اُن دنوں گاڑی خریدنا چاہتے تھے۔ ملک صاحب نے تینوں شخصیات کو پرمٹ جاری کرنے کی پیشکش کی مگر تینوں صاحبان نے شکریے کے ساتھ اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ملک صاحب نے پیپلز پارٹی کے اندر شدید نوعیت کے اختلافات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ایک غلط فہمی کی بنا پر پیپلز پارٹی کے تین بڑوں‘ حنیف رامے‘ خورشید حسن میر اور ملک معراج خالد نے ذوالفقار علی بھٹو کے 'آمرانہ اداروں‘ پر غیظ و غضب کا اظہار کیا۔ اس پر ملک صاحب نے رامے صاحب کو ایک ایسی تجویز دی جس کے ذریعے ان قائدین کی باہمی غلط فہمی دور ہو گئی‘ اہم نوعیت کا یہ تاریخی واقعہ آشیاں در آشیاں کے صفحہ نمبر 104اور 105پر تفصیل سے موجود ہے۔کتاب میں انکشافات ہی انکشافات ہیں۔ کتاب کا 23واں باب جس کا عنوان ہے ''پہلے بھٹو سے نجات‘ بعد ازاں انتخابات‘‘ آج کے حالات کے تناظر میں اس کا مطالعہ پاکستانی سیاست کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں بصد ادب ایک طالب علمانہ حرفِ اختلاف کا اظہار کر رہا ہوں۔ مذکورہ بالا باب کے صفحہ نمبر 150پر وہ تحریر فرماتے ہیں ''محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی محاذ پر پی این اے (قومی اتحاد) میں شریک سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی مارشل لاء کے انتظار میں مذاکرات کو طول پر طول دیے جا رہے تھے جبکہ پروفیسر غفور احمد اور دیگر زعمائے قومی اتحاد کا کہنا یہ ہے کہ بھٹو صاحب مذاکرات کی نیّا کو کنارے لگائے بغیر متحدہ عرب امارات کے دورے پر روانہ ہو گئے تھے‘ اس دوران طرح طرح کی منفی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ غالباً ملک صاحب نے ان مذاکرات کے حوالے سے صرف جنرل خالد محمود عارف صاحب کی کتاب Working With Ziaپر انحصار کیا ہے۔
فاضل مصنف نے ایک حیران کن تاریخی انکشاف کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ایک موقع پر ملک صاحب کو بتایا کہ 1948ء کی ایک سہ پہر اُس وقت کے وزیراعظم نے ان کے سامنے جنرل اکبر کو اُن کی اور سر ظفراللہ خاں کی موجودگی میں طلب کیا اور انہیں بتایا کہ کشمیر میں جنگ بندی کیلئے برطانوی حکومت کا بہت دباؤ ہے‘ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فوراً جنگ بندی کر دی جائے۔ جنرل اکبر فوری جنگ بندی کو پاکستان کیلئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی آخری فیصلہ ہے تو جنگ بندی کیلئے آج رات کے بجائے کل رات کا وقت مقرر کیا جائے۔ جنرل اکبر کی درخواست پر لیاقت علی خاں زبان کھولنے ہی والے تھے کہ سر ظفر اللہ آگ بگولہ ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ڈانٹتے ہوئے کہا: You are Summoned here to obey not to agrue, get out‘ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سر ظفراللہ بوجوہ وزیراعظم سے بھی زیادہ پاور فل تھے۔ یوں تو ''آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘ خزینۂ معلومات ہے مگر میرے لیے تو ملک صاحب کی سیاحت کے بعض مقامات قندِ مکرر کا مزہ دے گئے۔ ان مقامات میں ہائیڈل برگ‘ استنبول اور برلن وغیرہ شامل ہیں۔ میں فرینکفرٹ سے گاڑی پر اپنی بیگم کے ہمراہ یورپ کی سیاحت کیلئے نکلا تو پہلا پڑاؤ ہائیڈل برگ تھا۔ ہم جب دریائے نیکر‘ ہائیڈل برگ کے کنارے محوِ خرام تھے تو علامہ اقبال کی نظم ''ایک شام دریائے نیکر کے کنارے‘‘ کی صداقت پر دل و جان سے ایمان لے آئے تھے کہ اس شام کا منظر بھی ویسا ہی تھا جیسے علامہ نے تصویر کشی کی تھی۔
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
ملک صاحب سے میری نیازمندی پرانی تھی مگر جب میں 2004ء میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد آیا تو یہ نیاز مندی دوستانہ قربت میں بدل گئی۔ ملک صاحب کے پُربہار قلم سے لکھی ہوئی اس کتاب میں کئی کتابیں یکجا ہو گئی ہیں۔ اس خود نوشت میں کتابِ زندگی بھی ہے‘ درس و تدریس بھی ہے‘ کتابِ سیاست تاریخ بھی ہے‘ کتاب شعر و ادب بھی ہے اور سب سے بڑھ کر کتابِ ہمدردی و خیر و خواہی بھی ہے۔ یوں تو ملک صاحب کی علمی و ادبی شخصیت کا ہر پہلو دوسرے سے بڑھ کر ہے‘ تاہم دوسروں کی خیر خواہی اور دوست نوازی کا پلڑا سب سے بھاری ہے۔ میں ملک صاحب کی صفاتِ حسنہ سے براہِ راست بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں فیض یاب ہوا۔ اُن کا یہ ''قرضِ حسنہ‘‘ میں کبھی نہ چکا پاؤں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں