شیروں سے جُڑی یادیں

گزشتہ دنوں کراچی میں ایک شیر گاڑی سے فرار ہو کر شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے دیکھا گیا تو ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ اکثر ٹیلی ویژن سکرینوں پر معمول کے پروگراموں کو روک کر شیر کی شہر میں آمد کے بارے میں بریکنگ نیوز نشر ہونے لگی‘ ان خبروں کے ساتھ ساتھ شیر کی لائیو نقل و حرکت کی ویڈیوز بھی سامنے آنے لگیں۔ بالآخر لائیو سٹاک کے عملے اور شیر کے مالک نے مل کر جنگل کے بادشاہ کو غالباً انجکشن لگا کر قابو کیا اور اسے گاڑی میں لاد لیا۔ میرے ایک دوست نے اسی طرح کے ایک مفرور شیر کو بڑے ڈرامائی انداز سے پکڑا تھا۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ کہانی پیشِ خدمت ہے۔ میرے طائف‘ سعودی عرب میں قیام کے دوران غالباً 1985ء میں وہاں چڑیا گھر قائم ہوا۔ ایک پاکستانی ویٹرنری ڈاکٹر محمد سرور صاحب اُس چڑیا گھر کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحب محاورتاً نہیں حقیقتاً شیر دل تھے۔ وہ طائف کی پاکستانی کمیونٹی میں ہر دلعزیز بھی تھے۔ ان کی دعوت پر ایک روز میں طائف کے چڑیا گھر کی سیر کو گیا۔ شیر کے پنجرے کے سامنے پہنچے تو جواں سال ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جنگل کے بادشاہ سے ملاقات کے کچھ آداب ہیں۔ میں سمجھا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے کچھ خصوصی احتیاطی ہدایات دیں گے اور پنجرے کی سلاخوں سے قدرے ہٹ کر کھڑے ہونے کا حکم دیں گے مگر ہوا اس کے برعکس۔ ڈاکٹر صاحب نے جیب سے پنجرے کی چابی نکالی‘ اسے تالے میں گھمایا اور پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے لوہے کے راڈ کو ایک شانِ دلربائی کے ساتھ ہوا میں گھمایا اور ہماری عزت افزائی کرتے ہوئے فرمایا‘ چلئے پروفیسر صاحب! میں قدرے تذبذب کا شکار تو ہوا‘ مگر جیسے آج کل اہلِ وطن کے پاس بجلی کا بل دینے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں‘ اسی طرح اُس لمحے ہمارے پاس بھی شیروں کے پنجرے میں اُن سے علیک سلیک کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔ پنجرے میں ایک نہیں چار شیر تھے۔ پہلے تو ڈاکٹر صاحب نے شیروں کی گردنوں پر پیار و محبت سے ہاتھ پھیرا اور پھر راڈ ہوا میں لہرا لہرا کر انہیں اپنے آگے آگے دوڑاتے رہے۔ زندگی میں ہم پہلی بار شیروں سے ملاقات کر رہے تھے مگر یہ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے کر رہے تھے۔ خیر خدا خدا کرکے پنجرے سے باہر آئے تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔
تھوڑی دیر میں ایک ملازم ایک بالٹی میں شیروں کے لیے گوشت لے کر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے پنجرے کے باہر بالٹی رکھوا دی اور دروازہ کھول کر ایک شیر کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ نڈر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ پروفیسر صاحب ذرا بالٹی سے گوشت لے کر شیر کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیے۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر شیر کو گوشت پسند نہ آیا یا میرے کھلانے کا طریقہ اچھا نہ لگا تو پھر کیا ہوگا‘ تاہم ڈاکٹر صاحب کا دل رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس موقع پر مجھے کئی محاورے یاد آئے جن کا لب لباب یہ تھا کہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔
ڈاکٹر سرور صاحب نے ہمیں بڑی محبت سے رخصت کیا اور یہ وعدہ لیا کہ اگلی بار بچوں کو ساتھ لائیں گے تاکہ اُن کے دلوں سے شیروں کی ہیبت دور ہو سکے۔ میں نے اپنے چھ سات سالہ بیٹے بلال کو بتایا تو اس کا شیروں کے ساتھ شوقِ ملاقات ہر گزرتے دن کے ساتھ فزوں تر ہوتا گیا۔ انہی دنوں جدہ سے ہمارے ایک مہربان دوست فیملی کے ہمراہ طائف کی سیاحت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ یہ غالباً 1987ء کا زمانہ ہوگا۔ ایک دن میں ہمارے بچے طائف کے چڑیا گھر کی سیر کو گئے۔ ڈاکٹر صاحب کو ہم نے پہلے ہی بتایا تھا۔ شیروں کے پنجرے میں جانے کا ایکشن ری پلے ہوا بلکہ اس بار ہماری بے تکلفی میں اور اضافہ ہو گیا۔ میرا بیٹا اپنے ساتھ ایک فٹ بال بھی لے کر گیا تھا جسے وہ شیروں کی طرف اچھالتا اور شیر اپنے پنجوں سے واپس اُس کی طرف پھینکتے رہے۔ واقعی انسان خونخوار درندوں کو بھی اپنے ڈھب پر لے آتا ہے۔ شیروں کے پنجرے سے بخیر و عافیت واپس آنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ شیروں سے اتنی بے تکلفی کوئی عقل مندانہ بات نہیں۔ بادشاہ انسانوں کی بستی کا ہو یا جنگلوں کا‘ اس کا موڈ مزاج بدلتے دیر نہیں لگتی۔
اب آئیے اس واقعے کی طرف جس کے لیے مجھے اتنی طویل تمہید باندھنا پڑی۔ طائف کا ایک امیرانہ ٹاؤن شھار کہلاتا ہے۔ اس سے آگے ردف کا علاقہ ہے۔ جہاں کئی پارک اور اونچی نیچی چٹانیں‘ بڑے بڑے پتھر اور چھوٹے بڑے کئی غار ہیں۔ یہ چڑیا گھر بھی وہیں پر ہے۔ ایک روز اچانک ایک شیر دن کے کوئی گیارہ بارہ بجے چڑیا گھر سے فرار ہو کر کہیں ردف کے علاقے میں جا کر ''روپوش‘‘ ہو گیا۔ اس زمانے میں ابھی موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے‘ تاہم شیر کے حدیقۂ حیوانات سے فرار کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ سمیت کئی سکیورٹی ادارے اپنے طور پر حرکت میں آ گئے۔ اس روز عصر کے بعد حسبِ معمول سینکڑوں لوگ اس علاقے کے پارکوں اور باغوں میں سیر و تفریح کے لیے آ گئے۔ تاہم حکومت کی طرف سے مفرور شیر کے بارے میں اعلانات نہ کئے گئے تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ گرمیوں کے دن تھے۔ تقریباً شام چھ بجے کے قریب چڑیا گھر کے عملے کے ایک کارکن کو مفرور شیر ایک غار میں سویا ہوا مل گیا۔ اس نے ڈاکٹر سرور صاحب کو بتایا تو اُن کی جان میں جان آئی۔
چڑیا گھر اور شہر کی انتظامیہ میں سے بعض کی رائے یہ تھی کہ انجکشن گن سے شیر کو دور سے بے ہوشی کے ٹیکے لگا دیے جائیں۔ ڈاکٹر سرور نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا شیر کی شان اور ہماری شیر سے دوستی کے خلاف ہوگا۔ لہٰذا اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے وہ کام کیا جس سے برسوں تک طائف ہی نہیں سعودی عرب کی فضاؤں میں پاکستانیوں کی شجاعت و بہادری کے چرچے گونجتے رہے۔ ڈاکٹر سرور نے شیر کی گردن پر ہاتھ پھیر کر اسے جگایا‘ پیار کیا اور پھر بغیر کسی زنجیر کے اسے کان سے پکڑ کر تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر تک پیدل چڑیا گھر لائے۔
یہ ایک قابلِ دید منظر تھا۔ سڑک کے دونوں طرف مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ لوگ تالیاں بھی بجا رہے تھے اور پاکستانی طبیب بیطری (ویٹرنری ڈاکٹر) کی بہادری کی داد بھی دے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔ پاکستانی جری‘ باکستانی قوی۔ ہمارے سعودی بھائیوں کے دلوں پر پاکستانیوں کی بہادری کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔
اور اب ایک اور واقعہ بھی سن لیجئے۔ خانس پور ایوبیہ میں ایک کٹیا کی تعمیر کا مرحلہ درپیش ہوا تو ہم نے وہاں کے وائلڈ لائف آفیسر سے پوچھا کہ سنا ہے کہ یہاں شیر چیتے عام پھرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے آفیسر نے کہا ''بھائی صاحب! اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ زیادہ نہیں یہاں چار چھ چیتے نظر آتے ہیں۔ جیب میں کپڑا مپڑا رکھیں۔ جب چیتا سامنے سے آتا دکھائی دے تو اس کے منہ میں ٹھونس دیں‘‘۔ ''جیب میں کپڑا مپڑا‘‘ والی تجویز ان دنوں ہمارے اوورسیز پاکستانی بھائی بھی کثرت سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ میں یہ تجویز سن کر مسکراتا ہوں اور ان سے عرض کرتا ہوں۔ حضور! پاکستان آ کر اپنی تجویز کا عملی مظاہرہ پیش کیجئے تاکہ ہمیں بھی حوصلہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں