جی 20اور ہمارا احساسِ زیاں

سچ پوچھیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھا جائے۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کو کوئی مژدہ جانفزا سنایا جائے‘ یہ مژدہ عجمی ہو یا کہ عربی‘ مگر ہم مدتوں سے دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں‘ نئے پاکستان کی دلفریب منظر کشی کرتے ہیں‘ انقلاب لانے کی نوید سناتے ہیں‘ مگر یہ ایسے دعوے ہیں جو عمل کی گواہی سے محروم رہتے ہیں۔ مرحوم امجد اسلام امجدؔ کا خیال یہ تھا کہ ہم نئے دائروں میں سفر کرتے ہیں‘ مگر ہوتا یہ ہے کہ ہم اُنہی پرانے دائروں کے مسافر ہی رہتے ہیں۔ راہی ٔ ملکِ عدم ہونے والے شاعر تو کہہ گئے تھے کہ:
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
میری عاجزانہ رائے میں ہمارے قائدین تو بدلتے رہتے ہیں مگر دائرے نہیں بدلتے۔ گزشتہ 76برس سے یہی ہو رہا ہے۔ مزاجاً نہ ہم بدلے ہیں‘ نہ ہمارے حکمران بدلے ہیں اور نہ ہی ہمارے مہربان بدلے ہیں۔ ہماری خواہشیں اور ہماری تمنائیں وہی ہیں مگر یہ خواہشات ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکیں‘ اس کے برعکس تمنائیں اب حسرتوں میں بدل چکی ہیں۔ استاذِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی نے نہ صرف ہمارے احوال کی حقیقی منظر کشی کی ہے بلکہ ہمارے مرض کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی بھی کی ہے۔ فرماتے ہیں ؎
لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
حسرتیں ہی حسرتیں ہیں مدعا کوئی نہیں
جو قومیں اپنی حسرتوں کو اپنے سینوں سے لگا کر رکھتی ہیں اور ان کے حوالے سے نوحہ خوانی اور مرثیہ گوئی کرتی رہتی ہیں تو وہ کبھی جادۂ ترقی پر آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ جب کوئی قوم حسرتوں کو خیر باد کہہ کر ان کی جگہ اپنے اہداف مقرر کر لیتی ہے‘ ان اہداف کے حصول کیلئے اپنی حکمت عملی طے کر لیتی ہے اور ان مقاصد کے حصول کیلئے تگ و دو شروع کر دیتی ہے تو وہ قوم اپنی منزلِ مراد پر پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ حسرتوں اور اہداف کے درمیان ایک درمیانی مرحلہ بھی ہے۔ اس مرحلے کو احساسِ زیاں کہتے ہیں۔ احساسِ زیاں بعض اوقات تعمیر نو کا نقطۂ آغاز بن جاتا ہے۔ اسے حسنِ اتفاق ہی سمجھ لیجئے کہ آج کل اس احساسِ زیاں کے ٹمٹماتے دیے کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ دو چار روز قبل ایک معزز سینیٹر نے مجھے انڈیا میں منعقد ہونے والی جی 20 کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت ایک اجلاس کی وڈیو ارسال کی۔ محترم سینیٹر نے اس طالب علم سے سوال کیا ہے کہ ہمارا پڑوسی ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔ جی 20 کی میزبانی کرکے ساری دنیا کا مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ جب ہم اُنہی جان لیوا پرانی خطاؤں کو مسلسل دہراتے چلے جائیں گے‘ نہ دستور کو دل و جان سے مانیں گے‘ نہ آئینِ پاکستان پر عمل پیرا ہوں گے‘ صرف اپنی من مانی کریں گے تو پھر ہمارا حشر یہی ہونا ہے۔
یہ جی 20 کیا ہے؟ جی 20میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے اہم ترین ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈیا‘ انڈونیشیا‘ روس‘ سعودی عرب‘ برطانیہ اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔ گروپ آف 20کی تشکیل کے دو تین اہم مقاصد تھے۔ پہلا مقصد تو یہ تھا کہ 1990ء کی دہائی میں ترقی کے زینے پر بلندی کا سفر طے کرنے والی بعض معیشتوں کو پیش مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ وہ ممالک جو تیزی سے معاشی ترقی کے سفر پر گامزن ہیں مگر انہیں عالمی منڈیوں اور معیشتوں میں مناسب حق نہیں ملا تو ان ممالک کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں ان کا جائز مقام دلوایا جائے اور عالمی سطح پر ان کی معاشی و اقتصادی اہمیت سے دوسرے ممالک کو متعارف کروایا جائے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جی 20ممالک میں ہم اپنی جگہ کیوں نہ بنا پائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب یہ فورم 1999ء میں وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں شامل نہ تھا۔ ہم ابھی تک یہ صلاحیت حاصل نہیں کر پائے۔ سبب اس کا ہم پر عیاں ہے۔ اب یہ راز کوئی راز نہیں‘ ہم بلندی کے نہیں تنزلی کے مسافر ہیں۔ بھارت میں نو‘ دس ستمبر کو منعقد ہونے والی جی20 کانفرنس میں ممبر ممالک کے علاوہ بعض دیگر ممالک کو بطورِ خاص مدعو کیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں بنگلہ دیش‘ مصر اور نائیجیریا شامل ہیں۔ بھارت حقِ ہمسائیگی کو یکسر بھول چکا ہے اور اس کے برعکس وہ پاکستان اور اپنے ہاں بسنے والے انڈین اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایزا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے‘ یہ بین الحکومتی فورم 1999ء میں قائم ہوا تھا‘ اس فورم میں 19ممالک اور یورپین یونین شامل ہیں۔ 2008ء سے ہر سال جی 20ممالک کا سربراہی اجلاس کسی ممبر ملک کے اندر منعقد ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں رکن ممالک کے ریاستی بینکوں کے سربراہ بھی شرکت کرتے ہیں۔ دنیا کی اہم ترین معیشتوں کا یہ سربراہی اجلاس آج 9ستمبر سے نیو دہلی میں شروع ہو رہا ہے۔ یہ دو روزہ اجلاس دس ستمبر تک جاری رہے گا۔ سکیورٹی اور مہمان نوازی کے حوالے سے بھارت نے وسیع تر اقدامات کیے ہیں۔ دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں بھارت آنے والے مندوبین اور رپورٹروں کے سامنے بھارت کا ''پُرکشش‘‘ چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بھارت نے اس سربراہی اجلاس کیلئے جو سلوگن قدیم سنسکرت زبان سے دیا ہے‘ وہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس کا ترجمہ ہے ''ایک زمین‘ ایک خاندان‘ ایک مستقبل‘‘۔ دنیا کی پچاسی فیصد پروڈکشن والی دوتہائی آبادی کی نمائندگی کیلئے بھارت نے ایک جاذبِ نظر جملہ منتخب کیا ہے۔ تاہم یہ وہ آئینہ ہے کہ جس میں بھارت نیا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اس سلوگن اور حقیقی بھارتی طرزِ عمل میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک کانفرنس کی چکا چوند سے دنیا کی آنکھیں چندھیا دے گا اور دنیا وہ سب کچھ بھول جائے گی جوگزشتہ 76 برس سے بھارت اپنے ہی دیس کے مسلمانوں کے خلاف آئے روز کر رہا ہے۔ کیا دنیا اُن ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کو بھول جائے گی جنہیں مودی کے زمانۂ وزارتِ اعلیٰ کے دوران گجرات میں زندہ جلایا گیا تھا۔ انہیں سڑکوں‘ گلی کوچوں اور اُن کے گھروں میں گھس کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ بھارت میں کوئی دن خالی نہیں جاتا جب وہاں گلی کوچوں میں ناحق خونِ مسلم بہایا نہ جاتا ہو نیز مسلمانوں کی دکانیں‘ اُن کی مسجدیں اور عبادت گاہیں جلائی نہ جاتی ہوں۔اسی طرح گزشتہ 76برس سے بالعموم اور گزشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص تقریباً ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں کو مقبوضہ کشمیر میں تہ تیغ کیا گیا ہے۔ اس وقت وادیٔ کشمیر میں 6لاکھ بھارتی فوجی مسلمانوں کے خلاف شب و روز بندوقیں اور توپیں تانے کھڑے ہیں۔ اس منظرنامے کے ساتھ بھارت کس منہ سے G20 کانفرنس میں ایک زمین‘ ایک خاندان اور ایک مستقبل کا سلوگن متعارف کروا سکتا ہے۔ جی 20 کے ممالک کو چاہیے کہ اس موقع پر بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھائیں اور کشمیری و بھارتی مسلمانوں کو اُن کے زندہ رہنے کا حق متعصب بھارتی سیاست دانوں سے واپس دلائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں