باپ بیٹا آمنے سامنے؟

شاعر نے تو کہا ہے کہ
باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک
ماں دعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے
البتہ بلاول بھٹو زرداری اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اُن کے لیے ماں اور باپ دونوں زینہ بھی ثابت ہوئے ہیں اور دعا بھی۔ ہفتے کے روز سے اب تک ایک خبر شہ سرخیوں کے ساتھ ٹیلی ویژن سکرینوں اور اخباری صفحات کی زینت بنی ہوئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور اُن کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے پیپلز پارٹی اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے بعد سے 90روز کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی تھی۔ اس مطالبے کو ہی پیپلز پارٹی کا عمومی موقف سمجھا جا رہا تھا۔ اس عرصے میں زرداری صاحب چپ تھے۔ اُن کی خاموشی کا یہ مطلب لیا جا رہا تھا کہ سب ایک پیج پر ہیں‘ باپ‘ بیٹا اور پارٹی کی مجلسِ عاملہ‘ مگر زرداری صاحب نے پاکستان سے کئی روز کی غیر حاضری کے بعد وطن واپس پہنچتے ہی چپ کا روزہ توڑا اور ایسا بیان داغ دیا جو پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں اور پارٹی کے دیگر قائدین کے بیانات کی مکمل نفی تھا۔ زرداری صاحب کا بیان پیپلز پارٹی کی روایتی جمہوریت پسندی کے بھی یکسر خلاف تھا۔
زرداری صاحب نے کہا ہے کہ اس وقت معاشی بحران ہے‘ ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے مشرقی روایات کا احترام کرتے ہوئے کہا ہے کہ گھر کے معاملات پر آصف علی زرداری کی باتوں کا پابند ہوں لیکن سیاسی اور آئینی معاملات پر کارکنوں اور پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کا پابند ہوں۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین نے یہ بھی کہا ہے کہ انتخابات 90روز کے اندراندر ہونے چاہئیں۔ کسی کی اگر اور رائے ہے تو میرے سامنے رکھ سکتا ہے۔ بلاول نے یہ بھی کہا کہ اگر کیئر ٹیکرز چیئر ٹیکرز بنیں گے تو ہمیں اعتراض ہوگا۔
''باپ بیٹے کے اختلافات‘‘ کے بارے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ اختلاف حقیقی نہیں نمائشی ہے۔ پہلی رائے کے مطابق باپ بیٹا ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ کہا جا رہا ہے کہ آصف علی زرداری جو کچھ کہتے ہیں وہی بالآخر پارٹی پالیسی قرار پاتی ہے۔ بلاول جو کچھ کہتے ہیں وہ عوام کے لیے ہوتا ہے۔ بلاول پیپلز پارٹی کے روایتی حامیوں کے دِلوں میں گھر کر چکے ہیں۔ بلاول اپنی والدہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے لب و لہجے میں بات کرتے ہیں اور براہِ راست عوام کے درِ دل پر دستک دیتے ہیں۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو زمینی حقائق یا عملی ضروریات کا اچانک ''مکمل ادراک‘‘ کیسے ہوا؟ بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کی تھی جبکہ زرداری صاحب نے الیکشن کمیشن کی پاک دامنی کی مکمل ضمانت پیش کردی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نہایت دیانت داری سے کام کر رہا ہے اور آئندہ بھی صاف شفاف انتخابات کروائے گا۔ زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل بھی دستور کا ایک ضروری تقاضا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیوں کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔ آصف علی زرداری نے سرمایہ کاری کی خصوصی کونسل کے ذریعے آنے والی نئی انویسٹمنٹ کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
دوسری رائے کے مطابق باپ بیٹے کے سیاسی اختلافات نمائشی نہیں حقیقی ہیں۔ پیپلز پارٹی میں اس نوعیت کے اختلافات باآوازِ بلند ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ زرداری صاحب اب کئی برس سے سیاست براستہ مقتدرہ کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ جبکہ بلاول بھٹو اپنی عوامی مقبولیت کے فروغ کے لیے عوامی جذبات کے ساتھ اپنا رابطہ استوار رکھنا پسند کرتے ہیں۔ بلاول مزدوروں‘ محنت کشوں اور دیگر عوامی حلقوں کے ساتھ یک جہتی کو ہی اپنی سیاسی کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی نہایت جارحانہ انداز سے کیا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر اندر کی کہانی بیان کر دی ہے کہ ہمارے سیاسی اتحادی اتنے خوفزدہ ہو چکے ہیں کہ وہ الیکشن سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بزرگ اتحادیوں کو یاد دلایا کہ سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ یہ بات کہتے ہوئے بلاول کا روئے سخن صرف اتحادیوں کی طرف ہی نہیں اپنے والد گرامی کی طرف بھی تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سے ہماری استدعا ہے کہ وہ انتخابی شیڈول کا اعلان کریں‘ چاہے یہ شیڈول نئی حلقہ بندیوں کے بعد کا ہی کیوں نہ ہو۔ اس وقت یہ افواہ بھی میڈیا میں گردش کر رہی ہے کہ صدرِ مملکت جلد الیکشن شیڈول کا اعلان کرنے والے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جانے کے بعد ساری افواہیں دم توڑ جائیں گی۔ یقینا زرداری صاحب کے حقائق کے ''مکمل ادراک‘‘ والے بیان کے پیچھے کوئی کہانی ضرور ہو گی جو جلد یا بدیر سامنے آ جائے گی‘ تاہم زرداری صاحب کے اس بیان میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک ایک اہم معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس لیے پہلے معیشت کی فکر کرنی چاہیے‘ انتخابات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ مزید برآں زرداری صاحب کے بیان کی ٹائمنگ بھی پیپلز پارٹی ممبران کے لیے نہایت حیران کن اور پریشان کن ثابت ہوئی ہے۔ پارٹی قائدین و کارکنان میں سے کسی کو بھی یہ خدشہ یا اندازہ نہیں تھا کہ جناب آصف علی زرداری یوں دن دیہاڑے یوٹرن لیں گے اور اپنا موقف بدل لیں گے۔
زرداری صاحب کے بیان کا یہ نکتہ انتہائی خطرناک ہے کہ پہلے ''معیشت پھر سیاست‘‘۔ اس سلوگن سے اس ہولناک نعرے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو صدر ضیا الحق کے زمانے میں اُن کے غیر سیاسی اقتدار کو طول دینے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ قارئین کو شاید یہ نعرہ یاد ہوگا کہ پہلے ''احتساب پھر انتخاب‘‘۔ اسی نعرے کی وجہ سے جنرل ضیا الحق مرحوم نے گیارہ برس تک اپنی حکمرانی کا ڈنکا بجایا۔ بلاشبہ خوش حال معیشت کی ہماری زندگی کے لیے وہی اہمیت ہے جو ہمارے بدن کی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی ہے۔ رگوں کے اندر مناسب مقدار میں خون دوڑتا پھرتا نہ ہو تو پھر انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ تاہم ایک صحت مند دھڑکتا ہوا دل ہی ہمارے جسم میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دل سے ہی خون دماغ کو جاتا ہے اور ہمارے رگ و پے میں گردش کرتا ہے۔ اگر خدانخواستہ دل کی ورکنگ میں کوئی خلل واقع ہو جائے تو پھر باقی سارا جسم مضمحل اور بیمار ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم میں جو کردار دل کا ہے وہی کردار ملکی و قومی زندگی میں سیاست کا ہے۔ اگر سیاسی ادارے مضبوط ہوں گے اور دستور کے مطابق ٹھیک ٹھیک کام کر رہے ہوں گے تو پھر معیشت بھی خوش حال ہوگی۔ ہر شعبہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریوں کو بخیر و خوبی انجام دے رہا ہوگا۔
ہماری دعا یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اختلافات گھریلو نوعیت کے ہوں یا تجارتی و سیاسی نوعیت کے‘ باپ بیٹے کو ایک ہی پیج پر ہونا چاہیے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اور برطانوی جمہوری ماحول میں پل کر جوان ہونے والے بلاول اپنے والد گرامی کو بصد ادب سمجھائیں کہ دستور کی بالادستی میں ہی ہم سب کا بھلا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں