میرے مولا! اچھے الفاظ میں یاد کیا جاؤں

ہر آدمی کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ کسی ادارے میں خدمات انجام دے کر رخصت ہو تو اسے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار بدھ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کیا۔ انہوں نے کہا: میرے مولا! مجھے حکمت دے اور جب میں چلا جاؤں تو لوگ مجھے اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آئین کی حکمرانی ہو۔
رخصت ہونے والے چیف جسٹس نے اپنے مولا سے جس نعمت کو طلب کیا ہے اسے قرآن پاک میں خیر کثیر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر269میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جسے دانائی مل گئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا مناسب نہیں۔ یہ تو وقت اور تاریخ ہی بتائے گی کہ انہیں کن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔جب سیاسی مطلع صاف ہو گا تو ان کی عدالتی کارروائی کا عادلانہ و منصفانہ تعین ہو سکے گا۔
اعلیٰ برطانوی عدالتی روایات کو گہنانے اور انہیں ''پاکستانائز‘‘ کرنے والے جسٹس محمد منیر تھے۔ انہیں آج تک عدالتی تاریخ کی ایک انتہائی ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی‘ سماجی اور قانونی اعتبار سے تباہی سے دوچار کر دیا۔ جسٹس محمد منیر بلاشبہ اچھی قابلیت اور علمی حیثیت کے مالک تھے مگر وہ دنیادار تھے۔ جاہ و منصب کے دلدادہ۔
گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ آئین ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے غیر قانونی اقدام کو چیف کورٹ سندھ (اب ہائی کورٹ) میں چیلنج کر دیا۔ سماعت کے بعد عدالت اعلیٰ نے گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کر دیا۔ مرکزی حکومت اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے برعکس مقدمے کا فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں کر دیا۔ گویا قانون ساز اسمبلی تحلیل ہو گئی اور گورنر جنرل کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو گئے۔ جسٹس منیر کو بخوبی اندازہ تھا کہ اُن کا یہ فیصلہ ملکی سفینے کو گہرے پانیوں میں ڈبو دے گا۔ یقینا اس کے پیچھے گورنر جنرل غلام محمد کو مقتدرہ کی تائید بھی حاصل تھی۔ کیونکہ اس کے بعد جو کابینہ بنائی گئی۔ اس میں ورکنگ کمانڈر انچیف کو بطور وزیر دفاع حکومت میں شامل کر لیا گیا۔
گورنر‘ عدلیہ اور مقتدرہ تینوں نے 1954ء میں مل کر ملک کو جس راستے پر ڈالا اس گرداب سے ہم آج تک باہر نہیں آ سکے۔ اکتوبر 1958ء میں ایوب خان نے پہلا ملک گیر مارشل لاء لگایا۔ ایئر مارشل اصغر خان اپنی کتاب ''ہم تاریخ سے سبق کیوں حاصل نہیں کرتے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مارشل لاء لگانے کے بعد ایوب خان نے سول و فوجی افسران کی ایک میٹنگ بلائی اور اس میں سوال کیا کہ مارشل لاء تو لگ گیا اب صاحبو! بتاؤ ملک چلانا کیسے ہے۔ اصغر خان لکھتے ہیں کہ اس پر سب خاموش رہے۔ صرف ایک شخص بولا اور اس نے کہا: حضور! گھبرانے کی کوئی بات نہیں‘ عوامی جلسوں میں پبلک کے ہاتھ کھڑے کروا کے اور اُن سے نعرے لگوا کر اپنی مرضی کا آئین نافذ کر دیں۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ یہ تجویز دینے والا کوئی بیورو کریٹ تھا نہ فوجی جرنیل ‘یہ تجویز دینے والا ملک میں قانون کا ''محافظ‘‘ اور عدالتی نظریۂ ضرورت کا موجد چیف جسٹس محمد منیر تھا۔
عدلیہ کی تاریک داستان کے بعد اس کی ایک نہایت درخشندہ مثال کی جھلک بھی دیکھ لیجئے۔1903ء میں آگرہ کی مسیحی فیملی میں پیدا ہونے والے ایلون رابرٹ کارنیلیس پاکستانی عدلیہ کا ایک نہایت خوش نما ستارہ ثابت ہوئے۔ انڈیا سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔قیام ِپاکستان کے وقت وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے۔ گورنر غلام محمد کی طرف سے 1954ء میں دستور ساز اسمبلی توڑے جانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے حکومت مخالف فیصلے کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت نے فیڈرل کورٹ میں رِٹ دائر کی تھی۔چیف جسٹس محمد منیر نے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے اپیل کی سماعت کی اور بدنامِ زمانہ ''نظریۂ ضرورت‘‘ کا سہارا لے کر گورنر غلام محمد کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پانچ رکنی بینچ میں جسٹس اے آر کارنیلیس بھی ایک جج کی حیثیت سے شامل تھے۔ انہوں نے حق گوئی سے کام لیتے ہوئے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ گورنر جنرل کا اقدام سراسرخلافِ قانون اور خلاف ِریاست ہے۔
جسٹس اے آر کارنیلیس کے ایک فیصلے سے تو ہم براہِ راست مستفید ہوئے۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری‘ محترم مولانا مودودی اور دیگر پچاس کے قریب جماعت کی مجلس شوریٰ کے ارکان کو مشرقی و مغربی پاکستان سے ایوب خان کے زمانے میں گرفتار کر لیا گیا۔ کسی زیریں عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی جرأت نہ کی مگر جب یہ کیس سپریم کورٹ پہنچا تو چیف جسٹس اے آر کارنیلیس نے ایوب خان کے اقدام کو خلافِ قانون قرار دے دیا اور ہر طرح کے دباؤ کو ٹھکراتے ہوئے جماعت اسلامی کو بحال کر دیا۔ جسٹس کارنیلیس کو اس طرح کے فیصلوں کی بنا پر آج تک قانونی دنیا میں ہی نہیں عوامی دنیا میں بھی نہایت عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چیف جسٹس بلوچستان اور سپریم کورٹ کے جسٹس کی حیثیت سے اُن کے فیصلوں سے تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ناخوش تھیں۔ نئے منصفِ اعلیٰ نے 2019ء میں فیض آباد دھرنے کے بارے میں جو فیصلہ صادر کیا تھا اس میں پاکستان کے حقیقی مسائل کا تجزیہ بھی تھا اور پاکستان کو ان مسائل سے دوچار کرنے والے بعض سیاسی و غیر سیاسی عناصر کی نشاندہی بھی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بعض فیصلوں میں میڈیا پر اعلانیہ و خفیہ سنسر شپ کی بھی مخالفت کی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے انہی فیصلوں کی بنا پر پی ٹی آئی کی حکومت نے صدر عارف علوی کے ذریعے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام ہوئی۔قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ آئین و دستور کو بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند برس سے یہ کلچر پروان چڑھایا گیا ہے کہ عدالتوں کے فیصلے عدالت کی راہداریوں میں ہی کہیں بھٹکتے رہتے ہیں اور اُن پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے 2019ء میں صادر کردہ فیض آباد دھرنے والے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے 2015ء میں جاری کردہ نفاذ ِاُردو والے فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اگر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ججز کے پرانے اور نئے فیصلوں پر عملدرآمد کروا لیتے ہیں‘ اگر منصفِ اعلیٰ انصاف و آئین کی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر وہ پاکستان کی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس کی طرح ایک درخشندہ و تابندہ ستارے کی حیثیت سے چمکتے رہیں گے اور لوگ انہیں اچھے الفاظ سے یاد بھی رکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں