سیرتِ طیبہ پر دو نئی کتابیں

''رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک مقدس رات تھی۔ میں بی اے کا امتحان دے کر گھر آئی ہوئی تھی۔ رات کو اُٹھ کر سب کو روزے رکھواتی تھی۔ سب سے آخر میں ابا جی کو سحری دینا ہوتی تھی۔ ان کو سحری کھلا کر میں فجر کے بعد قرآن شریف پڑھتے پڑھتے سو گئی۔ نیند میں کیا دیکھتی ہوں کہ کمرے کے ایک کونے سے نور کا ایک جھرنا پھوٹا جیسے فوارہ ہوتا ہے اور وہ برابر اوپر جا رہا ہے۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ جھٹکے سے میری آنکھ کھلی تو مجھے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوا۔ میں اسی عالمِ گھبراہٹ میں ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی ابا جی کے پاس گئی۔ انہیں سوتے میں جگایا اور سارا واقعہ سنایا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹا! آپ بہت خوش نصیب ہیں۔ آپ کو مبارک ہو۔ آپ پر تجلیٔ نورآشکار ہوئی ہے۔ اس کے بعد والد صاحب کا یہ معمول ہو گیا کہ اپنی لائبریری میں بیٹھا کے مجھ سے سیرتِ النبیﷺ کا باب پڑھواتے اور اولیائے کرام کی کتابیں سنتے‘‘۔
یہ اقتباس میں نے مرحومہ بشریٰ رحمن کی آخری کتاب ''سیرتِ محبوبِ ربّ العالمینﷺ‘‘ سے پیش کیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں میرا محترمہ بشریٰ رحمن سے براہِ راست تعارف ہوا۔ بشریٰ رحمن کالم نگار بھی تھیں‘ ناول نگار بھی تھیں نیز کئی لازوال کتب کی مصنفہ بھی تھیں۔ ان سے لاہور اور پھر جب وہ 2002ء والی اسمبلی میں ایم این اے بن کر اسلام آباد آئیں تو وہاں بھی ان کے ساتھ کئی ملاقاتوں میں تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ اظہارِ بیان اور حسنِ تحریر کا ملکہ قدرت کی طرف سے انہیں ودیعت ہوا تھا۔ وہ ادب و سیاست اور حسنِ خطابت کا ایک درخشندہ ستارہ تھیں۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ بشریٰ رحمن کو خدا کے محبوبﷺ سے دلی محبت ہے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ یہ عقیدت ایک عقیدت نامے کا روپ دھار چکی ہے۔مصنفہ کی ساری زندگی لفظ شناسی اور جذبات کی عکاسی کے تخلیقی عمل میں گزری تھی‘ تاہم سیرت نگاری کے تقاضوں کے بارے میں سوچ سوچ کر بڑے بڑوں کا قلم تھراتا ہے۔ ''سیرتِ محبوبِ رب العالمینﷺ‘‘ میں بشریٰ رحمن نے جناب رسالت مآبﷺ کی 23سالہ نبوی زندگی کا احاطہ نہایت احتیاط و احترام اور عرق ریزی سے کیا ہے۔ مدح رسولﷺ کو نثر و نظم کے ادبی پیرائے میں بیان کرنے کی روایت پرانی ہے‘ تاہم بشریٰ رحمن نے اس پیرایۂ اظہار میں عقیدت و محبت کے گل ہائے رنگا رنگ ایک نئے انداز سے کھلائے ہیں۔ بقول محمد حماد لکھوی صاحب اس تصنیفی نذرانۂ عقیدت میں جمالِ تحریر عنوان بندی سے لے کر جملہ بندی تک جاری و ساری ہے۔
مصنفہ نے بعض ابواب کے بہت اثر انگیز اور معنی خیز عنوانات قائم کیے ہیں۔ مثلاً حضرت عائشہؓ پر منافقین کے بہتان اور برات کے واقعہ کا عنوان ''اِفک تا اُفق‘‘ اور وصالِ رسول اللہﷺ کے لیے ''نور ہوتا نہیں فنا کبھی‘‘ کا عنوان لکھا گیا ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمن نے ادب کی تمام تر حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے پُرکشش ادبی اسلوب میں نہایت سادگی کے ساتھ حیاتِ طیبہ کے واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان واقعات کی مناسبت سے کہیں قاری کے لب تبسمِ آشنا اور کہیں اس کی آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں۔ کتنی خوش قسمت ہیں بشریٰ رحمن کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے ساتھ مدحِ رسول کا ایسا تحفہ لے کر گئی ہیں کہ جب ربِ دو جہاں مصنفہ سے اس کا اعمال نامہ طلب کرے گا تو وہ بادیدہ تر محبوبِ خدا کے نام اپنا عقیدت نامہ پیش کر دیں گی۔ اُن کا یہ ہدیہ خدا اور محبوبِ خدا دونوں کی بارگاہ میں قبول و منظور ہو۔ حبِ رسول کی لَو کو مزید تیز تر کرنے کے لیے یہ ''عقیدت نامہ‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
سیرتِ طیبہ پر دوسری کتاب‘ جسے میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں‘ اس کا نام ہے ''پیغمبرِ اسلام‘‘۔ اس کتاب کے مصنف جناب عبدالقیوم ہیں۔ ان کا نصیبا بھی قابلِ رشک ہے۔ میری اس کالم نگا ر سے زیادہ ملاقاتیں نہیں‘ کبھی کبھی میرے کسی کالم پر وہ نہایت خوش دلی اور فراخ دلی سے داد دیا کرتے تھے۔ میرا خیال یہی تھا کہ وہ ایک خوش اخلاق‘ خوش کلام‘ صاحبِ علم اور بزنس مین ہیں مگر مجھے یہ معلوم کرکے خوش گوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے چپکے چپکے تقریباً سات سو صفحات کی کتاب کا ہدیۂ نثر بحضور سرورِ کائنات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر لی ہے۔ سیرتِ مصطفیﷺ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر بلامبالغہ اَن گنت کتابیں نثر و نعت کی صورت میں پیش کی گئی ہیں۔ ہر مصنف کا اپنا الگ اسلوبِ بیان اور ہر شاعر کا اپنا پیرایۂ اظہار ہوتا ہے مگر چونکہ موضوع اتنا محبوب و مرغوب ہے کہ ہر اندازِ بیان کو آنکھوں سے لگانے والے دنیا میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
''پیغمبرِ اسلام‘‘ کے مصنف نے حضورﷺ کی زندگی کے واقعات اور ان کے شب و روز کی تفصیلات کو سادگی و سلاست سے نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ دیکھئے سیرت النبیﷺ کا کوئی بھی مصنف اس لحاظ سے کتنا خوش نصیب ہے کہ جب قاری اس کی لکھی ہوئی تحریر کے توسط سے عشقِ مصطفیﷺ میں مزید سرشار ہوتا ہے اور یوں محسوس کرتا ہے کہ بدر واُحد کے سارے معرکے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی تو ہیں۔ اس سرشاری و بیقراری میں اس کے دل سے نکلنے والی دعائیں سیرت نگار کے مقدر کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔کالم کی تنگ دامانی کی بنا پر مصنف عبدالقیوم صاحب کے پیرایۂ اظہار کی صرف ایک جھلک نذرِ قارئین کرتا ہوں۔ حضرت خبیبؓ سے وحشیانہ انتقام لینے کے لیے قریش نے اُن گھرانوں کے افراد کو خاص طور پر بلایا ہوا تھا جن کے عزیز و اقارب بدر اور اُحد کی جنگ میں مارے گئے تھے۔ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ان بداطوار لوگوں نے دراز اَنی اور تیز دھار تلواروں سے بہادر و جانباز حضرت خبیبؓ کے جسم پر پے در پے وار کرنا شروع کر دیے۔ جب زندگی کے آخری لمحات قریب آ گئے تو پیکر صبر و استقامت نے اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی کہ اے رب ذوالجلال والاکرام آپ ہی اس مجبور و بے کس جاں نثار کی حالت زار اور سلامِ عقیدت رسولِ مقبول کی خدمت اقدس میں پہنچا دیں۔ شہادت سے پہلے اس سرفروش کی زبان سے توحید و رسالت کا اقرار اللہ اکبر کے مبارک کلمات ابھرے اور اس جاں نثار کی روح عالمِ جاوداں کی طرف پرواز کر گئی۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
مصنف نے یہ ایماں پرور واقعہ بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کی ایک ایک سطر سے قاری کا ایمان تازہ اور اس کی روح حبِ رسول سے سرشار ہوتی ہے۔ ''پیغمبرِ اسلام‘‘ کو نہایت ذوق و شوق کے ساتھ آرٹ پیپر پر کئی رنگوں میں شائع کیا گیا ہے۔ دنیا کی عظیم ترین شخصیت کی سیرت پر صوری و معنوی محاسن سے آراستہ اس کتاب کی اشاعت پر ہم مصنف کو تہِ دل سے مبارک پیش کرتے ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے وہ اللہ کے حضور مصنف کے لیے دنیا و آخرت میں سرفرازی کی دعا کریں۔
آج مغربی دنیا کا ایک بڑا طبقہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے تعصب نے اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ آج دنیا میں خود پرستی نے خدا پرستی کی جگہ لے لی ہے۔ دنیا کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اللہ کے آخری نبیﷺ صرف مسلمانوں کے نہیں ساری انسانیت کے محسن ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں