مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق آمنے سامنے

سابق متحدہ مجلسِ عمل کے دو معزز حلیف مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق ان دِنوں سیاسی حریف ہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ ہمارا دونوں شخصیات سے گہرا تعلقِ خاطر ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں دونوں زعما کے نقطۂ نظر میں بُعد المشرقین ہے۔
''آئین کے تناظر میں ‘‘مولانا فضل الرحمن کا سیاسی تکیۂ کلام ہے۔ مولانا ایک قادر الکلام خطیب ہیں۔ اللہ نے انہیں حسنِ بیان کے وصف سے نوازا ہے۔ آئین کے تناظر میں کیے گئے اُن کے تجزیوں کو بالعموم پذیرائی ملتی ہے۔ مولانا ''حسبِ ضرورت‘‘ جرأتِ اظہار سے بھی کام لیتے ہیں اور اکثر قانون کی حکمرانی کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں مگر گزشتہ چند دنوں سے مولانا جس ''آئین کے تناظر میں‘‘ ارشادات فرما رہے ہیں وہ آئین ہماری نظر سے نہیں گزرا۔
آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت کے ختم ہونے کے نوے روز کے اندر اندر نئے انتخابات ہو جانے چاہئیں۔ پہلے تو نئی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے تعین کا حیلہ اختیار کیا گیا۔ اس ''تقاضے‘‘ کے مطابق الیکشن کمیشن نے 9نومبر 2023ء کی بجائے جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ کئی بڑی پارٹیوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ۔ مولانا کو تو چاہیے تھا کہ وہ الیکشن کمیشن پر آئین کے تناظر میں تنقید کرتے اور تاخیر سے انتخابات کروانے پر گرفت فرماتے مگر مولانا نے اس کے برعکس ایک ایسا بیانیہ اپنایا ہے کہ جس کا تعلق آئین کی سربلندی سے نہیں آئین شکنی سے ہے۔
اسی لئے تو ہمیں تشویش ہوئی کہ مولانا جادئہ قدیم سے ہٹ کر جس نئے راستے پر گامزن ہونے کا ارادہ کر رہے ہیں وہ ایسا راستہ ہے جس پر مولانا اکثر تنقید کیا کرتے تھے۔ اب ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ مولانا کبھی فرماتے ہیں کہ جنوری میں بہت سردی ہوگی اس لیے انتخابات کو اس موسم میں نہ کروایا جائے۔ کبھی تاخیر کیلئے کسی اور عذر کو سامنے لاتے ہیں۔ مولانا کے بیان کا یہ حصّہ تو انتہائی خطرناک ہے کہ پہلے ''معیشت پھر انتخاب‘‘۔ ایسے نعرے تو ہماری سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت لگ چکے ہیں اور ہمیں دستوری راہِ راست سے ہٹا کر دستور شکنی کی پگڈنڈیوں پر خوار کر چکے ہیں۔ کسی سابقہ آمرانہ دور میں ایسا ہی نعرہ لگایا گیا تھا۔ ''پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘۔
مولانا جیسے جہاندیدہ لیڈر کو یقینا ادراک ہوگا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ اس وقت چاہیے تو یہ تھا کہ مولانا مبہم بیانات سے گریز فرماتے۔ عوامی اسمبلیوں میں بنفس نفیس تشریف لے جاتے۔ معیشت کی زبوں حالی کی کہانی سناتے اور عوام کے سامنے عمومی نوعیت کا نظری و فکری معاشی نقشہ نہیں معیشت کی اصلاح اور عوامی خوشحالی کا ایک عملی ماڈل پیش کرتے۔ مولانا کے علم میں ہوگا کہ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی تقریباً 40فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ خطِ غربت سے مراد یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی میں جس شخص کی روزانہ آمدنی ایک ہزار روپے سے کم ہے وہ غربت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً مزید سوا کروڑ پاکستانی خط ِغربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ لوگوں کو ا س دلدل سے مستقلاً نجات دلانے کیلئے مولانا کے پاس کیا نسخۂ کیمیا ہے ‘عوام اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہیں۔ مگر مولانا منجھدار میں جا کر کشتی کو کنارے کی طرف لانے کی بجائے سا حل پر بیٹھ کر لوگوں کی بے بسی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ مولانا ہمیشہ آس کی بات کرتے تھے‘ وہ کبھی یاس کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتے تھے‘ مگر اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ مولانا تصویرِ یاس بن کر مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں اور ڈوبتے ہوؤں کی بے کسی بڑھا رہے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق کا انتخابات کے بارے میں مؤقف مولانا فضل الرحمن کے بیانیے کے برعکس اور اس کے خلاف ہے۔ دو تین روز قبل انہوں نے منصورہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ الیکشن میں التوا یا تاخیر کی کوئی وجہ نہیں دیکھ رہے۔ اگر ایسا ہوا تو جماعت اسلامی بھرپور مزاحمت کرے گی اور پُرامن عوامی و جمہوری احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کا نام لیے بغیر کہا کہ انتخاب سے پہلے معیشت کی بہتری کی باتیں کرنے والے نوشتۂ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ انہیں شکست نظر آ رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت ٹھیک کرنے کے نام پر الیکشن کے التواکی باتیں ماضی میں لگائے جانے والے ''پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کے نعروں کا تسلسل ہے۔
سراج الحق صاحب ایک پُرجوش عوامی مقرر ہیں وہ خلقتِ خدا کے دلوں پر دستک دینے کا ہنر اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنی سیاست کو پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سے الگ رکھا۔ اگرچہ جماعت اسلامی اپنی سیاسی مقبولیت کے اعتبار سے ابھی تک ایک بڑی سیاسی جماعت کا رتبہ حاصل نہیں کر سکی مگر عوام یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ دینی و سیاسی پارٹی جو کچھ کہتی ہے وہ سچ کہتی ہے۔ جماعت اسلامی نے کمر توڑ مہنگائی کے خلاف زبردست عوامی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں اور پٹرول کی ہوشربا قیمتوں کے خلاف سراج الحق نے جماعتی و عوامی قوت کے ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں میں گورنر ہاؤسز کے باہر سہ روزہ دھرنا دیا ۔ گورنر ہاؤس لاہور کے باہر جماعت کے دھرنے میں لاہوری بھی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ امیر جماعت سراج الحق کے علاوہ کراچی میں میئر شپ کے سابق امیدوار حافظ نعیم الرحمن اور سینیٹر مشتاق احمد نے بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافوں کے اصل اسباب کا تذکرہ دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ کیا ہے۔ دھرنوں اور جلسوں کے ذریعے جماعت اسلامی نے مظلوم پاکستانیوں کے ساتھ جس یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اس سے جماعت کو اچھی عوامی پذیرائی ملی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے باشعور عوامی حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی جس انداز میں شہرِ کراچی کے گلی کوچوں میں شہریوں کے ساتھ یک جان دو قالب ہو گئی ہے وہ نظارہ دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ایک طرف امیر جماعت اسلامی فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر دوسری طرف لاہور سمیت پنجاب کے گلی محلوں میں عوام کی طرف سے جماعت اسلامی کیلئے کوئی بڑی پرجوش پذیرائی ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملی۔ بلاشبہ جماعت اسلامی معاشی طور پر بے حال اور مجبور لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے مگر موجودہ پیچیدہ معاشی صورتحال سے نبرد آزما ہونے، بیرونی و اندرونی قرضوں سے نجات، بے روزگاری کے بتدریج خاتمے اور جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارے کیلئے کوئی معاشی ماڈل اس وقت تک قوم کے سامنے پیش نہیں کر سکی۔اگر جماعت اسلامی کا یہ نعرہ قوم تسلیم بھی کر لے کہ ''حل صرف جماعت اسلامی‘‘ تو انہیں معلوم تو ہونا چاہئے کہ وہ حل کیا ہے؟
ہمارے سیاستدانوں اور مہربانوں کو اب یہ ادراک کر لینا چاہئے کہ ہمارے مسائل کا حل کسی مردِ ازغیب کی آمد میں مضمر ہے اور نہ ہی ماورائے آئین کسی وقتی نظریۂ ضرورت میں ہے۔ ہمارے جملہ مسائل کا حل آئین کی بالادستی اور حکومتوں کے تسلسل میں ہے۔ جناب مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق دیگر سیاستدانوں سمیت سردست یک نکاتی ایجنڈے پر صدقِ دل سے اتفاق کرلیں۔ انہیں الیکشن کمیشن پر زور دیناچاہئے کہ وہ مزید کسی تاخیر کے بغیر صاف شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ اسی میں ملک و قوم اور سب سیاسی جماعتوں کا بھلا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں