عالمِ اسلام کیا سوچ رہا ہے

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا کہ ''مظلوم و محصور لوگ ہمیشہ بے بسی کی حالت میں زندگی نہیں گزارتے‘ آزادی کے لیے اُن کی تڑپ اور لگن کسی نہ کسی روز رنگ لے آتی ہے‘‘۔ اگست میں نیتن یاہو نے بڑے غرور سے کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ عربوں کو بھی فلسطین کے ساتھ کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ وہ ہمارے ساتھ قربتیں بڑھانے اور سفارتی تعلقات استوار کرنے میں بڑے پُرجوش ہیں۔ نیتن یاہو کی معلومات اور تجزیے کے مطابق عرب فلسطینیوں کے معاملے میں اب زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم کروانے کے پس پردہ امریکہ کے دو مقاصد تھے۔ پہلا مقصد تو یہ تھا کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتا تھا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ اس دو طرفہ معاہدے سے اسرائیل محفوظ ہو جائے گا اور فلسطین ایک روایتی حمایتی سے محروم ہو جائے گا۔ بہرحال حماس نے اسرائیل ہی کو نہیں ساری دنیا کو ایک زبردست سرپرائز دیا ہے اور عالمی قوتوں کو باور کرایا ہے کہ وسائل کی شدید کمی کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے جواں ہیں۔ آج ہفتہ کو غزہ پر اسرائیلی بمباری کو سات روز ہو چکے ہیں۔
گزشتہ چھ روز میں غزہ پر چھ ٹن وزنی چھ ہزار بم گرائے گئے ہیں۔ اس وقت تک 1500سو سے زائد فلسطینی شہید اور چھ ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ بجلی‘ پانی اور ادویات کی بندش کے بعد ہسپتال مردہ خانے بن چکے ہیں۔ ہفتے کے روز جب یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا‘ اس وقت تک نہ جانے مزید کتنی تباہی ہو چکی ہو گی۔ اسرائیل نے غزہ کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے اور خوراک کی رسد بھی ہر طرف سے بند کی جا چکی ہے۔ ان جان لیوا حالات میں بھی حماس کے کارکنوں کے ہی نہیں‘ غزہ کے عام شہریوں کے حوصلے بھی بہت بلند ہیں۔ آگے بڑھنے اور ضمیرِ عالم کی بے حسی کا جائزہ لینے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ قارئین کو مسئلہ فلسطین کی ایک نہایت ہی مختصر تاریخی جھلک دکھائی جائے تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کتنے بڑے پیمانے پر زیادتی اور دھوکا ہوا ہے۔ ارضِ فلسطین میں پہلی مردم شماری 1922ء میں ہوئی تھی۔ اس کے مطابق وہاں کی مجموعی آبادی تقریباً ساڑھے سات لاکھ تھی۔ اس وقت فلسطینی مسلمانوں کی تعداد تقریباً چھ لاکھ تھی جبکہ یہودیوں کی تعداد صرف 83 ہزار اور عیسائی 73ہزار تھے۔ برطانیہ نے 1917ء میں یہودیوں کو یقین دلایا کہ وہ ارضِ فلسطین میں ایک صہیونی ریاست قائم کرائے گا۔ یہ وعدہ اس علاقے کے بارے میں کیا گیا جہاں یہودی صرف 10فیصد اور ان کے پاس صرف چھ فیصد رقبہ تھا۔ اس زمانے میں فلسطین کا عارضی انتظام برطانیہ کے پاس تھا۔ برطانیہ نے 1923ء سے دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو لا لا کر ارضِ فلسطین میں بسانا شروع کیا۔ 1936ء تک اہلِ فلسطین نے برطانیہ کی اس سازش اور نوآبادیاتی چال کو اچھی طرح پہچان لیا۔ 1936ء میں اہلِ فلسطین نے عرب نیشنل کمیٹی تشکیل دی اور انہوں نے برطانوی حکومت اور یہودی آبادکاروں کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف بھرپور ہڑتال کر دی۔ برطانیہ نے براہِ راست 1936ء سے لے کر 1949ء تک فلسطینیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا‘ کئی ہزار کو شدید زخمی کیا۔
1947ء سے 1949ء تک کے دو برس میں یہودیوں اور انگریزوں نے مل کر ارضِ فلسطین میں فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا اور لاکھوں کی تعداد میں انہیں اپنی زمینوں‘ جائیدادوں اور مکانوں سے بے دخل کرکے فلسطین سے باہر دھکیل دیا۔ فلسطینی ان دو برس کو ''نکبہ‘‘ یعنی ''صعوبتوں کا زمانہ‘‘ کہتے ہیں۔ ان سازشوں اور ان قاتلانہ و ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں یہودیوں کے پاس چھ فیصد رقبہ 78 فیصد ہو گیا اور فلسطینیوں کے پاس صرف 22 فیصد رہ گیا۔ اس غلامی سے نجات کے لیے گزشتہ 75برس سے اہلِ فلسطین نے جرأت و بہادری اور جانبازی کی داستانیں رقم کی ہیں۔ کبھی پی ایل او کی صورت میں‘ کبھی الفتح کے پلیٹ فارم سے اور کبھی حماس کی حیران کن قربانیوں کے ذریعے۔ حماس کے 7اکتوبر بروز ہفتہ کو اسرائیلی علاقوں میں گھس کر اُن کی جنگی تنصیبات پر حملے اسی کتابِ شجاعت کا تازہ ترین باب ہے۔امریکہ کی قیادت میں تقریباً سارا مغرب سوائے کینیڈا کے اسرائیل کی جارحانہ و ظالمانہ تاریخ کے ساتھ آنکھیں بند کرکے ''چٹان‘‘ کی طرح کھڑا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نام نہاد مہذب مغربی دنیا کے نزدیک استعماری کارروائیوں کے نتیجے میں مظلوم و محصور لوگوں کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ غاصب کے خلاف جدوجہد کریں اور اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑیں۔اب اسرائیل آگے سے آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ وہ باقی ماندہ 22فیصد زمین پر بھی فلسطینیوں کو جینے کا حق بھی نہیں دینا چاہتا۔
امریکی سرپرستی کی بنا پر اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ فلسطینی ہاتھ باندھے ان کے سامنے سرنگوں رہیں‘ مگر فلسطینیوں نے بارہا اپنی لازوال جرأت و شجاعت سے ثابت کیا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ چار پانچ روز قبل سکیورٹی کونسل میں امریکی مندوب اجلاس شروع ہونے سے پہلے سکیورٹی کونسل کے کئی ممبرز ممالک کے سفیروں کی منت سماجت کرتی نظر آئی۔ اس نے جب اسرائیل کی حمایت اور حماس کی مذمت کی قرارداد پیش کی تو پندرہ رکن ممالک میں سے کسی ایک نے بھی امریکی قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ جبکہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور جنگ بندی کے لیے کویتی قرارداد کی حمایت میں دس ووٹ آئے تھے۔
اگرچہ اسرائیل کی دائیں بازو کی فاشسٹ حکومت اپنی زمین بوس رعونت کے باوجود جارجانہ کارروائیوں سے باز نہیں آ رہی تاہم انصاف پسند یہودی اسرائیل کے اندر رہ کر نیتن یاہو کی امن کش پالیسیوں کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں عبرانی زبان کے معروف جریدے ہارز نے صہیونی تجزیہ نگار اری شاویز کا ایک آرٹیکل ''اسرائیل اپنی آخری سانس لے رہا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ہمارا مقابلہ اس وقت تاریخ کے مضبوط ترین لوگوں سے ہے۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ ہم فلسطینی لوگوں کو ان کے حقوق دیں اور ان پر اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کریں۔ امن قائم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ ہم فلسطینی علاقوں کو آزاد کریں اور نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کریں۔ اگر موجودہ اسرائیلی حکومت امن کے قیام کے لیے یہ مصالحانہ و عادلانہ پالیسی اختیار نہیں کرتی تو پھر ہمارے لیے اس ملک سے ہجرت کر کے کسی مغربی ملک میں آباد ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہوگا۔
امریکہ اپنے بحری بیڑے اور اسلحے کے ڈھیروں سمیت غاصب اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ تل ابیب آ کر صہیونی حکومت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر چکے ہیں۔ برطانیہ نے دو بحری جہاز اور جاسوس طیارے اسرائیل کے لیے بھیج دیے ہیں۔ اگرچہ اسلامی و مغربی دنیا میں مسلمانوں نے اسرائیل کی مذمت اور اہلِ فلسطین کی حمایت میں زبردست مظاہرے کیے ہیں۔ جمعۃ المبارک کے روز بھی پاکستان سمیت دیگر اسلامی دنیا میں فلسطینیوں کے ساتھ زبردست اظہارِ یکجہتی کے مظاہرے کیے گئے‘ تاہم مسلمان حکمرانوں کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ کوئی جاندار اظہار ِیکجہتی ہوا ہے اور نہ جنگ بندی کی کوئی مؤثر کوشش سامنے آئی ہے۔ اگرچہ جمعرات کے روز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر محمد رئیسی کی ٹیلی فونک بات چیت ہوئی تھی‘ تاہم ابھی تک او آئی سی کا کوئی اجلاس ہوا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف متحدہ اسلامی فرنٹ تشکیل دینے کی ایرانی تجویز پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ نہ جانے مسلمان حکمران کس سوچ میں گم ہیں اور کس شش و پنج میں مبتلا ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں