عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

1945ء میں ایڈولف ہٹلر نے برلن کے ایک زیر زمین مورچے میں خودکشی کرلی تھی۔ ہٹلر کی خود پرستانہ اور آمرانہ پالیسیوں کی بنا پر ہی دوسری جنگِ عظیم دنیا پر مسلط ہوئی تھی۔ 78 برس بعد ہٹلر کی ہر لحظہ تخریب پر آمادہ روح نیتن یاہو کے روپ میں دنیا کے سامنے نمایاں ہو کر آئی ہے۔
اسرائیلی طیاروں کی منگل کے روز غزہ کے الاہلی ہسپتال پر وحشیانہ بمباری کے بعد پانچ سو سے زائد مردوں‘ عورتوں اور بالخصوص بچوں کے لاشوں کو دیکھ کر دل تڑپ اٹھا ہے۔ غم و غصّے کی شدت کے اظہار کیلئے مجھے الفاظ نہیں مل رہے۔ اگر ایسا قاتلانہ و ظالمانہ حملہ کسی اور ملک نے کہیں کیا ہوتا تو عالمی کمیونٹی خاص طور امن کی ٹھیکیدار مغربی اقوام امریکی قیادت میں جارح ملک کی پُر زور مذمت کرتیں اور اسے عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کرتیں۔مگر اسرائیل کیلئے عدل و انصاف کے سارے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم کا احتساب نہیں کیا جاتا اور سارے قاعدوں اور ضابطوں کو اسرائیل کے سرپرست لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے القدس الشریف سمیت دیگر بہت سے فلسطینی علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ تیرہ چودہ روز کے دوران انسانیت سوز جنگی جرائم اور غزہ کے شہریوں پر بدترین بمباری پر تبصرہ و تجزیہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیوگوتریس نے کہا کہ 7اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف فلسطینی ردِعمل کہیں فضا سے نہیں آیا تھا بلکہ یہ ارضِ فلسطین پر 56سالہ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کا نتیجہ تھا۔ جب تک فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں دیے جاتے اور دو ریاستی فارمولے پر نیک نیتی سے عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اب تک غزہ کی شہری آبادی پر انسانیت کُش حملوں اور اہلِ غزہ کیلئے پانی‘ بجلی اور خوراک و ادویات بند کرنے کے منظر نامے نے بہت کچھ ایکسپوز کر دیا ہے۔ مغربی دنیا اپنے تئیں انسانی حقوق کی علمبردار کہلاتی ہے مگر اس کی انسانیت نوازی کا پول بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ وہ آج ایک بار پھر غاصب و جارح اسرائیل کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ امریکی صدر نے تل ابیب میں کہا کہ اسرائیل سے ہماری یکجہتی دراصل انسانیت کا تقاضا ہے جسے ہم پورا کر رہے ہیں۔ اُن سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے رہائشی علاقوں‘ سکولوں‘ مسجدوں اور ہسپتالوں میں انسان نہیں بستے؟
اسی طرح سکیورٹی کونسل کا ادارہ ویٹو پاور کی بنا پر غیر مؤثر ہو گیا ہے۔ یو این او کا سیکرٹری جنرل انسانی بنیادوں پر غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے دہائی دے رہا ہے مگر امریکہ سیز فائر کی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے۔ اسرائیل غزہ میں جنگ روکنے کے بجائے اسے مغربی کنارے اور شام تک پھیلا رہا ہے۔
اس طرح یہ آگ سارے شرق ِاوسط میں پھیل جائے گی۔ اسرائیل کیلئے امریکی حمایت اور جنگ بندی کو مسترد کرنے کے خلاف امریکہ میں یہودی کمیونٹی بھی بھرپور مظاہرے کر رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر رکن جوش پال امریکہ کی اسرائیل کیلئے حمایت پر عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ میں نے یہ فیصلہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو فوری بنیادوں پر ہتھیاروں کی فراہمی کے باعث کیا ہے۔
اسی طرح واشنگٹن کے کیپٹل ہل میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مسلسل اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مغربی میڈیا بھی ایکسپوز ہوا ہے‘ کئی معروف امریکی و مغربی چینل یک طرفہ طور پر اسرائیلی خبروں اور اس کے مؤقف کی تشہیر کر رہے ہیں۔ یہ چینل فلسطینیوں اور حماس کے مؤقف کو کوئی کوریج نہیں دے رہے۔ ان چینلز نے نیو یارک‘ ڈیلاس‘ ایوانِ کانگرس اور دوسرے کئی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کا بلیک آؤٹ کر رکھا ہے۔ الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی طیاروں کی اندھا دھند بمباری کے ناقابلِ ِتردید ثبوت موجود ہیں مگر اسرائیل نے ان فضائی حملوں کا الزام فلسطینیوں کی ایک جہادی تنظیم کے سر تھوپ دیا ہے۔ تاہم دنیا نے اس اسرائیلی جھوٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسرائیل کی ہر جگہ عوامی و حکومتی سطح پر بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کا یہ جھوٹ البتہ امریکی صدر نے من و عن قبول کر لیا ہے۔ عربی زبان کے محاورے کے مطابق عین الرضا یعنی خوشی کی آنکھ کو کوئی عیب نظر نہیں آتا جبکہ عین الغصب یعنی ناراضی کی آنکھ کو عیوب ہی عیوب دکھائی دیتے ہیں۔
کئی امریکی صدور فلسطین میں دو ریاستی فارمولے کو ہی خطے میں مستقل اور پائیدار امن کا حل سمجھتے تھے تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ریاستی فارمولے کے بجائے خطے میں اسرائیلی بالادستی کیلئے فلسطینیوں کی ریاست کو اپنی پالیسی سے حذف کر دیاتھا۔ جمی کارٹر 1977ء سے 1981ء تک امریکہ کے 39ویں صدر رہے۔ فلسطین کے بارے میں اُن کا مؤقف نہایت واضح تھا۔ اب ایک بار پھر غزہ اسرائیل جنگ کے بعد جمی کارٹر کے انٹرویو کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ اس کلپ میں جمی کارٹر نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں کا غاصب ہے۔ سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ آپ کسی کے علاقے پر قبضہ کریں اور طاقت کے بل بوتے پر قبضے کو جاری رکھنا چاہیں تو ایسا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ سابق امریکی صدر کے تجزیے کے مطابق علاقے میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو اُن کا حق لوٹا نہیں دیتا۔
امریکی تھنک ٹینکس اور امریکی دفتر خارجہ کو اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ اگر امریکہ اسرائیل کی بلامشروط مسلسل حمایت کرتا ہے اور نیتن یاہو آگ کے شعلے بھڑکانے کا شغل جاری رکھتا ہے تو اس سے سارا شرقِ ِاوسط صہیونی جنگی جنون کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اس سے بہت تباہی پھیلے گی اور عین ممکن ہے کہ اسرائیل کے ہاتھ کچھ آنے کے بجائے اسے ہاتھ سے بہت کچھ دینا پڑ جائے۔
اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھ درد پر ساری دنیا کے مسلمان تڑپ اُٹھے ہیں۔ وہ اپنے ملکوں اور دیارِ مغرب میں بھی لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ غزہ کے فلسطینی مرد و زن صبر و استقامت کا پہاڑ ہیں‘ تاہم ہزاروں کی تعداد میں اپنے پیاروں کی جدائی میں بعض بہنیں اور بیٹیاں شدتِ غم سے پکار اٹھتی ہیں۔ این المسلمون‘ این العرب مسلمان کہاں ہیں۔ عرب کہاں ہیں؟
تاہم عالمِ اسلام اور عالمِ عرب ابھی تک منقارِ زیر پر ہے۔ بدھ کے روز جدہ میں ہونے والے تنظیم ِتعاونِ اسلامی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ او آئی سی کے پرانے ریکارڈ میں دبی ہوئی کچھ فائلیں نکال کر ایک 20نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا گیا۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مطالبات کس سے کئے جا رہے اور کون انہیں پورا کرے گا۔ ان مطالبات پر عمل درآمد کیلئے او آئی سی نے کوئی منصوبہ بتایا نہ کوئی روڈمیپ دیا۔
عالمِ اسلام کی طرف سے20نکات کی نہیں صرف تین نکات کی ضرورت ہے۔ اتحاد‘ جرأت اور عملی روڈمیپ۔ او آئی سی‘ عرب لیگ اور بااثر عرب قوتیں اگر اپنے بھائیوں کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتیں تو کم از کم سفارتی سطح پر متحرک ہو کر سیزفائر تو کرا لیتیں۔مگر لگتا ہے قوت کے بغیر ''کلیمی‘‘ بھی بے سود ہے۔ مرشد اقبالؒ نے درست ہی تو کہا تھا ؎
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں