عدالتوں کے تیور

بظاہر داغ دہلوی نے تو خالص غزل کا شعر کہا ہے مگر نہ جانے کیوں گزشتہ کئی روز سے عدالتوں کے تیور دیکھ کر یہ یاد آیا ہے۔ آپ بھی سن لیجئے ؎
تیور ترے اے رشکِ قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثارِ سحر دیکھ رہے ہیں
28نومبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ سزا اور جزا سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا کہ آئین توڑنے کی سزا نہ بھی ملے غلطی تو تسلیم کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین توڑنے والے ججوں کی یہاں تصویریں کیوں لگی ہیں۔ آمروں کے ساتھ کھڑے رہنے والے صحافی بھی ذمہ دار ہیں۔ سب کا احتساب ہونا چاہئے۔اسی بنچ کے ایک اور ممبر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیوں نہ 12اکتوبر 1999ء کے اقدامات پر بھی کارروائی کی جائے۔ 12اکتوبر کو آئین توڑنا 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی سے زیادہ سنگین جرم تھا۔ اسی طرح 29نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کے کیس کی سماعت 10جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر لاپتہ بلوچ سٹوڈنٹس برآمد نہ ہوئے تو میں وزیر اعظم‘ وزیر داخلہ اور سیکرٹری دفاع و داخلہ کے خلاف اندراجِ مقدمہ کا حکم دوں گا اور پھر سب کو گھر جانا ہوگا۔
عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر ہم کوئی تبصرہ کرنا یا تجزیہ پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے البتہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دو عمومی نوعیت کے ریمارکس پر ہم اپنی گزارشات ضرور پیش کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہمیں قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل ٹھیک کرنا ہوگا۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ سزا جزا کا معاملہ اوپر بھی جائے گا۔ ماضی کو دیکھ کر مستقبل سنوارنے والی بات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی گواہی کئی قوموں کی تاریخ سے بھی ملتی ہے۔ مرشد اقبالؒ نے بھی اسی ازلی و ابدی حقیقت کی طرف اپنی مشہور زمانہ نظم ''مسجد قرطبہ‘‘ میں توجہ دلائی تھی۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
مگر ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ جس نے اپنی تاریخ پر نہ تاریخ کی روشنی میں اور نہ ہی اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اپنا کوئی حساب کتاب کیا ہے۔ ہم ''بے حساب‘‘ یعنی بلا احتساب بگٹٹ دوڑے چلے جاتے ہیں۔ ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں۔ زخموں سے چور ہوتے ہیں‘ پھر مرہم پٹی کرتے ہیں۔ جب زخم بھر جاتے ہیں اور پھر چند ہی سالوں میں کوئی ویسا ہی موقع آتا ہے تو ہم غور و فکر کرتے ہیں‘ نہ تدبر سے کام لیتے ہیں۔ بس اپنی اَنا کی رتھ کو اندھا دھند بھگاتے اور اسی منطقی حادثے سے دوچار ہو جاتے ہیں جس حادثے کا ہم چند برس پہلے شکار ہوئے تھے۔ اسی لئے تو ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ہم زیادہ پیچھے نہیں جاتے ‘قیام پاکستان سے ہی اپنا جائزہ لیتے ہیں۔بھارت کو بھی ہمارے ساتھ ہی آزادی ملی تھی مگر اس نے محض دوسال گیارہ ماہ اور سترہ دنوں میں 26 نومبر 1949ء کو اپنا دستور بنا لیا جس پر اب تک وہ عمل کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنا پہلا دستور 9برس کی محنت ِشاقہ کے بعد 1956ء میں بنایا ‘مگر ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں اس دستور کی بساط لپیٹ دی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور ہر طرح کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو ختم کر دیا۔ ایوب خان نے اخبارات پر سنسر عائد کر دیا۔اس فوجی انقلاب کا آنکھوں دیکھا حال ائیر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب '' تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ جب ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا تو اس نے جرنیلوں اور ججوں سے مشورہ کیا کہ جمہوری دستور تو ہم نے توڑ دیا ہے مگر اب کسی دستور پر ملک تو چلانا ہوگا وہ کیسے بنے گا؟ سب چپ رہے مگر اُس وقت کے چیف جسٹس منیر نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ ایک کام کیجئے بڑے بڑے شہروں میں جلسہ ہائے عام سے خطاب فرمائیں‘لوگوں سے کچھ جذباتی باتوں پر ہاتھ کھڑے کروائیں اور اپنی مرضی کا دستور نافذ کر دیں۔ ہماری تاریخ کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا؟
دس برس ایوب خان کے خلاف چھوٹی بڑی کئی تحریکیں چلیں۔ 1968ء اور 1969ء کے درمیان چلنے والی متحدہ جمہوری تحریک کے سامنے وہ نہ ٹھہر سکے اور انہوں نے اپوزیشن کے سارے جمہوری مطالبات منظور کر لئے مگر جاتے جاتے وہ اپنے ہی 1962 ء کے دستور کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کی بجائے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے۔ ایوب خان نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی یحییٰ خان نے کسی فہم و فراست سے کام لیا۔ مختصراً یہ کہ جب اپنے ہی لیگل فریم ورک آرڈر کے مطابق یحییٰ خان نے 1970ء میں انتخابات کروائے‘ جن میں شیخ مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان میں ننانوے فیصد اکثریت ملی‘ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی سیٹیں باقی جماعتوں سے زیادہ تھیں۔ یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کے مشورے سے مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کی بجائے مغربی پاکستان کی جیل میں قید کر دیا‘ باقی ساری تاریخ ہے۔ یوں پہلے ڈکٹیٹر نے متفقہ دستور توڑنے کی بنیاد رکھی‘ دوسرے نے مشرقی پاکستان کی انتخابی اکثریت کو جوتوں تلے روند دیا اور یوں ملک دولخت ہو گیا اور ہمیں سانحہ سقوط ڈھاکہ کے کربِ عظیم سے گزرنا پڑا۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس طرح باقی ماندہ مغربی پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو تمام تر اختیارات بلکہ پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے رتبۂ جلیلہ پر فائز ہوئے‘ تمام سیاسی جماعتوں اور قوم نے اُن کا ساتھ دیا اور 1973ء میں ایک بار پھر متفقہ اسلامی و جمہوری دستور بن گیا۔ مگر تمام تر مطالعے اور وسیع تر تاریخی شعور کے باوجود بھٹو صاحب نے تاریخ سے ہرگز کوئی سبق نہ سیکھا۔ بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخابات کا طبل بجا دیا‘ بلامقابلہ منتخب ہونے کے شوق میں مخالف امیدوار کو غائب کرا دیا اور اسے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہ کروانے دیئے۔ یہی کچھ اُن کے صوبائی وزرائے اعلیٰ نے کیا۔ بھٹو صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اُن کے بہت سے امیدواروں نے انتخابی دھاندلی کی حد کر دی۔ یوں اپوزیشن نے انتخابی نتائج کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب نئے انتخابات کیلئے آمادہ ہو گئے مگر تاخیری حربوں سے کام لیتے رہے اور یوں سیاست کو صاف شفاف جمہوری راستے پر ڈالنے کا انہوں نے بہترین موقع ضائع کر دیا۔ ایک بار پھر 1977ء میں فوج اقتدار پر قابض ہو گئی۔ آگے پھر وہی دائرے میں سفر کرتی ہماری تاریخ ہے۔ بھٹو مرحوم کا انجام ایک درد ناک المیہ کی صورت میں ہوا جو ساری قوم کو غمناک کر گیا۔
اس کے بعد بھی یہی کھیل کئی برس تک جاری رہا۔ اسی لئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا اور اُن غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا جن کی بنا پر ہم بار بار سانحات و حادثات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔چیف جسٹس صاحب نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جرمنی اور اٹلی میں فسطائیت اور سپین و جنوبی افریقہ میں آمریت تھی مگر انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا‘ اب یہ ممالک اپنی اپنی جمہوری شاہراہِ دستور پر گامزن ہیں۔انہوں نے سو باتوں کی ایک بات یہ کہی کہ دنیا کی عدالتوں میں ہی نہیں اوپر کی عدالت میں بھی ہمیں اپنے اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔اگر عرشِ بریں کی جوابدہی کا احساس دلوں میں زندہ ہو تو پھر یہ پاک سرزمین جنت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں