سچ بولنے کا عزم

شاعر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
میاں نواز شریف بھی جبرِ ناروا کے لگائے ہوئے زخموں پر مصلحت کا مرہم بار بار رکھتے تو ہیں مگر پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تلخ نوائی اور صدائے احتجاج پر اُتر آتے ہیں‘ تاہم انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لندن سے آنے یا ان کو بلائے جانے کا بنیادی مقصد پرانے زخموں کو کریدنا نہیں بلکہ سیاست و معیشت دونوں کے دیرینہ بگاڑ کو درست کرنا ہے۔ معیشت تقریباً گور کنارے پہنچ چکی ہے۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے‘ وہ مسلسل مقتدرہ اور سیاست دانوں کی باہمی کشاکش کا شکار ہے۔ درمیان میں بیچارے عوام بہت بری طرح پس رہے ہیں۔
حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک بار پھر زخمِ دل کی روداد سنائی ہے۔ 9دسمبر کو میاں نواز شریف نے ایک بار پھر نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''میری حکومتیں گرانے کا حساب دو‘‘ یعنی اب بات حکومت سے حکومتوں پر آ گئی ہے۔ گویا مسلم لیگ (ن) کے قائد 1993ء‘ 1999ء اور 2017ء تک کی حکومتیں گرانے کا حساب مانگ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے ایک اور بڑی اہم بات بھی کہی ہے کہ الیکشن میں عوام سے سچ بولوں گا۔ سچ بولنے سے بڑھ کر اور کوئی اچھی بات نہیں لیکن انہیں یقینا ادراک تو ہوگا کہ
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے
اگرچہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جلسوں‘ ریلیوں اور پارٹی ورکرز کے اجتماعات سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے مگر اس مہم میں ہنوز بھرپور گہما گہمی اور رونق نہیں نظر آ رہی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بار بار ایک ہی بات دوہرا رہے ہیں کہ الیکشن ہونا چاہیے نہ کہ سلیکشن۔ بلاول کی ساری انتخابی مہم کا فوکس مسلم لیگ (ن) کے خلاف تیر اندازی تک محدود ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کی طرح انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے پہلے اپنے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں اور ہم خیال جماعتوں سے انتخابی اتحاد کے لیے ملاقاتوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف ایم کیو ایم کے وفد سے تفصیلی ملاقات کر چکے ہیں جس کا اُن کی جماعت کی طرف سے فالو اَپ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے پی ڈی ایم حکومت میں چودھری صاحب کی حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور مستقبل کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات پکی کر لی ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے دونوں مسلم لیگوں کے انضمام کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔
جہاں تک جے یو آئی کا تعلق ہے تو اس نے بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ محدود نوعیت کا انتخابی اتحاد کر لیا ہے تاہم مولانا فضل الرحمن بعض اوقات ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جن سے بے یقینی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں‘ کبھی مولانا سرد موسم سے ڈراتے تھے اور اب بعض صوبوں میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان حالات میں ووٹر کیسے ووٹ دیں گے۔ کچھ روز قبل جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی صاحب نے بھی اپنے صوبے کے بعض علاقوں میں امن و امان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
جماعت اسلامی کی بات کریں تو وہ کئی ماہ سے انتخابات کیلئے نہ صرف یکسو ہے بلکہ اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ جماعت کے امیدوار کئی ہفتوں سے اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔ وہ کہیں کارنر میٹنگ اور کہیں ڈور ٹو ڈور دستک دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت دھڑلے سے یہ اعلان بھی کر رہی ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑے گی اور کسی اور پارٹی سے اتحاد کرے گی نہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ۔ ہرچہ بادا باد والا بے پناہ اعتماد دو ہی وجوہات سے ہو سکتا ہے‘ بے پناہ مقبولیت یا انتخابی منظر نامے سے عدم واقفیت۔
اس محدود انتخابی گہما گہمی میں پی ٹی آئی ابھی تک نمایاں نہیں۔ اگرچہ عمران خان نے غالباً اپنے سیاسی کیریئر کی اکلوتی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنے بغیر تحریک انصاف کے پارٹی انتخاب کی اجازت دی اور بطور چیئرمین بیرسٹر گوہر خان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار بھی کر دیا۔ الیکشن کمیشن کی شرط پوری کرنے کے لیے تحریک انصاف کے اندر انتخابات کروا دیے گئے اور چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور عمران خان کے نامزد کردہ دیگر عہدیداروں کو منتخب کر لیا گیا۔ اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کے انتخابی پروسیجر پر سوالات اٹھاتے ہوئے ایک درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کر دی ہے اور انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ اس درخواست کو الیکشن کمیشن نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کے پارٹی انتخابات سوائے جماعت اسلامی کے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات وراثت کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا نامزدگی کی بنیاد پر۔پیپلز پارٹی میں گزشتہ نصف صدی سے پارٹی چیئرمین شپ خاندانی وراثت کے طور پر منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔ یہی کچھ مسلم لیگ (ن) میں ہوتا ہے۔ اسی طرح جے یو آئی میں بھی وراثت ہی چل رہی ہے۔ مولانا مفتی محمود کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سالہا سال سے سربراہ منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں میں پارٹی انتخابات محض الیکشن کمیشن کی شرط پوری کرنے کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ دیکھئے الیکشن کمیشن سے کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے الیکشن مہم میں آزادانہ طور پر سامنے آنے سے انتخابی عمل کی رونق ہی نہیں‘ کریڈیبلٹی بھی بڑھ جائے گی۔ ''کاش‘‘ کہنا کہ یوں ہوتا تو ایسے ہوتا وغیرہ ہمارے مذہب میں پسندیدہ نہیں۔ تاہم تاریخ میں ایسے بے شمار ''کاش‘‘ ہیں کہ جن سے حالات کا دھارا یکسر بدل جاتا۔
عمران خان پارٹی چیئرمین اور وزیراعظم کی حیثیت سے پارٹی میں کم ہی کسی کی بات سنتے تھے۔ بالخصوص اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے پر ان کے دوست‘ ہمدرد‘ غم خوار اور کئی دانشور انہیں ''میں نہ مانوں‘‘ کے بجائے مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیتے تھے۔ اگر خان صاحب اُن کے سیاسی مشوروں پر کان دھرتے تو انہیں شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘ بظاہر ان حالات میں کسی وسیع تر سیاسی مفاہمت کا کوئی نقش قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا مگر امکانات کی دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ ہم کالم کی آخری سطور پر پہنچے تو گیارہ دسمبر کے ایک قومی اخبار میں تحریک انصاف کی ایک اہم شخصیت کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ خان صاحب نے اپنی بعض پالیسیوں پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کی روشنی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسی جماعتوں سے بھی مذاکرات بعید از قیاس نہیں‘ اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو یہ قومی سیاست کے لیے باعث ِخیر و برکت ہوگا۔
ایک بات ہمیں من حیث القوم سمجھ لینی چاہیے کہ ملکی استحکام اور بے یقینی کے خاتمے کے لیے 8فروری کو فری اور فیئر انتخابات کا انعقاد از بسکہ ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں متحدہ اور متفقہ کوشش کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ اگریہ موقع کسی بنا پر ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مدتوں سیاست دان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے عوام سے سچ بولنے کا جو عزم کیا ہے‘ یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ اگر ہمارے سارے سٹیک ہولڈرز اور سارے سیاست دان اپنے اپنے حصے کا سچ بول کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں اور آئندہ آئین پر اس کی روح کے مطابق چلنے کا دل و جان سے عہد کر لیں تو ان شاء اللہ ہمارے دن بھی بدل سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں