بروقت فیصلہ

ہمارے ہاں پلک جھپکنے میں ایسے ایسے محیّر العقول واقعات رونما ہو جاتے ہیں کہ جن سے ٹریک پر دوڑتی گاڑی کو یکدم بریکیں لگ جاتی ہیں یا لگا دی جاتی ہیں۔ پھر سارا عالم حیران و ششدر ہو کر دیکھتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ مستحکم روایات والے جمہوری ممالک میں انتخابات کا انعقاد‘ انتقالِ اقتدار اور نئی حکومتوں کی تشکیل ایک خودکار عمل ہے۔ بعض ملکوں میں دہائیوں بلکہ صدیوں سے عام انتخابات کی تاریخیں طے شدہ چلی آ رہی ہیں۔ اس انتخابی پروگرام اور پروسیجر سے سرمو انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وطنِ عزیز میں لیکن ہر انتخاب کے موقع پر بے یقینی کی فضا ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ کوئی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں اور اگر ہوں گے تو کب ہوں گے۔
اس بار بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ الیکشن کمیشن سے عام انتخابات کی تاریخ مانگی جا رہی تھی۔ اس دوران رنگ رنگ کی بولیاں سننے میں آ رہی تھیں۔ بالآخر پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے 3نومبر کو فیصلہ صادر کیا کہ عام انتخابات 8فروری 2024ء کو منعقد ہوں گے۔ اس دوران افواہ سازی کی فیکٹریوں نے تیزی سے بے یقینی کو عام کرنے کے لیے طرح طرح کی غیر مصدقہ خبریں پھیلائیں۔ سوشل میڈیا اور بعض دانش وروں کی نجی محفلوں میں یہاں تک کہا جانے لگا کہ انتخابات تب ہوں گے جب ''مثبت نتائج‘‘ کے حصول کو یقینی بنا لیا جائے گا۔ 3نومبر کے فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان پتھر پر لکیر ہو گا۔ یہاں تک کہاگیا تھا کہ انتخابات کی طے شدہ تاریخ کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے والے کا عدالتی مواخذہ ہوگا اور انہیں سزا بھی دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی شیڈول کے اجرا میں تاخیر کو عذر بنا کر میڈیا پر کچھ بڑے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے کلپس بھی چلائے گئے‘ ان کلپس میں کہا گیا تھا کہ موسمی حالات یا ''ناگزیر وجوہات‘‘ کی بنا پر انتخابات چند روز کے لیے آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ انتخابات بیورو کریسی سے کرانے کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے درخواست گزار کی استدعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور بیورو کریسی کے ذریعے پنجاب میں انتخابات کرانے کا نوٹیفکیشن معطل کر یا۔ بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے اور فریقِ ثانی الیکشن کمیشن سے اس سلسلے میں کوئی استفسار تک نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی روشنی میں سارے ملک میں ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی سات روزہ ٹریننگ روک دی تھی۔ یوں لاہور کی موسمی فضا میں چھائے ہوئے سموگ کی طرح سارے ملک کی سیاسی فضا پر نہایت گہرا سموگ چھا گیا۔ اگر یہ معاملہ روٹین کے مطابق چلتا تو پھر نجانے کتنے ہفتوں اور مہینوں کیلئے انتخابات ملتوی ہو جاتے‘ تاہم جمعۃ المبارک کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا اور اُسے پٹیشن کے حوالے سے مزید کوئی کارروائی کرنے سے روک دیا۔ یوں عدالتِ عظمیٰ کے دیے گئے فیصلے سے بے یقینی کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور ڈی ریل ہوتی ہوئی گاڑی ایک بار پھر ٹریک پر آ گئی۔
چیف الیکشن کمشنر نے جمعہ کے ہی روز واضح کمٹمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی چیئرمین قومی ہیرو ہیں۔ سب پارٹیوں کے لیے ایک طرح کی مساوات برقرار رکھنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر کے دعوے اپنی جگہ‘ تاہم پی ٹی آئی کی انتخابی شرکت کے حوالے سے بے یقینی کی دھند ابھی تک چھائی ہوئی ہے۔ مجھے حیرت یہ ہے کہ چند ہی روز قبل پی ٹی آئی کے کسی سینئر رکن کی طرف سے ایسا بیان سامنے آیا تھا کہ جیسے کیسے بھی حالات ہوئے ہم انتخابات میں ضرور حصہ لیں گے۔ پھر انہوں نے ایسا راستہ کیوں اختیار کیا جس سے الیکشن کے التوا کے بارے میں شدید خدشات و خطرات پیدا ہو سکتے تھے۔ ہمیں ٹیلی ویژن پر سپریم کورٹ میں جمعۃ المبارک کی شام ہونے والی سماعت کو براہِ راست دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے جواں سال وکیل سجیل سواتی کی تیاری اور پرفارمنس دیکھ کر مسرت ہوئی۔ وکیل موصوف نے عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دیے۔ انہوں نے فاضل جج صاحبان کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کی ہائی کورٹس کو خطوط لکھے کہ وہ آر اوز اور ڈی آر اوز کے لیے عملہ اور سیشن ججز کی تعیناتی کے لیے نام مہیا کریں۔ مگر کسی صوبے کی ہائی کورٹ سے مثبت جواب نہیں آیا۔ اگر عدلیہ افراد نہیں مہیا کرے گی تو انتظامیہ سے لینے پڑیں گے۔ اور آئین میں یہی لکھا ہوا ہے کہ عدلیہ یا انتظامیہ سے عملہ لیا جائے۔ ہمارے ہاں کلچر ہی کچھ ایسا بن گیا ہے کہ انتخابات کسی کی بھی معاونت یا نگرانی میں کیوں نہ ہوں‘ ہارنے والے سیاست دان فراخ دلی سے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ 2013ء میں عدلیہ کے زیر انتظام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا مگر انہی نتائج پر تحریک انصاف کو شدید تحفظات اور اعتراضات تھے۔ پھر عمران خان کا 2014ء والا طویل دھرنا انہی نتائج کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔
8فروری کا الیکشن بال بال بچا ہے۔ اگر سردیوں کی چھٹیوں کے لیے چیف جسٹس بیرونِ ملک چلے جاتے‘ اس دوران الیکشن کمیشن کتنی ہی وضاحتیں کیوں نہ دیتا رہتا مگر ان وضاحتوں پر کوئی کم ہی یقین کرتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں کے درمیان مفاہمت ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانیوں کا قلع قمع ہو سکے۔ اگرچہ ہماری جملہ مشکلات کا ازالہ محض انتخابات کے انعقاد سے نہ ہو سکے گا تاہم جمہوریت کا تسلسل ہماری قومی زندگانی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے جسم کی صحت مندی اور تروتازگی کے لیے خون کی گردش۔ اگر دستور میں طے شدہ مدت کے مطابق انتخابات نہ ہوں تو پھر جمہوریت کا شجر مرجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دس دس‘ بارہ بارہ سال کے لیے ڈکٹیٹر شپ آ تی رہی ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی رہی ہے۔ ہمارے دکھوں کا مداوا بنیادی جمہوریتوں میں ہے‘ نہ ہی ''کنٹرولڈ جمہوریت‘‘ کا کوئی ماڈل ہمارے پیچیدہ مسائل حل کر سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بڑی سخت جان واقع ہوئی ہے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ کر ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے مگر جب برسوں کے بعد بہار کے امکان روشن ہوتے ہیں تو پاکستانی جمہوریت کا یہ سخت جان پودا پھر یہاں کی موافق فضا میں جڑ پکڑ لیتا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اقتدار کے ویٹنگ روم میں ہوں یا جیل کی کوٹھڑی میں‘ انہیں اپنی سیاسی و شخصی جدوجہد کا ناقدانہ جائزہ لے کر اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسی طرح انہیں اپنی ماضی کی تاریخ کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور بخوشی اپنی ذاتی و قومی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی اصلاح کا تہیہ بھی کر لینا چاہیے۔ ہمیں من حیث القوم سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے بروقت فیصلہ دے کر ہماری سیاسی گاڑی کو ڈی ٹریک ہونے سے بچا لیا اور ہمیں جادۂ منزل پر گامزن کر دیا۔ ہماری دعا ہے کہ انتخابی گاڑی تمام سیاسی پارٹیوں سمیت بحفاظت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں