انتخابی صف بندیاں اور جماعت اسلامی

اب تو بے یقینی کے سیاہ بادل بظاہر چھٹ گئے ہیں‘ انتخابی مطلع بالکل صاف ہے۔ سپریم کورٹ نے اتنا واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ اب جادۂ انتخاب سے انحراف تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جس وقت یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا اس وقت تک کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو چکے ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں گزشتہ کئی ہفتوں سے نئی نئی انتخابی صف بندیوں کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان کراچی میں انتخابی اتحاد بارے اصولی اتفاق لاہور میں ہو گیا تھا اور اب فالو اَپ میٹنگزجاری ہیں۔ بقول غالب ؎
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
گزشتہ دو اڑھائی ہفتوں سے بلوچستان سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پہلے یہاں میاں نواز شریف‘ اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین دورے پر آئے۔ اُن کے دورے کے مثبت اثرات سامنے آئے اور نظریۂ ضرورت کے تحت 2018ء میں بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں لوٹ آئے ہیں۔ جام صاحب نے ادراک کر لیا ہے کہ اُن کے پرانے سیاسی آشیانے پر بہار آئی ہے۔ میاں نواز شریف کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کے ساتھ بلوچستان جا پہنچے۔ انہوں نے سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی جیسے کئی پنچھیوں کو اپنے دامِ سیاست میں گرفتار کر لیا ہے جو مقتدرہ سے قربت رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ اُدھر کے اشاروں کا کچھ رُخ تبدیل ہو رہا ہے۔
میاں صاحب پرانے بیانیے سے دستبردار ہو کر معیشت کی تعمیرِ نو کا نیا بیانیہ اختیار تو کر چکے تھے مگر بار بار اُن کے دل کے پھپھولے سینے کے داغوں سے جل اٹھتے ہیں اور میاں صاحب پرانے بیانیے کو نیا لفظی پیرہن عطا کرکے تلخ نوائی یا حقیقت بیانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میاں صاحب کی ''مجبوری‘‘ سے ان کے ووٹروں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے البتہ کچھ غیبی حلقوں میں بدگمانیاں بھی پیدا ہو رہی ہے۔جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو ان کی نگاہ ہمیشہ اپنے اہداف پر ہوتی ہے۔ ایک طرف انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا ڈول ڈال دیا ہے اور دوسری طرف بدھ کے روز ان کی ہدایت پر خیبرپختونخوا میں جے یو آئی نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ انتخابی فارمولا طے کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان میں سب سے منظم اور سب سے زیادہ کارکنوں والی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ جماعت کو گزشتہ 75برس کے دوران جس جس شعبے میں وزارتیں ملیں یا جہاں جہاں انہوں نے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی حیثیت سے کام کیا وہاں انہوں نے زبردست نیک نامی کمائی۔ اپنے ہی نہیں‘ ان کے مخالفین بھی انہیں بہترین کارکردگی اور سو فیصد دیانت داری کی سند دیتے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی اچھی پرفارمنس اور ایسی مثبت شہرت رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کو ملکی سطح پر پذیرائی کیوں نہیں ملتی؟
ہم نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ جماعت اسلامی کے موجودہ انتخابات میں کیا ارادے ہیں اور ان کی انتخابی حکمت عملی کیا ہے؟ جہاں تک صوبہ پنجاب کا تعلق ہے تو اس میں جماعت اسلامی کے بعض زعما کا کہنا ہے کہ وہ سرپرائز دیں گے۔ ہم نے ان قائدین سے پوچھا کہ آپ بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کیوں نہیں کرتے؟ ان صاحبان کا کہنا تھا کہ اس بار ووٹر جماعت کی طرف مائل ہوں گے کیونکہ حل صرف جماعت اسلامی ہے۔ تاہم پنجاب میں جماعت کی خوش اعتمادی گیلپ سرووں اور زمینی حقائق سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتی۔جماعت اسلامی پنجاب کے بعض ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ہم سیٹوں کی تعداد کے بارے میں کوئی دعویٰ تو نہیں کر سکتے مگر اس بار ہمارا ووٹ بینک بڑھے گا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ انتخاب کامیابی کیلئے لڑا جاتا ہے نہ کہ ووٹوں کی تعداد میں اضافے کیلئے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پنجاب میں جماعت اسلامی کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔
کراچی کے بارے میں مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی ایک بار 1970ء کی دہائی اور اس کے بعد کی بلدیاتی کامیابیوں کے سنہری دور کی طرف لوٹ رہی ہے۔ 1977ء کے انتخاب میں کراچی میں جماعت نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح دو بار جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اور ایک بار نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کراچی کے میئر رہے۔ ان میئرز نے کراچی کی تعمیر و ترقی میں زبردست اضافہ کیا اور شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے۔ پھر آمریت کے سائے میں کراچی کو ایم کیو ایم کے ہیبت ناک دیو کے سپرد کر دیا گیا۔ اس دیو نے شہر سے اس کی خوبصورتی‘ اس کی امن پسندی‘ اس کی رواداری اور جمہوری روایات کی پاسداری چھین لی۔ اس کے بدلے اس غریب پرور شہر کو دہشت‘ وحشت‘ بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔
اب لگ بھگ تین کروڑ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو خدا خدا کرکے کچھ امن نصیب ہوا ہے۔ تبھی تو ایم کیو ایم کو پے در پے انتخابی شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چند ماہ قبل کے بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کو زبردست کامیابی ملی اور اب قومی انتخاب میں بھی جماعت کو شاندار نتائج کی توقع ہے۔ ہم نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ جماعت کراچی میں قومی اسمبلی کی تمام 22اور صوبائی اسمبلی کی 47سیٹوں پر حصہ لے رہی ہے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ہمیں ان شا اللہ بھرپور کامیابی کا یقین ہے۔ میں نے امیرِ جماعت کراچی سے کہا کہ آپ اس یقین کو حق الیقین بنانے کیلئے اتحاد کیوں نہیں کرتے؟ انکا جواب تھا کہ میں اتحاد کی برکت سے انکاری نہیں ہوں مگر کس سے اتحاد کریں؟ ایم کیو ایم اب کوئی انتخابی قوت نہیں۔ پیپلز پارٹی ہی انتخابی اکھاڑے میں ہماری اصل حریف ہے۔ کراچی کے لوگ پیپلز پارٹی کو عروس البلاد کی بربادی کا اصل سبب سمجھتے ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو یقینا اس کا ووٹ بینک ہے۔ مگر کراچی کے باشعور ووٹر سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخاب کی طرح پی ٹی آئی کے ممبران منتخب ہو بھی جائیں تو وہ کامیابی کے بعد دولت کی چمک یا طاقت کی دھمک سے ہائی جیک ہو جائینگے۔ حافظ صاحب کے ''عاجزانہ دعوے‘‘ کے مطابق اب کراچی میں ووٹروں کا سیلِ رواں جماعت اسلامی ہی کی طرف آئیگا۔
اسی طرح بلوچستان میں مکران ڈویژن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہاں بھی جماعت اسلامی کو شاندار کامیابی ملے گی۔ بلوچستان میں جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم صوبے کی اکثر سیٹوں پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع گوادر‘ تربت اور پنجگور کی دو قومی اسمبلی اور سات صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر ہمیں بھرپور کامیابی کی قوی امید ہے۔ یہاں جماعت اسلامی ''حق دو بلوچستان تحریک‘‘ کے پرچم تلے انتخابی اکھاڑے میں اُتری ہے۔روایتی طورپر خیبرپختونخوا جماعت اسلامی کا صوبہ سمجھا جاتا ہے اور جناب سراج الحق یہاں سے ہی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہاں کے انتخابی منظر نامے کے بارے میں کوئی پیشگوئی مشکل ہے۔ اس صوبے میں تحریک انصاف ایک بڑا فیکٹر ہے۔ نیز کئی نئے انتخابی اتحاد بھی منظر عام پر آ چکے ہیں ۔انتخابات یقینی ہیں مگر لگتا یوں ہے کہ کسی ایک جماعت کو واضح مینڈیٹ نہیں ملے گا اور ایک بار پھر مخلوط حکومت ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں