بنگلہ دیش انتخابات: وَن وومن شو

ہفتے کے روز یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا اور اس سے اگلے روز‘ سات جنوری کو بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ نتیجہ ہم ابھی سے آؤٹ کر دیتے ہیں۔ ان انتخابات کا رزلٹ ''وَن وومن شو‘‘ ہو گا۔ حسینہ واجد ایک بار پھر بلکہ چوتھی بار بھاری اکثریت سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم ''منتخب‘‘ ہو جائیں گی۔ شاید اسلامی ملکوں کے حکومتی ڈی این اے میں آمریت ہی آمریت ہے‘ جمہوریت کوئی نہیں۔ اِکا دُکا مسلمان ملکوں کو چھوڑ کر جہاں کہیں جمہوریت کا کوئی پودا لگا بھی تو وہ بن کھلے مرجھا گیا۔ کہیں اس پودے کی نمو میں آمریت سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی اور کہیں سیاستدانوں نے خود جمہوریت کا گلہ دبوچ کر رکھا۔ بنگلہ دیش میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ حسینہ واجد گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ''آمرانہ جمہوریت‘‘ کے ذریعے بار بار برسرِ اقتدار آ رہی ہیں اور اسی سیاسی ماڈل کے سہارے وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت مینج کرکے وزارتِ عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجانے کے لیے ضروری اقدامات کر چکی ہیں۔ یہ آمرانہ جمہوریت‘ وَن مین شو اور وَن پارٹی سیاست کا ماڈل انہیں اپنے والد محترم شیخ مجیب الرحمن سے ورثے میں ملا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن جب سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش میں برسراقتدار آئے تو وہ جمہوریت کو بھلا چکے تھے اور وَن پارٹی کے داعی بن چکے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے جمہوریت کی دہائی دے کر ہی عالمی حمایت حاصل کی تھی مگر انہوں نے آل پاور فل لیڈر کے طور پر اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے یہ اعلان کیا تھا ''ایک نیتا ایک دیش‘ شیخ مجیب بنگلہ دیش‘‘۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں میں سے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی پہلے نمبر پر ہے۔ اس پارٹی کے ایک سینئر رہنما عبدالمعین خان نے عالمی میڈیا کو بتایا ہے کہ پارٹی کے 20ہزار سے زائد حامیوں‘ لیڈروں اور کارکنوں کو من گھڑت الزامات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے گزشتہ تین ادوارِ حکومت کے دوران سیاسی محرکات کی بنا پر گرفتاریوں‘ گم شدگیوں‘ اندھے قتل اور دیگر کئی قسم کی زیادتیوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے ادوارِ حکومت میں جماعت اسلامی کے صف ِاول کے بہت سے قائدین کو نام نہاد وار کرائمز کورٹ کے ذریعے سزائے موت دلوائی۔ ان قائدین میں جناب قمرالزماں‘ عبدالقادر مُلا اور مطیع الرحمان نظامی جیسے جماعت کے زعما شامل تھے۔ ہومین رائٹس واچ نے حال ہی میں بنگلا دیش میں حزبِ اختلاف کے خلاف عوامی لیگ کے ظلم و ستم کو پُرتشدد آمرانہ کریک ڈاؤن قرار دیا ہے۔ ستم ظریقی ملاحظہ کیجیے کہ 1980ء کی دہائی میں جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے خلاف اور جمہوریت کی حمایت میں شیخ حسینہ واجد نے اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف خالدہ ضیا اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائی تھی مگر1996ء میں وزیراعظم بن کر انہوں نے جمہوریت کو چھوڑ کر آمریت کا راستہ اپنا لیا ‘مگر انہی آمرانہ رویوں کی بنا پر خالدہ ضیا سے 2001ء کا انتخاب ہار گئی تھیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں آمریت اپنی بدترین شکل میں موجود ہے اور انسانی و بنیادی حقوق کی پامالی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ نومبر 2023ء میں اقوامِ متحدہ کے ایک خصوصی گروپ نے بنگلہ دیش میں صحافیوں‘ انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی اہم شخصیات پر حملوں کیلئے عدالتی نظام کو ہتھیار بنانے کا الزام حسینہ واجد حکومت پر عائد کیا ہے۔ حسینہ واجد اپنے سیاسی مخالفین کو ہی نہیں بنگلہ دیش کے کئی محسنوں کو بھی نشانۂ ستم بنا رہی ہیں۔ نوبل انعام یافتہ اور عالمی شہرت رکھنے والے بنگلہ دیشی ماہرِ معیشت ڈاکٹر محمد یونس گزشتہ کئی برسوں سے بنگلہ دیشی وزیراعظم کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ ابھی حال میں ہی انہیں لیبر لاز کی خلاف وزی پر چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ وہ ڈاکٹر یونس ہیں جو غریب ترین بنگلہ دیشی عوام کو گزشتہ کئی دہائیوں سے چھوٹے قرضے فراہم کر رہے ہیں اور انہیں خود کفیل بنانے کی کامیاب پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے اس کام کو ساری دنیا میں بہت سراہا گیا ہے۔ دراصل حسینہ واجد ڈاکٹر یونس کی مقبولیت اور سیاست میں اُن کی دلچسپی سے خائف ہیں۔
خالدہ ضیا تو اس وقت جیل میں طویل قید کاٹ رہی ہیں۔ بڑھاپے کے علاوہ انہیں کئی بیماریاں بھی لاحق ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے وزیراعظم حسینہ واجد سے بنگلہ دیش کے بنیادی دستور کے مطابق کیئر ٹیکر حکومت کا مطالبہ کر رکھا تھا جسے حسینہ واجد نے مسترد کر دیا ہے۔ اس انکار کے بعد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے سات جنوری کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انہی آمرانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے داخلی حالات بدامنی کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے سیاسی مخالفین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں پر یورپ و امریکہ کی طرف سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔ ان مغربی ملکوں کی طرف سے بنگلہ دیش کو دی جانے والی تجارتی رعایتیں ختم کرنے کے بارے میں بھی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کی اکثر تعریف و توصیف کی جاتی ہے تاہم اقتصادی ترقی کا انحصار بھی سیاسی استحکام پر ہے۔ بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگست 2021ء میں 48ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے‘ تاہم اب یہ ذخائر صرف 20ارب ڈالر باقی رہ گئے ہیں جو تین ماہ کی درآمدات کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ 2016ء کے بعد اب بنگلہ دیش کا غیر ملکی قرضہ بھی دوگنا ہو چکا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ابتدا سے ہی دائیں بازو کی پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ 2013ء میں جب عوامی لیگ نے جماعت کے انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈویلپمنٹ پارٹی کے روپ میں سامنے آ گئی۔ البتہ بنگلہ دیش ڈویلپمنٹ پارٹی کے موجودہ صدر انوار الاسلام چن نے جماعت اسلامی کے ساتھ کسی قسم کے الحاق کی تردید کی ہے۔ بنگلہ دیش ڈویلپمنٹ پارٹی کے صدر اقرار کریں یا انکار مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جماعت سے قربت رکھنے والے بہت سے سیاسی قائدین و کارکنان بنگلہ دیش ڈویلپمنٹ پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی خود کو انتخابی اکھاڑے سے باہر رکھنے پر کیوں مُصر ہے۔ سیاسی شعور کا تقاضا تو یہ ہے کہ انتخابات جیسے کیسے ہوں‘ اُن میں شمولیت ضرور کرنی چاہیے تاکہ آپ پارلیمانی و جمہوری سیاسی نظام کا حصہ رہیں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نہایت حساس واقع ہوئی ہے۔ تین جون 2023ء کو بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے سلہٹ سے سٹی کارپوریشن کے انتخاب میں حصہ لینے والے اپنے 43لیڈروں کو تمام عمر کیلئے پارٹی سے خارج کر دیا۔ پاکستان میں بھی ہم ''جمہوری آمریت‘‘ کے کئی ماڈل دیکھ چکے ہیں۔ ضیا الحق کے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر پرویز مشرف کی ریموٹ کنٹرول ڈیمو کریسی سے 2018ء کے غیبی نتائج والے انتخابات تک ہم بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ اور اب پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘ دیکھیے 2024ء کے انتخابات کے کیسے نتائج نکلتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ شیخ حسینہ واجد کی تاریخِ عالم پر کتنی نظر ہے تاہم انہیں اپنے خطے کی 75سالہ تاریخ تو معلوم ہوگی۔ اس تاریخ کایہ سبق ہے کہ جبر اور بزور شمشیر جس کسی نے ون مین شو یا ون وومن شو سے اپنی من مانی کرنا چاہی‘ اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں