غزہ: نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی

ابھی دو تین روز قبل غزہ کا رہائشی میرا فلسطینی دوست عادل الشریف اپنی داستانِ غم بیان کر رہا تھا اور میری آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہچکیوں میں بدل چکے تھے۔ اس نے بتایا کہ جب سات سالہ لیلیٰ السلطان راتوں کو اچانک ہڑبڑا کر اٹھتی اور زور زور سے چیخنے لگتی ہے بابا‘ یا بابا‘ این انت یا بابا!۔ آپ کہاں ہیں بابا؟ یہ سن کر سینوں میں دل پگھل جاتے ہیں۔
اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں اس کا بابا چل بسا۔ اسی بمباری میں لیلیٰ کی ٹانگ بری طرح زخمی ہو گئی تھی۔ عادل نے آنکھوں دیکھے اپنے کئی عزیزوں اور دوستوں کی المناک اموات کے اندوہناک واقعات بیان کیے۔ اس وقت تک غزہ اور مغربی کنارے کے بعض علاقوں میں ہزاروں ایسے فلسطینی بچے ہیں کہ جو ماں باپ دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کی شفقت و محبت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں ایسے ماں باپ ہیں جو ہنستے مسکراتے بچوں کو منوں مٹی تلے اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکے ہیں۔
اب ذرا دل تھام کر یورپین میڈیکل اینڈ ہیومن رائٹس کی حال ہی میں جنیوا سے جاری کردہ رپورٹ کی تفصیلات سنیے! یورپ کے اس مؤقر ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی اندھا دھند بمباری اور گولہ باری سے دس ہزار سے زیادہ نومولود دودھ پیتے اطفال اور پھول سے بچے سات اکتوبر سے لے کر اب تک غزہ میں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بچے ایسے بھی تھے کہ جو اسرائیلی بمباری سے مسمار عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے تھے اور وہاں سے اُن کے رونے‘ کراہنے اور ماما‘ بابا کو پکارنے کی صدائیں آ رہی تھیں مگر اوپر سے برستے بموں کے دوران اُن کے زندہ بچ جانے والے اعزہ و اقارب تڑپ تو رہے تھے مگر ان میں سے اکثر کو بچا نہ سکے‘ اتنی بے بسی تھی۔ اس بے بسی کا سبب یہ تھا کہ کرینیں تھیں اور نہ ہی ملبہ ہٹانے والا دوسرا سامان دستیاب تھا۔
اسرائیل علی الاعلان دندناتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ بچوں کو ملا کر اس وقت تک تقریباً ساڑھے 23ہزار فلسطینی شہید اور لگ بھگ 60ہزار کے قریب شدید زخمی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل ڈیڑھ سو کے قریب فلسطینیوں کو خیمہ بستیوں‘ مہاجر کیمپوں‘ ٹوٹے پھوٹے ہسپتالوں اور ایمبولینسوں تک میں شہید کر رہا ہے۔ عربوں اور مسلمانوں کی بے بسی یا بے حسی دیکھیے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی اپنے بیس‘ بائیس لاکھ فلسطینی بھائی بہنوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے مگر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت لائقِ صد تحسین ہے کہ اس نے عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے جرائم کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے اور نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔جنوبی افریقہ نے یہ پٹیشن 29دسمبر 2023ء کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں دائر کی تھی۔ نیلسن منڈیلا کے دیس نے اپنے قائدِ حریت کی روایات کے مطابق غزہ کے فلسطینیوں کی اسرائیل کی طرف سے نسل کشی اور انہیں اپنی سرزمین سے نکال کر صحرائے سینا کے ریتلے ویرانوں کی طرف دھکیلنے جیسے بھیانک جرائم کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں پٹیشن دائرکی ہے۔ 84صفحات پر مشتمل نہایت عرق ریزی اور مدلل طریقے سے تیار کردہ اس درخواست میں ثابت کیا گیا ہے کہ اسرائیل ''نسل کشی کنونشن‘‘ کے وضع کردہ قوانین کی صریح خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
بہت سے ملکوں نے اپنے اپنے بیانات میں اسرائیلی نسل کشی کے حوالے دیے ہیں۔ ان ملکوں میں اسلامی و غیر اسلامی ممالک شامل ہیں۔ پاکستان بھی انہی ملکوں کی فہرست میں موجود ہے‘ تاہم ترکی‘ اُردن اور ملائیشیا نے کھل کر جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی حمایت کی ہے۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہے کہ طاقتور عرب سٹیٹ اور اسلامی ملکوں کے سردار سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیا ہے اور نہ ہی ان جرائم کی کوئی پُرزور مذمت کی ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا نے کمال جرأت مندی اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے غزہ میں نسلی بنیادوں پر فلسطینیوں کا صفایا کرنے کی کارروائیوں کا موازنہ اپنے ملک کے سابقہ گوروں کی کالے افریقیوں کے خلاف طویل نسل کشی اور غیر انسانی سلوک سے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح گوری اقلیت کی طرف سے ہماری نسل کشی کا خاتمہ 1994ء میں ہوا‘ اسی طرح اسرائیل مظالم کا بھی عنقریب خاتمہ ہوگا۔ جنوبی افریقہ کی اپیل میں عالمی عدالتِ انصاف سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کو فوری طور پر پابند کرے کہ وہ غزہ میں فضائی و زمینی حملوں کا سلسلہ بند کر دے۔
عالمی ادارۂ صحت نے غزہ کے لیے بدھ کو روانہ ہونے والے ایک اور طبی امدادی مشن کی روانگی کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس طرح کے پانچ مشن پہلے اور اب چھٹا مشن منسوخ ہوا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ امدادی مشن کی روانگی کو سکیورٹی کی انتہائی مخدوش صورتحال کی بنا پر منسوخ کرنا پڑا ہے ۔ عالمی ادارے نے بتایا کہ غزہ میں وبائی امراض کے پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔ نومبر کے مقابلے میں اب بچوں میں پیٹ اور دیگر بیماریاں 20گنا بڑھ چکی ہیں۔ خوراک‘ ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی غزہ آمد میں طرح طرح کی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
عالمی قوتوں کا دہرا معیار ملاحظہ کیجئے۔ ایک طرف امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اسرائیل کو مہلک سے مہلک اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور اسے مسلسل تھپکی بھی دے رہے ہیں‘ تبھی تو وہ تین ماہ سے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف گزشتہ کئی روز سے امریکی وزیر خارجہ شرقِ اوسط کا دورہ کر رہے ہیں۔ مصر‘ اُردن اور مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سمیت سب نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پر واضح کیا ہے کہ غزہ میں فی الفور سیز فائر کیا جائے اور اہلِ غزہ کو واپس اپنی سرزمین پر آنے دیا جائے اور انہیں دوبارہ کارِ آشیاں بندی کے لیے سازگار حالات مہیا کیے جائیں۔
انٹونی بلنکن نے بحرین میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اُن کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کو ایک بار پھر متحد ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اس امریکی تجویز کے پس پردہ کیا ہے‘ تاہم جنگ بندی کے بعد غزہ کی فلسطینی اتھارٹی حماس اور مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کی اتھارٹی کو باہم متحد ضرور ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں صدر محمود عباس کو یک طرفہ اقدام سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حماس کی قیادت اور صدر محمود عباس کو مل کر فلسطینی اتھارٹی کو ایک مکمل خود مختار ریاست کا سٹیٹس دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کئی سال قبل ایک عرب شاعر نے ایک جذباتی نظم لکھی تھی جو ساری عرب دنیا میں بہت مشہور ہوئی۔ شاعر نے کہا تھا کہ اگر ہم سارے عرب مل کر چیخ اٹھے تو اسرائیل میں زلزلہ آ جائے گا۔ اگر ہم متحد ہو کر روپڑے تو ہمارے آنسوؤں سے قابض یہودی ریاست میں سیلاب آ جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
بیچارے عرب اور مسلمان آہ و زاری اور چیخ پکار کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ مگر ہائے افسوس! مسلمان مل کر یہ چیخ پکار بھی نہیں کر رہے۔ اسی لیے تو اسرائیل میں زلزلہ آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی صدا امریکہ تک پہنچ رہی ہے۔ جب تک عرب اور مسلمان مل کر صدائے احتجاج بلند نہیں کریں گے اس وقت تک فلسطینیوں کی نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں