سسپنس‘ پاکستانی سیاست کا امتیازی نشان

ہفتے کی شب پھر وہی سسپنس تھا جو ہماری سیاست کا طرہّ امتیاز ہے۔ 1970ء سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسا انتخاب ہو جو بادِ بہاری کی طرح آیا اور خوشگوار اثرات چھوڑ کر گزر گیا ہو۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے عدالتی ایوانوں سے لے کر قہوہ خانوں تک اور مین سٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر طرف یہی بحث چل رہی تھی کہ تحریک انصاف کے پاس اس کا انتخابی نشان بلا باقی رہے گا یا اس سے چھن جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بلّے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں دو روز کی مسلسل سماعت کے بعد ہفتے کو رات گئے عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا اور الیکشن کمیشن کی درخواست کو شرفِ پذیرائی حاصل ہوا۔ یوں تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان ''بلّے‘‘ سے محروم ہو گئی۔ سیاسی طور پر یہ فیصلہ ایک غیرمقبول فیصلہ ہی شمار ہوگا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا یہ ہے کہ عوام کا فیصلہ اس سے مختلف ہو گا۔ اسی طرح تاریخ بھی اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ اُن کے خیال میں آخرِ شب کا یہ فیصلہ بھی ملک کے کئی دیگر غیرمقبول متنازع فیصلوں میں شمار کیا جائے گا۔
بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ ملک کی ایک بڑی جماعت سے اُس کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد اُس کے لیے بطور سیاسی جماعت الیکشن میں حصّہ لینے کی راہ میں رکاوٹ حائل ہو چکی ہے۔ جس پارٹی کے گزشتہ انتخاب میں ڈیڑھ کروڑ ووٹرز تھے‘ اس کے ووٹر اپنی پسند کی پارٹی کو منتخب کرنے کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایک زاویۂ نگاہ یہ بھی ہے کہ بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد من حیث القوم سیاسی سفر کو دستوری ٹریک پر رواں دواں کرنے کے لیے ایک پاپولر پارٹی کو سیاسی ریلیف مل جانا چاہیے تھا۔ ہمارے خیال میں فیصلے میں تاخیر کا سبب بھی یہی ہو گا۔ غالباً فاضل جج صاحبان سوچ رہے تھے کہ سیاسی طور پر ایک غیرمقبول فیصلہ دینے سے یہ تاثر پھیلایا جا سکتا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ پر کوئی دباؤ ہے جبکہ عدالتِ عظمیٰ کے دیگر کئی فیصلوں سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ موجودہ دور میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
جن لوگوں نے عدالتی کارروائی براہِ راست دیکھی ہے‘ اُن کا کہنا تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے کیس میں بہت سے قانونی و تکنیکی سقم تھے۔ کمزور بنیادوں پر کھڑے مقدمے کی پی ٹی آئی کے ماہر وکلا کی ٹیم بھی کامیاب وکالت نہیں کر سکی۔ دورانِ سماعت قدم قدم پر ان وکلا کے پاس عدالت اور فریقِ ثانی کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت میں وکلا کے مابین سوال اور جواب الجواب خاصے دلچسپ تھے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والے 14ارکان کے بارے میں تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ وہ ہمارے ممبران ہی نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور اکبر ایس بابر کے وکیل نے جواب الجواب میں اُن شکایت کنندگان کے نام پیش کیے جنہوں نے الیکشن کمیشن میں حاضر ہو کر اپنی پارٹی رکنیت کے ثبوت دیے تھے۔ حامد خان نے خود عدالت میں پی ٹی آئی کے جن گیارہ بانی ارکان کے نام پیش کیے اُن میں اکبر ایس بابر بھی شامل تھے۔اسی طرح فاضل جج صاحبان کی قانونی آبزرویشنز کے بارے میں بھی وکلا کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساڑھے آٹھ لاکھ ممبران کا الیکشن ہو رہا تھا اور انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ الیکشن کہاں ہونا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ تحریک انصاف کا نعرہ تو لوگوں کو بااختیار بنانے کا تھا مگر اس نے اپنے ہی ممبران کو انٹرا پارٹی الیکشن میں حصّہ لینے کا حق ہی نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی فیس 50ہزار روپے تھے۔ فیس کی یہ رقوم کیسے اور کہاں جمع ہوئیں اور اُن کی رسیدیں کہاں ہیں؟
وجوہات کچھ بھی ہوں مگر ایک مقبول سیاسی جماعت کا اپنے انتخابی نشان سے محروم ہونا اور عام انتخابات میں بطورجماعت حصہ نہ لے سکنا انتخابات کی کریڈیبلٹی کے لیے بھی بڑا نقصان ہے۔ تحریک انصاف کا پلان بی بھی فلاپ ہو گیا۔ پس پردہ تحریک انصاف کا پی ٹی آئی نظریاتی سے یہ معاہدہ طے پا گیا تھا کہ نشان نہ ملنے کی صورت میں ہمارے امیدواران آپ کی پارٹی کے انتخابی نشان بلّے باز پر الیکشن لڑیں گے۔ پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار نے آخری مرحلے پر ہفتہ کے روز پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ ہماری پارٹی کے نام پر بعض لوگ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں جبکہ ہم نے انہیں ٹکٹ جاری نہیں کیے تھے۔ یہ اچانک بے وفائی دیکھ کر پی ٹی آئی کے ایک دل گرفتہ لیڈر نے یہ شعر پڑھ دیا ؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تو ہم الیکشن پروسیس سے باہر ہو گئے ہیں۔ اب ہم کوئی نئی پالیسی بنائیں گے۔ سینئر مدبر وکیل کے بیان میں بین السطور ''انتخابی بائیکاٹ‘‘ جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے لیے ہمارا مشورہ یہی ہوگا کہ وہ الیکشن کا میدان خالی نہ چھوڑے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام تو موروثی پارٹیاں ہیں۔ اُن کے ہاں انٹرا پارٹی الیکشن محض انتخابی وراثت ہوتے ہیں مگر وہ الیکشن کے ضابطوں اور ہدایات کی تکمیل ضرور کرتی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کے ضلعی‘ صوبائی اور سربراہی انتخابات پارٹی کے دستور کے عین مطابق وقت پر ہوتے ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اس نے اپنے پارٹی انتخابات پر توجہ دی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی 2021ء سے لے کر 2023ء تک کی بار بار یاد دہانیوں کو پرِکاہ جتنی اہمیت دی۔
جہاں تک نگران حکومت کا تعلق ہے تو اس کی اوّل و آخر ذمہ داری آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ اب اگر کسی پارٹی کے امیدوار کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہو یا اس کے گھر پر ریڈ کیا جائے تو یہ آزادانہ انتخابی تقاضوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ہفتہ کے روز پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان کو عدالتِ عظمیٰ میں دلائل پیش کرتے ہوئے اطلاع ملی کہ اسلام آباد میں اُن کے گھر پر پولیس نے ریڈ کیا اور اُن کے بیٹے‘ بھتیجے اور ملازموں کو ہراساں کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے شدید ردّعمل کا اظہار کیا اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا۔ آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ می لارڈ! پولیس والے کچھ اشتہاریوں کی تلاش میں وہاں گئے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ بیرسٹر گوہر علی خان کا گھر ہے تو وہ واپس آ گئے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحبِ علم اور نہایت نفیس الطبع انسان ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہٗ احساس ہونا چاہیے۔ عدالت کا فیصلہ سیاسی طور پر مقبول عام نہیں۔ مختصر یہ کہ مقتدرہ سمیت ہماری تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر سٹیک ہولڈرز سیاسی سسپنس کو خیر باد کہہ کر روٹین کی دستوری سیاست کو اپنے جمہوری کلچر کے طور پر دل و جان سے خوش آمدید کہیں۔ ہمارے لیے یہی راہِ نجات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں