پھولوں کی غضبناکی

اب باغبان ہی نہیں سائنسدان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پودے انسانوں کی باتیں سنتے اور جواب میں اپنے تاثرات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ فِن لینڈ کی پروفیسر لارا بیلوف کے گھر کا پودا ایک کلک کی آواز دیتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ جب لارا اپنے ڈیسک پر کام کر رہی ہوتی ہیں تو اس وقت اُن کے ڈیزائن کردہ پودے سے جڑی ایک مشین خوش گوار انداز میں بات چیت کر رہی ہوتی ہے۔ بیلوف کہتی ہیں کہ یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے کہ جب میرے پاس مہمان آتے ہیں تو پودا خاموش ہو جاتا ہے۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پودا لارا سے صرف تنہائی میں راز و نیاز کرتا اور کسی نامحرم کے آنے پر خاموش ہو جاتا ہو گا۔ یہی طرزِ عمل پھولوں کا بھی ہے۔ پھول محسوس کرتے ہیں‘ پھول خوش ہوتے ہیں‘ پھول اُداس ہوتے ہیں اور پھول اظہارِ ناراضی بھی کرتے ہیں۔ پھولوں میں دلداری بھی ہے‘ خود داری بھی ہے اور حسبِ موقع راز داری بھی ہے۔ پھولوں کو اُن کی خود داری کا احساس دلاتے ہوئے مرشد اقبال فرماتے ہیں ؎
نہیں یہ شانِ خودداری‘ چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے‘ کوئی زیبِ گلو کر لے
یوں تو آج کل لاہور میں شدید سردی ہے مگر وہ ایک رگوں میں خون منجمد کر دینے والی انتہائی سرد شام تھی۔ میں ایک ڈینٹل کلینک میں بیٹھا ڈینٹسٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ کمرے میں اگرچہ برقی آتش دان جل رہا تھا مگر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس میں حدت نہ تھی۔ اتنے میں ایک آٹھ نو سال کا بچہ کلینک کے دروازے پر نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں گلاب کے پھول تھے جنہیں وہ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ میں نے بچے کو اندر بلایا۔ اس سے پہلے کہ میں بچے سے کوئی سوال جواب کرتا‘ پھولوں نے غضبناک ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا کہ گرم کپڑوں کی موٹی موٹی تہیں زیبِ تن کر کے تم ٹھٹھر رہے ہو‘ ذرا یہ تو دیکھو کہ اس بچے نے کیا پہن رکھا ہے۔
میرے محترم قارئین اس میں رَتی برابر مبالغہ نہیں‘ اس بچے نے بغیر بنیان کے صرف ایک پھٹی پرانی قمیض اور نیچے اسی طرح کی پتلی سی شلوار پہن رکھی تھی۔ میری تو جیسے جان نکل گئی۔ میرے گرینڈ چلڈرن کہیں مرکزی طور پر گرم کمروں میں گرم کپڑوں میں ملبوس آتش دانوں کے سامنے بیٹھے کھیل رہے ہوں گے اور یہ اُن جیسا ہی بچہ‘ اوہ میرے خدایا! پھولوں کی غضبناکی کا سامنا کرنے کا مجھے یارا نہ تھا اور ڈاکٹر بھی ابھی تک نہ آیا تھا۔ میں کلینک سے باہر آ گیا۔ گاڑی میں اپنے ساتھ بچے کو بٹھایا اور ڈرائیور سے گھر چلنے کو کہا۔ واپس پہنچ کر بیگم کو مختصراً ساری بات سمجھائی۔ اس کے بعد گھر میں موجود چھوٹے سائز کے کپڑے ٹھٹھرتے ہوئے بچے کو پہنائے گئے تاکہ سردی روکنے کا کوئی تو بندوبست ہو سکے۔ بچے کو گرم دودھ وغیرہ پلایا گیا۔ لاہور کے نواح میں واقع شامکے بھٹیاں کا رہنے والا یہ بچہ تھا۔ نہایت سمجھ دار تھا وہ طفلِ سادہ۔ اس نے بتایا عرصہ ہوا میری ماں فوت ہو چکی ہے اور میرا باپ ایک حادثے میں معذور ہو چکا ہے اور گھر پر ہے۔ ہم نے بچے کو تاکید کی کہ وہ اپنے باپ کا فون نمبر دے اور پھر ہمارے گھر آئے۔ بچہ پھر دوبارہ کبھی نہیں آیا۔
کچھ روز قبل چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے بھی ایسے ہی رات گئے شدید سردی میں بچوں کو پشاور کی سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھا تو انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے انتظامیہ کے نمائندوں کو بلا کر وارننگ دی کہ ایسا دوبارہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے شہر کی انتظامیہ اور چائلڈ کیئر کے ادارے سے استفسار کیا کہ اگر رات کو ایک بجے اس جان لیوا سردی میں بچہ پھول بیچ رہا ہو تو یہ کیسا منظر ہو گا؟ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ابراہیم خان نے کہا کہ اگر اب کوئی بچہ رات کو سڑک پر نظر آیا تو پھر چیف جسٹس اور نہ ہی وزیراعلیٰ سوئے گا۔ یہ تفصیلی خبر پڑھ کر مجھے یہ اطمینان ہوا کہ خدا کا شکر ہے کہ مسندِ عدل پر فائز افراد کے دل کی کیفیت وہی ہے کہ جسے استادِ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی نے یوں بیان کیا ہے ؎
مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے
یہ بات مجھے بے حد تڑپاتی ہے کہ راتوں کو بھیک مانگتے بچوں کا تو کوئی قصور نہیں‘ قصور ہے تو ان کے سنگدل والدین‘ بے حس حکمرانوں اور اپنی ذمہ داریوں سے عاری معاشرے کا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت دوکروڑ 62لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کسی بے وسیلہ بچے میں بھی پھلنے پھولنے اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب حاصل کرنے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے کسی باوسیلہ بچے میں ہوتے ہیں۔ البتہ سردیوں کی راتوں میں کسی معصوم بچے کو سڑکوں پر رُلتے دیکھ کر محض میرا تڑپنا تو اس مسئلے کا حل نہیں۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پشاور ہائی کورٹ ابراہیم خان کی شدّتِ احساس تو قابلِ قدر ہے مگر یہ بھی مسئلے کا حل نہیں۔ تو پھر اس اداس کرنے والے مسئلے کا حل کیا ہے۔
ابھی چند ہفتے قبل مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور اپنی پارٹی کی منشور کمیٹی کے صدر جناب عرفان صدیقی کے ارشاد کی تعمیل میں تعلیمی اصلاحات کا ایک مختصر دس نکاتی خاکہ میں نے اُن کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس مختصر نوٹ کا سب سے اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ آپ کی پارٹی قوم کو یہ خوشخبری دے کہ وہ برسراقتدار آ کر صرف کاغذوں میں نہیں بلکہ یقینی طور پر ہر بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضمانت دے گی۔ جہالت کے مہیب اندھیرے چھٹ جائیں گے تو ان شاء اللہ صبحِ منور ضرور طلوع ہو گی۔
ان دنوں انتخابی منشوروں کی گرم بازاری عروج پر ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی مزدوروں اور سفید پوشوں کی تنخواہوں کو دوگنا کرنے کی بات کرتی ہے۔ کوئی پارٹی تیس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کرتی سنائی دیتی ہے۔ کوئی جماعت تین سو یونٹ تک فری بجلی دینے کی نوید سناتی ہے۔ اس سے پہلے ہم گزشتہ پچپن برس سے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ سنتے چلے آ رہے ہیں۔ پھر پانچ برس قبل برسر اقتدار آنے والی جماعت نے 50لاکھ گھر تعمیر کرنے اور ایک کروڑ نئی ملازمتیں دینے کا سنہری وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔
جماعت اسلامی نے اپنے انتخابی منشور میں ہر بچے کو میٹرک تک یقینی تعلیم مہیا کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جماعت والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں برسراقتدار آ کر اور دو بار کراچی کا میئر بن کر ہر وہ وعدہ پورا کیا جس کا انہوں نے اپنے منشور میں ذکر کیا تھا۔ میں تو سیاسی پارٹیوں سے کہتا ہوں کہ وہ اور کوئی وعدہ پورا کریں یا نہ کریں مگر وہ جاڑے کی سرد ترین راتوں اور جون جولائی کی چلچلاتی دوپہروں میں پندرہ سال تک کے کسی بچے کے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر نہ آنے اور اُن کی سو فیصد سکولوں میں موجودگی کو یقینی بنائیں۔ جس روز ہماری سیاسی پارٹیاں اس منشور پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گی اس روز ہماری خوش قسمتی کا ستارہ جگمگائے گا۔
اس سرد ترین شام کے بعد میں جب بھی کملائے ہوئے ننھے منے بچے کے ہاتھوں میں گل دستہ دیکھتا ہوں تو پھولوں کی غضبناکی دیکھ کر سہم جاتا ہوں اور اُن سے آنکھیں چراتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں