منشوروں کی بہار

خدا کرے کبھی تو وہ دن آئے کہ جب پاکستانی ووٹرز صدیوں کی نسلی و لسانی غلامی اور چکنی چپڑی باتوں سے ماورا ہو کر منشور اور سیاسی جماعتوں کی سابقہ کارکردگی کو دیکھ کر ووٹ دیں۔ یہ تمنا بھی تھی کہ ہمارے ہاں بھی کبھی اس طرح کے نارمل حالات میں انتخابات کا انعقاد ہو جیسے جمہوری ملکوں میں ہوا کرتے ہیں۔ 1958ء سے لے کر موجودہ انتخاب تک شاید ہی کوئی ایسا الیکشن تھا کہ جب انتخاب سے پہلے‘ انتخاب کے دوران اور پھر انتخاب کے بعد حالات پُرسکون رہے ہوں۔ پچھلی بار میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز پسِ دیوارِ زنداں تھے‘ اس بار ایک اور سابق وزیراعظم اور اُن کی اہلیہ جیل میں ہیں۔ میں مقدمات کی نوعیت‘ عدالتوں کے طرزِعمل اور سزاؤں کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں اظہارِ خیال نہیں کر رہا‘ میں تو ایک ایسی خواہش کا اظہار کر رہا ہوں جو صرف میری ہی نہیں ہر محبِ وطن پاکستانی کی بھی ہے۔
گزشتہ چند روز کے دوران خیبرپختونخوا میں ایک جواں سال خوش رو نوجوان کے انتہائی افسوسناک قتل اور بلوچستان میں بدامنی و دہشت گردی کی کچھ وارداتوں کی بنا پر پھر افواہوں کو پَر لگ گئے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ جمعرات کے روز الیکشن کمیشن اور نگران حکومت اور امنِ عامہ کے ذمہ دار اداروں نے مل کر عزمِ صمیم کا اعلان کیا ہے کہ ان شاء اللہ سارے ملک میں آٹھ فروری ہی کو انتخابات ہوں گے۔ ملک میں چھوٹی بڑی جماعتوں کے پیش کردہ منشوروں کی بہار آئی ہوئی ہے گویا:
اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
ملکی میڈیا کے مطابق حالیہ انتخابات کے موقع پر سب سے پہلے جماعت اسلامی نے ‘تقریباً پانچ چھ ہفتے قبل ‘اپنا منشور پیش کیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے منشوروں کا باقاعدہ اعلان جنوری کے اواخر میں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بڑے پُرکشش مگر عمومی نوعیت کے وعدے کیے ہیں۔ بلاول بھٹو کے منشور کا سرفہرست وعدہ یہ ہے کہ پانچ سال میں آمدنی کو دوگنا کر دیا جائے گا۔ غریب طبقے کیلئے 300یونٹ مفت بجلی فراہم کی جائے گی۔ ہر بچے کیلئے تعلیم تک رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ پورے پاکستان میں صحت کا مفت نظام قائم کیا جائے گا۔ پسماندہ طبقے کو مالکانہ حقوق کے ساتھ گھر بنا کر دیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے کسان‘ مزدور اور یوتھ کارڈوں کے اجرا کا اعلان بھی کیا ہے۔ ملک بھر میں یونین کونسل کی سطح پر بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کیا جائے گا۔پانچ سال میں آمدنی کو دوگنا کرنے سے کیا یہ مراد ہے کہ اس عرصے میں فی کس آمدنی تقریباً 1600ڈالر سالانہ سے تین ہزار ڈالر فی کس ہو جائے گی۔ غریب طبقے کے لیے 300یونٹ فی کس مفت بجلی کے وعدے میں کوئی متعین بات نہیں کہی گئی ہے۔ بلاول بھٹو نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ پورے پاکستان میں صحت کا مفت نظام قائم کیا جائے گا۔ اس حسین و جمیل وعدے کے بارے میں تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں دیے گئے اہداف میں سے چند ایک قدرے متعین اور بہت سے عمومی نوعیت کے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی کے بقول (ن) لیگ کے انتخابی منشور کو ترتیب دینے کے لیے 32کمیٹیوں نے دن رات محنت کی۔ اس منشور میں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے امراضِ کہنہ کے مستقل علاج کے لیے کچھ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس منشور میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک سال میں مہنگائی کی شرح کو دس فیصد تک جبکہ پانچ سال میں اس شرح کو چار فیصد تک لایا جائے گا۔ اسی طرح برآمدات کو سالانہ 60ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں 35لاکھ گھرانوں کو دو کلو واٹ تک کے سولر پینلز آسان شرائط پر فراہم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ایک نئے شہر سمیت متعدد مراعات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ 1973ء کے دستورِ پاکستان کی دفعات62 اور 63کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے تو یہ مراد ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق نے ان دفعات کو اسلامی معیارِ اخلاق سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جو ترامیم و اضافے کیے تھے انہیں منسوخ کر دیا جائے گا۔
جماعت اسلامی نے اس بار اپنے منشور کو عوام الناس تک پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور نائب امرائے جماعت لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ اپنے منشور کے چیدہ چیدہ نکات کو جوش و خروش سے انتخابی جلسوں میں پیش کر رہے ہیں اور پاکستان کے جملہ مسائل کے بارے میں 'حل صرف جماعت اسلامی‘ کو قرار دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے منشور کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور ِپاکستان کے مطابق ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو گی ‘اس کے علاوہ آئین‘ جمہوریت اور قانون کی مکمل حکمرانی ہو گی۔جماعت اسلامی نے قومی ترقی میں جوہری ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے نیز نوجوانوں کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ملک گیر ٹریننگ کا بھرپور انتظام کیا جائے گا۔ انصاف‘ امن‘ روزگار‘ تعلیم‘ علاج اور چھت کو ہر پا کستانی کا حق قرار دیا گیا ہے اور اس کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی خواتین کی معاشی خود مختاری‘ اُن کیلئے زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کی فراہمی اور چار ماہ کی بامعاوضہ میٹرنٹی چھٹی اور وراثت کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے منصوبہ بندی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
ان جماعتوں کے منشوروں کو دیکھ کر یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ ادراک ہے کہ کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی جان نکال دی ہے اور جاتے جاتے نگران حکومت نے ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لیے بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ سبھی جماعتوں نے مہنگائی سے نجات کو اپنا ہدفِ اولیں قرار دیا ہے مگر کسی جماعت نے اس جان لیوا مصیبت سے رہائی کا کوئی واضح میکانزم عوام کے سامنے پیش نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال میں آمدن کو دوگنا کرنے کی نوید سنائی ہے‘مسلم لیگ (ن) نے فی کس آمدنی 2000ڈالر سالانہ کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ مگر انہوں نے الہ دین کے اُس چراغ کی نشاندہی نہیں کی جس سے یہ خوشحالی آئے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نیا شہر بسانے اور انہیں پارلیمنٹ میں لانے کی خوشخبری سنائی ہے ۔ یہ اچھی اور نئی تجویز ہے ‘اگلی پارلیمنٹ کو نئی قانون سازی کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال سے کم کرکے چار سال کر دینی چاہیے‘ مدت کی اس کمی سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔
مقامِ حیرت ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں زیورِ تعلیم سے محروم اُن پونے تین کروڑ بچوں کے لیے کسی منصوبے کا ذکر نہیں کیا جو سکولوں سے باہر ہیں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے یا ہوٹلوں اور ورکشاپوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ باقاعدہ قانون سازی سے 15سال تک کے ہر بچے کی سکول میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح تعلیم کو روزگار کے مواقع سے ہم آہنگ کرنے کا خوش نما وعدہ تو موجود ہے مگر اس کیلئے کسی منصوبہ بندی کا ذکر نہیں۔ دیکھئے منشوروں کی بہار اگلے چند سالوں میں کیا رنگ لاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں