کب تک ایسے انتخابات ہوتے رہیں گے؟

2024ء کے عام انتخابات پُرامن تھے مگر شفاف نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے بارے میں کچھ براہ راست معلومات کی بنا پر میرا تاثر تھا کہ وہ صاحبِ مطالعہ اور اچھی انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ 2018ء کے انتخابات کی پری پول مینجمنٹ اور الیکشن کے نتائج مرتب کرنے والے سافٹ ویئر کی انتہائی ناقص کارکردگی کی روشنی میں 2024ء کے الیکشن کیلئے بہتر انتظامات کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے اس بار یہ کہا کہ ہم ایک ایسا الیکٹرانک مینجمنٹ سسٹم لا رہے ہیں جو تیز رفتاری اور پوری شفافیت کے ساتھ نتائج مرتب کرے گا۔ یہ ای ایم ایس بھی گزشتہ انتخابات کے آر ٹی ایس کی طرح نہ صرف ابتدائے شب میں ہی بیٹھ گیا بلکہ پہلے سسٹم سے کہیں زیادہ بے اعتبار نکلا۔ رات کے ابتدائی پہر میں کئی امیدوار اچھے خاصے مارجن سے جیت رہے تھے‘ وہ رت جگے اور اپنے رزلٹ پر پہرہ داری کے باوجود صبح تک ہار چکے تھے اور ہارنے والے جیت چکے تھے۔
یہ ساری شعبدہ بازی یا ہاتھ کی صفائی کیسے دکھائی جاتی ہے۔ ہم آپ کے سامنے اس کی واضح تصویر پیش کریں گے‘ مگر پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 2018ء کے الیکشن کی طرح اس بار بھی پری پول مینجمنٹ ہوئی۔ ایک پارٹی کو نہ صرف اس کا برسوں پرانا انتخابی نشان نہ ملا بلکہ اُسے انتخابی مہم کے دوران آزادانہ طور پر اپنے ووٹروں سے جلسے جلوسوں کے ذریعے رابطہ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ تاہم 8فروری کو ووٹروں کا سیلِ رواں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے حق میں ووٹ دینے کیلئے ملک بھر میں نکلا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ ناموافق حالات میں تحریک انصاف کے مٹھی بھر حمایت یافتہ ارکان کامیاب ہو کر اسمبلیوں تک پہنچ پائیں گے مگر نتائج سامنے آئے تو بازی پلٹ چکی تھی۔ اس وقت تک تحریک انصاف سے متعلقہ 92ارکانِ قومی اسمبلی جیت چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا دعویٰ ہے کہ ہمیں 154سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پشاور‘ پنجاب و سندھ کے مختلف اضلاع اور کراچی میں مبینہ دھاندلی سے ہرائی گئی سیٹوں کے حصول کیلئے تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جی ڈی اے احتجاج کر رہی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ عروس البلاد میں ہماری جیتی ہوئی سیٹیں ایم کیو ایم کے پاس چلی گئی ہیں۔ اتوار کی شب ایم کیو ایم کے ایک لیڈر مصطفی کمال نے کہا کہ 2018ء میں ہم سے چھینی ہوئی قومی اسمبلی کی 14نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی گئی تھیں۔ یہی بات آج حافظ نعیم الرحمن کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں ہم سے اور آزاد امیدواروں سے چھین کر نشستیں ایم کیو ایم کو دی گئی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں متعین نوعیت کا الزام لگایا ہے کہ یہاں سے انہیں 29ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ ہارنے والے آزاد امیدوار سیف باری کے ووٹ 11 ہزار دکھائے گئے اور ایم کیو ایم کے ا میدوار کے خانے میں 20ہزار ووٹ درج کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں سے آزاد امیدوار کے ووٹ 31ہزار تھے اور ایم کیو ایم کو اس سیٹ سے صرف 6010ہزارووٹ ملے تھے یہی حال ایم کیو ایم کی ہر سیٹ پر تھا۔ یہ ساری تفصیل بتا کر حافظ نعیم الرحمن اس سیٹ سے یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے کہ یہاں سے کامیابی ان کا نہیں آزاد امیدوار کا حق ہے۔
اب ذرا یہ سمجھ لیجئے کہ دھرنا دینے والے امیدوار اور جماعتیں کس بنیاد پر اپنا حق مانگ رہی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباً ڈیڑھ‘ دو سو پولنگ سٹیشنوں پر جب پولنگ کا عمل وہاں کے امیدواروں کے ایجنٹس کی موجودگی میں مکمل ہو جاتا ہے تو ان کے سامنے بیلٹ پیپروں کی گنتی کی جاتی ہے۔ گنتی کے بعد پریزائیڈنگ افسر فارم 45 پر ہر امیدوار کے ووٹوں کا اندراج کرتا ہے اور اس کے ایجنٹ کے دستخط کروا کر ایک کاپی اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کے بعد تمام ووٹوں کی گنتی شدہ پرچیوں کو سرکاری تھیلے میں ڈالا جاتا ہے اور اس کو قبض الوصول لگا کر سیل کر دیا جاتا ہے۔ اب پریزائیڈنگ افسران ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں معین طریق کار کے تحت فارم جمع کرواتے ہیں۔
اب یہ ریٹرننگ آفس کا کام ہے کہ وہ ایک ایک قومی و صوبائی حلقے کے تمام پولنگ سٹیشنوں کے ووٹوں کو جمع کر کے اس سیٹ کا رزلٹ فارم 47 میں درج کرکے جاری کرتا ہے۔ احتجاج کرنے والے امیدواروں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے پاس تمام پولنگ سٹیشنوں کے فارم 45 پر دیے گئے اعداد و شمار آر او کے جاری کردہ فارم 47 سے یکسر مختلف ہیں۔ آر او آفس میں ہی شعبدہ بازی اور اعداد و شمار کی ''جادوگری‘‘ کا کرتب دکھایا جاتا ہے۔ ریٹرننگ افسر ہی سیاہ کو سفید اور قلت کو کثرت میں بدل کر کامیاب امیدوار کو ناکام ڈیکلئیر کر سکتا ہے۔ آر اوز پر دباؤ بھی ڈالا جا سکتا ہے اور دھونس کے ذریعے ان سے بات بھی منوائی جا سکتی ہے۔ این اے 87خوشاب کے ریٹرننگ افسر احمد صہیب اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں‘ انہوں نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ پچھلے دو تین دن اُن کے لیے ڈراؤنا خواب تھے۔
اندرون ملک کے علاوہ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپین یونین اور دولتِ مشترکہ نے بھی پاکستان میں عام انتخابات میں شکوک و شبہات اور انتخابی بے ضابطگیوں پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی بندش کی بھی مذمت کی ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ان بیرونی مطالبات پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ہارنے والے امیدوار ایک طرف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے عدالتوں میں جنگ لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی ساکھ بچانے کے لیے ہر شکایت کنندہ کے فارم 45 اور فارم 47 ان کے سامنے رکھ دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ہمارا پولنگ کا نظام نہایت بوسیدہ اور پیچیدہ ہے۔ ہم ابھی تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اندازِ نو سے ڈر رہے ہیں۔ ایک پاکستانی امریکن دوست نے بتایا کہ وہ امریکہ میں دو بار ووٹ ڈال چکے ہیں۔ ان کے بقول جب آپ پولنگ سٹیشن جاتے ہیں‘ وہاں پولیس ہوتی ہے نہ فوج۔ خاتون آپ سے آپ کا شناختی کارڈ لے کر اسے مشین میں ڈال کر آپ کا بیلٹ پیپر نکال لیتی ہے۔ آپ اس پر صدر‘ نائب صدر‘ گورنر غرضیکہ آٹھ دس عہدوں کے لیے اپنی پسند کے امیدوار کے سامنے نشان لگا دیتے ہیں۔ آن ڈیوٹی خاتون اس پیپر کو آپ سے لے کر دوسری مشین میں ڈالتی ہے اور وہ الیکشن آفس پہنچ جاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ حتمی نتیجہ بھی مرتب ہوتا رہتا ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی ردّ و بدل ممکن نہیں ہوتا۔ بھارت میں 2004ء سے لوک سبھا کے سارے انتخابات ان مشینوں کے ذریعے کروائے جا رہے ہیں۔ ہم کب تک متنازع انتخابات کے بھنور میں گردش کرتے رہیں گے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو مل کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابات کروانے کا متفقہ فیصلہ کر لینا چاہیے تاکہ روز روز کی دھاندلی اور جگ ہنسائی سے ہمیں نجات مل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں