میں تمہارے مشن کو جاری رکھوں گی

''مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہارے بغیر کیسے زندہ رہوں گی۔ تم نے مجھے 26سالہ رفاقت میں خوشیاں ہی خوشیاں دیں۔ اب دکھوں بھرے اس جہاں میں مجھے زندگی ایک بہت بڑا پہاڑ نظر آ رہی ہے۔ البتہ میں تم سے ایک وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہارے مشن کو جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی تاکہ تم اُس جہان میں خوش رہو اور مجھ پر فخر کر سکو۔ مجھے اندازہ نہیں کہ میں ایسا کر سکوں گی یا نہیں‘ مگر میں بھرپور کوشش ضرور کروں گی‘‘۔
جمعہ کے روز ماسکو میں دفن کیے جانے والے الیکسی نوالنی کی غمزدہ بیوہ یولیا نے یہ الفاظ بادیدہ تر ایکس پر لکھے تھے۔ نوالنی روس کا وہ کرشماتی لیڈر تھا جو چند برس کے دوران روس کے طول و عرض میں نوجوانوں کا ہی نہیں‘ ہر عمر کے روسیوں کا محبوب قائد بن گیا تھا۔ اس کا صرف دو نکاتی ایجنڈا تھا۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ ہم روس کو آزاد کرائیں گے اور دوسرا یہ کہ یہاں سے کرپشن کا خاتمہ کرا کے دم لیں گے۔ وہ آمرانہ روش اور کرپشن کے خلاف علمِ جہاد لے کر نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے دلوں پر حکمرانی کرنے لگا۔
1989ء تک سوویت یونین ایک آہنی پردے کے پیچھے چھپی ہوئی اشتراکی ریاست تھی۔ یہاں کمیونزم کا راج تھا۔ ملک کی صنعتیں ہی نہیں زرعی زمینیں بھی سرکار کی تحویل میں تھیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب کوئی کارخانہ یا کوئی زمین آپ کی ملکیت نہیں ہو گی تو آپ اس پر پتہ مار کر کام بھی نہیں کریں گے۔ سوویت یونین سات دہائیوں تک اس قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے شہریوں کو ایک ایک ڈبل روٹی حاصل کرنے کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا۔
میخائل گوربا چوف 1985ء سے 1991ء تک روس کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ 1990ء سے 1991ء تک روس کے صدر بھی تھے۔ اس دوران انہوں نے معاشی و سیاسی اصلاحات کی اشد ضرورت محسوس کی‘ لہٰذا انہوں نے ملک میں فری اکانومی قائم کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو خوش آمدید کہنے کا اعلان کیا۔ پرائیویٹ اونر شپ کا نظام رائج کر دیا گیا۔ سوویت یونین میں صرف کمیونسٹ پارٹی تھی مگر گوربا چوف کی سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں وہاں کئی سیاسی پارٹیوں کوکام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
گوربا چوف نے سوویت یونین کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے وہ ممالک بھی آزاد ہو گئے جو پہلے سوویت یونین کے زیر اثر تھے۔ اس کے علاوہ وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں بھی آزاد و خود مختار ہو گئیں جن کا مجبوراً سوویت یونین کے ساتھ الحاق تھا۔ ان تاریخ ساز اقدامات کی بنا پر 1990ء میں گوربا چوف کو امن کا نوبل پرائز بھی ملا تھا۔ 1993ء میں ان اصلاحات کی روشنی میں سوویت یونین کا نیا دستور وجود میں آ گیا۔ اس دستور میں ملٹی پارٹی کا اصول تسلیم کر لیا گیا اور کئی پارٹیاں بھی منظرِ عام پر آ گئیں۔ مگر صدیوں سے بادشاہوں اور پھر اشتراکی آمروں کی سرزمین کے برسراقتدار حکمرانوں نے حقیقی جمہوریت کو راستہ دینے سے انکارکر دیا۔ ولادیمیر پوتن کم و بیش گزشتہ 25برس سے ''صدارتی متحدہ روس‘‘ کے حکمران چلے آ رہے ہیں۔ کبھی بحیثیت وزیراعظم اور کبھی بحیثیت صدر۔ پوتن ریاست بھی ہے‘ پارلیمنٹ بھی اور من مانی کرنے والا حکمران بھی۔
دو ہفتے قبل جیل میں ہلاک ہونے والے جمہوریت پسند روسی مزاحمت کار کی زندگی زبردست جمہوری جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ سترہ برس قبل یعنی 30برس کے نوجوان نوالنی نے کرپشن کے خلاف اپنی جدوجہد کا منظم آغاز کیا تھا۔ اس نے حکومت کی ملکیتی تیل کی بہت بڑی کمپنی میں شیئر خریدے تاکہ اس کی رسائی منافع کی تقسیم وغیرہ کی رپورٹوں تک ہو سکے۔ ان رپورٹوں کے ذریعے وہ گھپلوں اور حکومتی لیڈروں کی کرپشن کا سراغ لگانا چاہتا تھا تاکہ حسبِ ضرورت ان ثبوتوں کو عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ 2011ء میں نوالنی نے اینٹی کرپشن فاؤنڈیشن قائم کی۔ ستمبر 2013ء میں اس نے ماسکو کے میئر کا الیکشن لڑا۔ اسے زبردست عوامی تائید حاصل تھی مگر جب نتیجہ سامنے آیا تو وہ ہار چکا تھا۔ اس نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا مگر تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح اس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔ اس دوران نوالنی کی شہرت اور مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ دسمبر 2017ء اس نے پوتن کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اسے ''خورد برد‘‘ کے جرم میں سزا کی بنا پر الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ مزاحمت کار سیاستدان کی سیاسی مزاحمت کا سلسلہ پھر بھی نہ رکا تو اسے جنوری 2021ء میں حوالۂ زنداں کر دیا گیا۔ اسے پہلے اڑھائی سال‘ پھر کرپشن کے الزامات میں 9سال اور آخر میں ''انتہا پسندی‘‘ کے جرم میں 19سال کی قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ حکمرانوں کا خیال ہوگا کہ شاید وہ جیل کی صعوبتوں کی بنا پر گھٹنے ٹیک دے گا اور معافی کا طلب گار ہوگا۔ مگر عشق کا جنوں ہو یا سیاست کا وہ ہار نہیں مانتا۔ بقول غالب ؎
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
نوالنی کی بیوہ یولیا نے الزام لگایا ہے کہ روس کے ہر دل عزیز لیڈر کو جیل کے اندر پتھر کے ایک چھوٹے سے سیل میں بھوکا رکھا گیا۔ جہاں بیرونی دنیا سے اس کا ہر رابطہ کاٹ دیا گیا۔ اسے ملاقاتوں کی اجازت تھی نہ ٹیلی فون کالوں کی اور نہ ہی خطوں کی۔ اس پر بھی بس نہیں کی گئی اور اسے جیل میں ہلاک کر دیا۔ روس سے باہر برسلز میں موجود یولیا اور دیگر کئی مغربی لیڈروں کے الزامات کو پوتن کے ترجمان نے ''واہیات‘‘ قرار دیا ہے۔ نوالنی کی آخری رسومات کے دن پوتن کے ترجمان پیسکاف نے کہا کہ اس کے پاس جیل میں ہلاک ہونے والے سیاستدان کی فیملی کے لیے کہنے کو کچھ نہیں۔ ترجمان نے درست ہی تو کہا کہ ان حالات میں اس کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ اس وقت گوربا چوف کی اصلاحات کے مطابق آزاد معیشت تو روس میں موجود ہے مگر آزاد سیاست ہرگز موجود نہیں۔ مسلمان ملکوں سمیت تیسری دنیا کے اکثر ممالک کا یہی حال ہے۔ ان ملکوں میں سرمایہ دارانہ معیشت اور جدید ٹیکنالوجی کا ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار تو موجود ہے مگر آزاد جمہوری دنیا کی آزاد سیاست ہے‘ نہ آزاد صحافت ہے اور نہ ہی کسی درجے میں آزادیٔ اظہار ہے۔
جمعہ کے روز جب نوالنی کے جسدِ خاکی کو اس کی وفات کے دو ہفتے بعد ماسکو کے چرچ میں لایا گیا تو باہر ہزاروں لوگ اس مزاحمتی سیاستدان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ فولادی ہیلمٹ پہنے ہوئے سینکڑوں پولیس والے صف در صف غمگساروں کو ڈرانے کے لیے وہاں موجود تھے مگر نوالنی کے پرستاروں کی آنکھوں میں کوئی خوف نہ تھا۔ اندر سے چپ چاپ سلگتے ہوئے پھولوں کی قطاروں کے علاوہ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار نعروں سے بھی کیا۔ ''نوالنی تو اکیلا نہیں۔ اب ہم سب نوالنی ہیں۔ خوف کا دور ضرور ختم ہو گا۔ اب روس کی حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہو گا‘‘۔
روس کے اس مزاحمتی سیاستدان کی جدوجہد کی کہانی دو روز تک پڑھنے اور سمجھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ طاقت سے کسی مقبول سیاستدان کی جدوجہد کو وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے مگر اس کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے نکالا نہیں جا سکتا۔مجھے یقین ہے کہ نوالنی کی بیوہ یولیا اپنے وعدے کو نبھائے گی اور اپنے مظلوم شوہر کے مشن کو ہزار مشکلات کے باوجود جاری رکھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں